Inquilab Logo

اقوام متحدہ : ایغور مسلمانوں پر تشدد کیخلاف۴۷؍ ممالک کا احتجاج

Updated: June 16, 2022, 12:58 PM IST | Agency | New York

ان ممالک نے مشترکہ بیان جاری کیا ، سنکیا نگ میں انسانی حقو ق کی سنگین صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ۔اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی سربراہ کے۶؍ دورۂ چین کی رپورٹ جلد از جلد شائع کرنے کا مطالبہ کیا۔ اقوام متحدہ کے تفتیش کار وں کی آزادانہ رسائی پر زور دیا۔ بیجنگ نے مشترکہ بیان پر دستخط کرنے والے ممالک کو منافق جبکہ اس بیان کو سیاسی سازبا ز کا نتیجہ قراردیا

Uighur Muslims also observe Eid prayers under strict guard..Picture:INN
ایغور مسلمان،سخت پہرے میں عید کی بھی نماز ادا کرتے ہیں۔ ۔ تصویر: آئی این این

 اقوام متحدہ  کے ایک اجلاس  میں ۴۷؍ ممالک  نے ایغور مسلمانوں پر کی جانے والی زیادتیوں کیخلاف احتجاج کیا ۔  ان ممالک نے چین میں ایغور اقلیتوں کے مبینہ استحصال پر تشویش ظاہر کی اور وہاں کی صورتحال کے متعلق اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی سربراہ کی رپورٹ جلد از جلد شائع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ واضح رہےکہ گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمشنر مشیل باچیلیٹ نے چین کا۶؍ روزہ دورہ کیا تھا۔ دورہ  مکمل کرنے کے بعد انہوں نے کہاتھا کہ چین سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں سے امتیازی سلو ک نہ کرے۔   انسانی حقوق کی کمشنر نے  سنکیانگ کا بھی دورہ کیا تھا جہاں بیجنگ  پر ایغور مسلمانوں کی ’نسل کشی‘ کے الزام ہے۔ چین پر الزام عائد کیا جاتا ہےکہ اس نے قریب ایک ملین ایغوروں کو تربیتی کیمپوں میں رکھا ہے جہاں انہیں جبری مشقت اور تشدد کا سامنا کرنا پڑ رہا  ہے۔ اس  پر  باچیلیٹ نے کچھ نہیں کہا تھا  جس انسانی حقوق کے گروپوں نے کہا تھا کہ  باچیلیٹ نے اس دورے میں چین کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کھل کر آواز نہیں اٹھائی تھی۔
مشترکہ بیان میں کیا کہا گیا ؟
   اس سلسلے میں اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کونسل کی جنیوا میں منگل کو ہونے والی میٹنگ کے دوران ڈچ سفیر پال بیکرز نے کہا،’’سنکیانگ میں ایغور خود مختار خطے میں انسانی حقوق کی سنگین صورت حال پر ہمیں سخت تشویش ہے۔ انہوں نے ۴۷؍ ملکوں کی جانب سے ایک مشترکہ بیان پڑھتے ہوئے  متعدد `معتبر رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ۱۰؍ لاکھ سے زائد ایغور اور دیگر مسلم اقلیتوں کو کیمپوں میں جبراً قید میں رکھا گیا ہے۔ بیجنگ نے ان کیمپوں اعتراف کیا ہے لیکن اس کا کہنا ہے کہ یہ `پیشہ ورانہ تربیت کے مراکزہیں اور `انتہا پسندی سے نمٹنے کے لئے ضروری ہیں۔‘‘انہوں نے مزید کہا ،’’ بڑے پیمانے پر  جاسوسی، ایغوروں اور اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد کے ساتھ تفریق آمیز سلوک کی خبریں بھی آرہی  ہیں۔‘‘اس مشترکہ بیان میں حکا م کے ذریعہ اذیت رسانی اور دیگر ظالمانہ اور غیر انسانی سلوک، توہین آمیز سزائیں، جبراً نس بندی، جنسی اور صنفی بنیاد پر تشدد، جبری مزدوری اور بچوں کو ان کے والدین سے زبردستی الگ کردینے کے واقعات پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
 چین سے اپیل  
 بیکرز نے مزید کہا ،’’ اس صورتحال سے فکر مند ممالک  چین سے ایک بار پھر اپیل کرتے ہیں کہ وہ ان کا ازالہ کرےاور مسلم ایغوروں اور اقلیتی فرقوں سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد کی جبراً قید کا سلسلہ بند کرے۔‘‘
 اس گروپ نے بیجنگ سے اقوام متحدہ کے تفتیش کاروں اور ماہرین کو سنکیانگ میں زمینی صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے بامعنی، بلاروک ٹوک اور آزادنہ رسائی فراہم کرنے کی بھی اپیل کی۔منگل کو جاری مشترکہ بیان میںمشیل باچیلیٹکے دورے پر چینی حکام کی جانب سے عائد رکاوٹوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے زیادہ بڑے پیمانے پر دورے کی اجازت دینے کی اپیل کی گئی۔مشترکہ بیان میں باچیلیٹ کےدورے کی رپورٹ  فوراًجاری کرنے کی اپیل کی گئی اورکہا گیا  کہ مشیل باچیلیٹ مزید معلومات فراہم کریں۔
چین کا ردعمل
 چین کے سفیر چین زو نے اس مشترکہ بیان پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا۔ انہوں نے نیدر لینڈ اور بیان پر دستخط کرنے والے دیگر ملکوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ،’’ یہ بیان چین پرجھوٹ اور افواہوں کا حملہ ہے۔  ہم ان الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہیں اور اس بیان پر دستخط کرنے والے ملکو ں کومنافق قرارد یتے  ہیں اور یہ سیاسی ساز باز  کا نتیجہ ہے۔‘‘ انہوں نے مشیل باچیلیٹ  کے دورے کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اس سے انسانی حقوق کی ترقی کیلئے چین کے اقدامات کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد ملی ہے۔
 خیال رہے کہ مہینوں کے اصرار کے بعد بیجنگ نے گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمشنر مشیل باچیلیٹ کو بالآخر سنکیانگ تک رسائی کی مشروط اجازت دے دی تھی۔ انہیں ایغور مسلمانوں سے ملاقات  سے روکا گیا تھا ۔ اہم بات یہ ہےکہ پچھلے۱۷؍ برس میں اقوام متحدہ کے کسی انسانی حقوق کمشنر کا چین کا یہ پہلا دورہ تھا لیکن چین کی مبینہ زیادتیوں کے خلاف تنقید سے گریز کرنے پر مشیل باچیلیٹ کوسخت تنقید کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ  باچیلیٹ کو چینی حکام کی مرضی کے مطابق اپنا دورہ کرنا پڑا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK