Inquilab Logo

امریکہ تائیوان معاملے میں مداخلت سے باز رہے

Updated: January 20, 2021, 11:36 AM IST | Agency | Beijing

جو بائیڈن کی حلف برداری سےمحض ۴۸؍ گھنٹے قبل چین کی امریکہ کو ھمکی۔ تائیوان معاملے میں امریکی حکام پر ’گھنائونا طرز عمل‘ اختیار کرنے کا الزام۔ رویہ تبدیل نہ کرنے پر پابندیوں کا انتباہ۔ ہانگ کانگ معاملے میں بھی ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے عائد پابندیوں کا جلدجواب دینے کی تیاری کا دعویٰ

Taiwan Army - Pic : INN
تائیوان آرمی ۔ تصویر : آئی این این

 امریکہ اور چین کے درمیان جاری  چپقلش  کے درمیان ایک بار پھر الزام تراشی اور انتباہ کی صورتحال سامنے آئی ہے۔ چین نے امریکہ کو متنبہ کیا ہے کہ وہ تائیوان کے معاملے میں  مداخلت نہ کرے۔ چین نے تائیوان میں امریکہ کی مداخلت کو  ’’گھناؤنا طرز عمل‘‘ قرار دیا ہے۔ ساتھ اس عمل پر روک نہ لگانے کی صورت میں  امریکی حکام پر پابندی لگانے کا عندیہ دیا ہے۔  اطلاع کے مطابق پیر کو چینی  وزارت خارجہ کی یومیہ نیوز بریفنگ میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وزارت کے  ترجمان ہوا چین نگ نے کہا کہ چین اپنے وعدے پر قائم ہے کہ تائیوان میں مداخلت سے باز نہ آنے پر امریک کو ’’بھاری قیمت‘‘  ادا کرنی پڑے گی۔‘‘
  ترجمان کا کہنا تھا کہ چین کی جانب سے بعض امریکی حکام پر پابندیاں لگائی جائیں گی جو اس طرح کے عمل میں ملوث ہیں۔ واضح رہے کہ  چینی وزارت خارجہ کا یہ بیان امریکہ کی جانب سے  تائیوان کے حکام کے ساتھ امریکی حکام کے براہ راست رابطے پر عائد پابندی کو ختم کرنے کے  اعلان کے بعد سامنے آیا ہے۔ یاد رہے کہ حال ہی میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اعلان کی تھا کہ اب امریکی حکام تائیوان کے سرکاری حکام سے رابطہ کرنے کیلئے کسی وسیلے کے محتاج نہیں ہوں گے۔ اس کے بعد گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ میں امریکی سفیر کیلی کرافٹ نے تائی پی کے طے شدہ دورے کے بعد تائیوان کے صدر سائی انگوین کو ٹیلی فون بھی کیا تھا۔
 واضح رہے کہ تائیوان   چین کے کنٹرول والا ملک ہے  جس کی یوں تو اپنی حکومت اور مشنری ہے لیکن وہ چینی حکومت کو جوابدہ ہے۔ جبکہ تائیوان خود کو ایک آزاد ملک کہلانا چاہتا ہے۔ جبکہ چین اسے بغاوت تصور کرتا ہے۔ امریکہ کے ساتھ چین کی حالیہ کشیدگی کے دوران امریکہ نے دانستہ تائیوان سے پینگیں بڑھانی شروع کی ہے تاکہ  اسے چین  کے تسلط سے آزاد کروایا جائے۔ اس کے اس اقدام کی وجہ سے چینی حکومت برہم ہے۔ 
  یاد رہے کہ امریکہ نے چین کے کنٹرول والے ایک اور ملک ہانگ کانگ میں کئی سرکاری عہدیداروں پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں جن پر الزام ہے کہ وہ چینی حکومت کی ایما پر جمہوریت پسند طبقے کو کچلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔   امریکہ کی جانب سے عائد کی جانے والی ان  پابندیوں کے تعلق سے سوال پوچھے جانے پر چینی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں بھی جن امریکی حکام، نمائندگان اور نجی تنظیموںں کا گھناؤنا کردار سامنے آیا ہے ان کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ انہوں نے پابندیاں عائد کرنے کے حوالے سے امریکی حکام اور پابندیوں کی نوعیت کی تفصیلات نہیں بتائیں البتہ اتنا ضرور کہا کہ امریکی کارروائیوں کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ یاد رہے کہ  چین کئی مرتبہ یہ واضح کرچکا ہے کہ تائیوان اس کیلئے انتہائی حساس اور اہم ترین معاملہ ہے، اس لئے تائیوان کے ساتھ ہتھیاروں کی فروخت کرنے والی امریکی کمپنیوں پر کچھ عرصہ قبل چین نے پابندیاں عائد کردی تھیں۔
 گزشتہ سال سے  دنیا کی دو بڑی اقتصادی قوتوں، چین اور امریکہ کے مابین تائیوان، جنوبی بحیرہ چین ، ہانگ کانگ اور کورونا وائرس سے متعلق تنازعات  شدت اختیار کرچکے ہیں  اور اس حوالے سے دونوں ممالک تند وتیز بیانات سے بڑھ کر اب سفارتی سطح پر پابندیاں عائد کرنے کے اقدامات بھی کررہے ہیں۔ لیکن ایک اہم بات یہ ہے کہ چین کے ساتھ امریکہ کا تنازع ڈونالڈ ٹرمپ کے دوراقتدار میں عروج پر پہنچا ہے جبکہ ڈونالڈ ٹرمپ  اب بطور صدر وہائٹ ہائوس کے محض ایک روز کے مہمان ہیں۔ ایسی صورت میں چین کا یہ بیان اور بھی معنی خیز ہو جاتا  ہے۔ 
 اکثر مبصرین کا کہنا ہے کہ جو بائیڈن کی  حلف برداری کے بعد چین اور امریکہ کے مابین تعلقات خوشگوار نہ  ہوئے تو کشیدہ بھی نہیں رہیں گے۔  کیونکہ بائیڈن ڈونالڈ ٹرمپ کی بیشتر  خارجہ پالیسیوں کو تبدیل کرنے والے ہیں لیکن چین کا یہ بیان  بائیڈن کی حلف برداری کے محض ۴۸؍ گھنٹے پہلے آیا ہے اس کی وجہ سے تشویش میں اضافہ ہوا ہے کہ کیا ان دونوں عالمی طاقتوں کے درمیان تعلقات معمول پر آنے جا رہے ہیں یا مزید کشیدہ ہونے کا امکان ہے؟  یاد رہے کہ جو بائیڈن نے اب تک چین کے خلاف کوئی  بیان نہیں دیا ہے ، نہ تو الیکشن مہم کے دوران اور نہ ہی الیکشن جیتنے کے بعد۔ اب تک انہوں نے یہ بھی واضح نہیں کیا ہے کہ اگر وہ اقتدار میں آئے تو ان کا چین کے ساتھ رویہ کیسا ہوگا جیسا کہ انہوں نے ایران کے ساتھ امریکہ  کا رویہ تبدیل کرنے کی بات کہی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK