Inquilab Logo

شیرین ابوعاقلہ کے قتل کا ذمہ دار اسرائیل ہے:امریکی اراکین کانگریس

Updated: May 14, 2022, 12:31 PM IST | Agency | Washington

امریکی ایوان نمائندگان کی ڈیموکریٹک اسپیکر نینسی پیلوسی نے اس قتل کو ایک ’خوفناک سانحہ‘ قرار دیا

Shereen Abu Aqleh.Picture:INN
شیرین ابوعاقلہ۔ تصویر: آئی این این

 فلسطینی صحافی شیرین ابوعاقلہ کی موت پر امریکی کانگریس کے ۲؍  اراکین نے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیل پر شدید تنقید کی ۔  کانگریس کے اراکین نے امریکی شہریت یافتہ شیرین ابو عاقلہ  کے قتل پر ایک منٹ کی خاموشی اور سوگ منایا۔کانگریس کے اراکین آندرے کارسن اور الہان عمر نے اسرائیلی فوج پر ابو عاقلہ کو جان بوجھ کر قتل کرنے کا الزام لگایا۔کارسن نے امریکی حکومت پر زور دیا کہ وہ صحافی شیرین ابو عاقلہ کے مجرمانہ قتل پر اسرائیلی حکومت کو جوابدہ قرار دے کر اس واقعے کی عالمی سطح پر تحقیقات کرائے۔   درایں اثناء امریکی کانگریس کی مسلمان رکن الہان عمر نے اسرائیلی فوج پر الجزیرہ کی رپورٹرکے دانستہ قتل کا الزام عائد کرتے ہوئے اسرائیل کو دی جانے والی سالانہ ۳؍ ارب ۸؍ کروڑ ڈالر کی امریکی فوجی امداد بند کرنے کا مطالبہ کیا۔انہوں نے کہا کہ امداد ایسے وقت میں جاری ہے جب اسرائیل۴۰؍  فلسطینیوں کے گھروں کو تباہ کر رہا ہے اور انہیں بے گھر کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ ایک ہزار دیگر کو مغربی کنارے سے نکالنے کا منصوبہ بنا رہا ہے جو۱۹۶۷ء کے بعد سے سب سے بڑی اجتماعی بے دخلی ہے۔ انہوں نے سوال قائم کیا کہ کیا اس کے بعد بھی اسرائیلی ریاست کا انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں پر مواخذہ نہیں ہوگا۔ امریکی ایوان نمائندگان کی ڈیموکریٹک اسپیکر نینسی پیلوسی نے اس قتل کو ایک ’خوفناک سانحہ‘  قرار دیتے ہوئے’’مکمل، بامقصد اور فوری تحقیقات‘‘ کا مطالبہ کیا۔پیلوسی نے کہا کہ’’کانگریس دنیا بھر میں پریس کی آزادی کے دفاع کے لئے  پرعزم ہےاور ہر صحافی، خاص طور پر جنگ زدہ علاقوں میں پیشہ وارانہ خدمات انجام دینے والے میڈیا کارکنوں  کے تحفظ کے لئے  پرعزم ہے۔‘‘مشرق وسطیٰ کے لئے  ذمہ دار ذیلی کمیٹی کے سربراہ سینیٹر کرس مرفی نے کہا کہ ’’تجربہ کار فلسطینی نژاد امریکی صحافی شیرین ابو عاقلہ محض اپنا کام کر رہی تھیں جب انہیں گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ خاتون صحافی کی المناک موت کو ہر جگہ آزادی اور پریس پر حملے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے اور اس کی مکمل تحقیقات ہونا چاہیے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK