Inquilab Logo Happiest Places to Work

امریکی سرکاری ملازمین اب ساتھیوں کو مذہب کی تبلیغ کرسکیں گے: ٹرمپ میمو

Updated: July 29, 2025, 7:03 PM IST | Washington

امریکی سرکاری ملازمین اب ساتھیوں کو مذہبکی تبلیغ کرسکیں گے، ٹرمپ کی حمایت سے جاری نئی ہدایات کے تحت وفاقی ملازمین اب کام کی جگہ پر مذہبی علامات آویزاں کرسکیں گے، عبادت کیلئے جماعتیں بناسکیں گے اور اپنے ذاتی عقیدے کی تشہیر کرسکیں گے۔

President of  America Donald Trump. Photo INN
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ۔ تصویر: آئی این این

صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے ایک نئے میمو کے ذریعے وفاقی ملازمین کو کام کی جگہ پر کھل کر اپنے مذہبی عقائد کی تشہیر کی اجازت دے دی ہے۔  یہ میمو۲۸؍ جولائی کو امریکی حکومت کے انسانی وسائل کے ادارے `آفس آف پرسنل مینجمنٹ ( او پی ایم) نے جاری کیا، جس میں وفاقی ملازمین کے لیے’’مذہبی آزادی‘‘ کو مضبوط بنانے کے وسیع تحفظاتی اقدامات بیان کیے گئے ہیں۔او پی ایم کے ڈائریکٹر اسکاٹ کیوپور نے رائٹرز کے حوالے سے ایک بیان میں کہا کہ اداروں کے ملازمین دفتر میں دوسروں کو اپنے مذہبی نظریات کی درستگی پر قائل کرنے کی کوشش‘‘ کرسکیں گے۔  بیان کے مطابق، نگران افسران اپنے ماتحت ملازمین کو اپنے مذہب کی دعوت دے سکیں گے، بشرطیکہ یہ کوششیں ’’ہراساں کرنے والی نوعیت‘‘ کی نہ ہوں۔ ادارے اپنے ملازمین کو ان کے ساتھیوں سے مذہبی خیالات پر بات کرنے سے انکار پر سزا نہیں دے سکیں گے۔  میمو میں مزید کہا گیا’’آرام کے وقفے کے دوران ایک ملازم دوسرے کو شائستگی سے یہ بتا سکتا ہے کہ اس کا ایمان کیوں درست ہے اور غیر مقلد کو کیوں اپنے مذہبی عقائد پر دوبارہ غور کرنا چاہیے۔ تاہم، اگر غیر مقلد ایسی کوششوں کو روکنے کی درخواست کرے تو ملازم کو اس کی خواہش کا احترام کرنا چاہیے۔ایک ملازم دوسرے کو اپنی عبادت گاہ پر دعوت دے سکتا ہے، چاہے وہ کسی مختلف مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: غزہ جنگ: ۲۰۲۵ء میں ۱۶؍ جبکہ جنگ کے آغاز سے اب تک ۵۴؍ اسرائیلی فوجی خودکشی کرچکے ہیں: رپورٹ

 پانچ صفحات پر مشتمل میمو کے مطابق، وفاقی ملازمین کو ابچند باتوں کی  اجازت ہوگی جن میں اپنے کام کی جگہ پر بائبل، صلیب یا تسبیح جیسی مذہبی علامات آویزاں کرنا ، غیر اوقاتِ کار میں عبادت کی جماعتوں میں شامل ہونا یا انہیں منظم کرنا، ساتھی ملازمین کے ساتھ اپنے عقیدے پر بات چیت یا اشتراک کرنا (بشمول قائل کرنے کی کوششیں) ، مذہبی تقریبات خصوصاً عبادات کے لیے ٹیلی ورک یا لچکدار اوقات کی درخواست سمیت مذہبی رعایتیں مانگنا ۔ میمو میں زور دیا گیا ہے کہ نگران افسران بھی مذہبی عقائد کا اظہار کرسکتے ہیں، بشرطیکہ وہ ملازمین کو مجبور نہ کریں یا سرکاری توثیق کا اشارہ نہ دیں۔  واضح رہے کہ یہ امریکی قانون میں پہلے سے موجود تحفظات جیسے آئین کی پہلی ترمیم اور سول رائٹس ایکٹ کی دفعہ۷؍ (جو مذہبی امتیاز کو روکتی ہے) پر استوار ہے۔  میمو وفاقی کام کی جگہ پر مذہب کے کردار کو وسعت دینے کی تازہ ترین کوشش ہے۔ کیوپور نے ایک پریس بیان میں کہا’’وفاقی ملازمین کو کبھی بھی اپنے عقیدے اور کیریئر کے درمیان انتخابپر مجبور نہیں ہونا پڑےگا۔‘‘او پی ایم نے جولائی کے وسط میں کہا تھا کہ پہلے دفتر میں مکمل وقت گزارنے کا مطالبہ کرنے کے بعد اب اداروں کے ملازمین مذہبی عبادات کی رعایت کے لیے گھر سے کام یا اوقات کی ایڈجسٹمنٹ کی اجازت لے سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: ’’غزہ کے عوام نے جو دکھ برداشت کئے، وہ پوری امت نہیں کرسکی‘‘

اس میمو کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ پالیسی عوامی شعبے میں مذہبی آزادی کو مضبوط بناتی ہے۔ تنقید کرنے والوں کا خیال ہے کہ اس سے سرکاری دفاتر میں مذہب اور حکومت کی علیحدگی متاثر ہوگی اور تبلیغ کو فروغ ملے گا۔ یہ تازہ اقدام وائٹ ہاؤس کے `فیتھ آفس کے قیام اور حکومت میں ’’مذہب مخالف تعصب‘‘کے خلاف اقدامات کے بعد ٹرمپ انتظامیہ کی عوامی اداروں میں مذہبی اظہار کو فروغ دینے کی وسیع کوششوں کا حصہ ہے۔ حالیہ صدارتی انتخاب میں اوانجلیکل عیسائیوں کی بڑی تعداد نے ٹرمپ کو ووٹ دیا تھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK