Inquilab Logo Happiest Places to Work

امریکی ویٹو پر شدید تنقید، میلان کے پلازو مرینو پر’’ آل آئیز آن غزہ‘‘ روشن

Updated: June 05, 2025, 6:01 PM IST | Washington

۴؍جون۲۰۲۵ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ میں فوری، غیر مشروط اور مستقل جنگ بندی کی قرارداد کو امریکہ نے ویٹو کر دیاجس کے بعد ممبران نے امریکہ پر سخت تنقید کی، اس دوران میلان (اٹلی) کے پلازو مرینو پر ’’آل آئیز آن غزہ‘‘ چمکتا رہا۔

US Ambassador Dorothy Shea (hands raised). Photo: INN.
امریکی سفیر ڈوروتھی شیا(ہاتھ اٹھائے ہوئے)۔ تصویر: آئی این این۔

۴؍جون۲۰۲۵ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ میں فوری، غیر مشروط اور مستقل جنگ بندی کی قرارداد کو امریکہ نے ویٹو کر دیا، حالانکہ باقی۱۴؍ ارکان نے اس کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ یہ قرارداد۱۰؍ غیر مستقل ارکان کی جانب سے پیش کی گئی تھی اور اس میں انسانی امداد کی بلا رکاوٹ فراہمی اور تمام یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ شامل تھا۔ امریکی نائب سفیر رابرٹ ووڈ نے ویٹو کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ قرارداد میں جنگ بندی کو یرغمالیوں کی رہائی سے مشروط نہیں کیا گیا جو امریکہ کیلئے ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ قرارداد میں حماس کے۷؍ اکتوبر۲۰۲۳ء کے حملے کی مذمت بھی شامل نہیں تھی، جو امریکہ کیلئے ایک اور اہم نکتہ تھا۔ 

یہ بھی پڑھئے: امدادی مراکز پر پھر بمباری، ۱۰۰؍فلسطینی شہید، ۴۴۰؍ زخمی

امریکی اقدام پر عالمی سطح پر شدید تنقید کی گئی۔ چین، برطانیہ، پاکستان اور دیگر ممالک نے امریکہ پر الزام لگایا کہ وہ اسرائیل کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں سے بچا رہا ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس کے دفتر نے کہا کہ امریکہ کا ویٹو اسرائیل کو غزہ اور لبنان میں معصوم شہریوں کے خلاف جرائم جاری رکھنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ بتا دیں کہ غزہ میں انسانی بحران شدید تر ہوتا جا رہا ہے، جہاں اب تک۵۴؍ ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، اور لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ خوراک، پانی اور طبی سہولیات کی شدید قلت ہے، اور امدادی تنظیمیں محدود رسائی کی وجہ سے امداد فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ 

اس دوران اٹلی کے شہر میلان میں واقع تاریخی عمارت پلازو مرینو پر’’All Eyes on Gaza‘‘ کا پیغام روشن کیا گیا جو غزہ کے عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کی علامت ہے۔ یہ اقدام دنیا بھر میں جاری احتجاجات اور یکجہتی کے مظاہروں کا حصہ ہے، جو غزہ میں جنگ بندی اور انسانی امداد کی فراہمی کیلئے عالمی دباؤ بڑھا رہے ہیں۔ اب توقع کی جا رہی ہے کہ فلسطینی نمائندے اسی نوعیت کی قرارداد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کریں گے، جہاں ویٹو کا اختیار نہیں ہوتا اور یہ قرارداد عالمی رائے عامہ کی عکاسی کرے گی اگرچہ اس کی قانونی حیثیت سلامتی کونسل کی قراردادوں جیسی نہیں ہوگی۔ 

 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK