Inquilab Logo Happiest Places to Work

اترپردیش حکومت پر۵؍ لاکھ روپے جرمانہ

Updated: June 26, 2025, 4:19 PM IST | New Delhi

ذاتی مچلکہ بھرنے کے بعد بھی غازی آبادجیل انتظامیہ نے آفتاب کو ۲۸؍ دن جیل میں رکھا تھا ، عدالت نے اسے انصاف کے ساتھ دھوکہ قراردیا

The Supreme Court has also strongly reprimanded the UP government.
سپریم کورٹ نے یوپی حکومت کی سخت سرزنش بھی کی ہے

تبدیلی مذہب کے قانون کے تحت گرفتار کئے گئے ملزم کوضمانت ملنے کے باوجودرہا نہ کرنے پرسپریم کورٹ نے یوپی حکومت کی نہ صرف سرزنش کی بلکہ اس پر۵؍ لاکھ روپےکا جرمانہ بھی عائد کیا ۔آفتاب نامی ملزم کو شادی کیلئے تبدیلی مذہب کے معاملے میں اپریل میں ضمانت دی گئی تھی لیکن غازی آباد ضلع جیل انتظامیہ نے اسے رہا نہیں کیا اورغیر قانونی طورپر قید رکھا تھا۔ سپریم کورٹ میں بدھ کو اس معاملے پر سماعت ہوئی اورجسٹس کے وی وشوناتھن اور جسٹس کوٹیشورسنگھ کی بینچ نے یوپی حکومت کوحکم دیاکہ وہ ملزم کو۵؍ لاکھ روپےادا کرے ۔ بینچ نے سماعت کے دوران آزادی کو ایک قیمتی اور بنیادی حق قرار دیتے ہوئے اتر پردیش حکومت کو یہ ہدایت دی ۔ عدالت سے ضمانت ملنے اور مچلکہ بھرنے کے بعد بھی آفتاب کو `تکنیکی بنیادوں کا حوالہ دیتے ہوئے رہا نہیں کیا گیا اورغیر قانونی طریقے سے۲۸؍ دنوں تک جیل میں رکھا گیا۔
جسٹس کے وی وشواناتھن اور جسٹس این کوٹیشور سنگھ کی بنچ نے کہا کہ `بھگوان جانتا ہے کہ ایسے کتنے لوگ جیلوں میں سڑ رہے ہیں۔ جسٹس وشواناتھن نے `تکنیکی باتوں پر زور دینے والے جیل حکام کے طرز عمل کی مذمت کی جو آزادی کے حق کی خلاف ورزی ہے۔ غازی آباد کے پرنسپل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو حکم دیا گیا کہ وہ اس کی جانچ کریں اور اس شخص کی رہائی میں ۲۸؍ دن کی تاخیر کے ذمہ دار اہلکاروں کو تفتیش کے دائرے میں لائیں۔
 اتر پردیش کے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل گریما پرساد اور یوپی کے ڈائریکٹر جنرل جیل خانہ جات پی سی مینا نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے عدالتی کارروائی میں شرکت کی۔ غازی آباد جیل کے جیل سپرنٹنڈنٹ بنچ کے سامنے موجود تھے۔
یوپی حکومت کے وکیل کی دلیلیں مسترد
 جسٹس وشواناتھن نے کہا کہ جب ضمانت کے حکم سے کیس اور جرائم کی تفصیلات واضح ہیں تو غیر سنجیدہ تکنیکی اور غیر متعلقہ غلطیوں کی بنیاد پر ذاتی آزادی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ جسٹس وشواناتھن نے ریاستی وکیل پر واضح کیا کہ وہ ان کی طرف سے پیش کی گئی دلیل کو قبول نہیں کر سکتے کہ قیدی کو اس لیے رہا نہیں کیا گیا کیونکہ ضمانت کے حکم میں کسی خاص شق کا ذکر نہیں کیا گیا تھا ۔ آزادی کو ایک قیمتی اور بنیادی حق قرار دیتے ہوئے جسٹس وشواناتھن نے کہا’’عدالتی احکامات پر تبصرہ کرنا اور بہانے سے ان پر عمل درآمد نہ کرنا اور شخص کو سلاخوں کے پیچھے رکھنا فرض سے سنگین غفلت  ہے۔‘‘ جسٹس وشواناتھن نے پی سی مینا سے پوچھا’’اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ بہت سے دوسرے اس کی وجہ سے تکلیف نہیں اٹھا رہے ہیں؟‘‘
پورا معاملہ کیا ہے؟
 ۲۹؍ اپریل کو سپریم کورٹ نے آفتاب نام کے ایک شخص کی ضمانت منظور کی تھی جس نے خبروں کے مطابق رضاکارانہ طور پر ہندو مذہب اختیار کیا تھا اور ہندو رسم و رواج کے مطابق ہندو لڑکی سے شادی کی تھی جبکہ لڑکی کی خالہ نے لڑکی گمشدگی کی شکایت درج کرائی تھی۔  اس شخص کے خلاف اس وقت کے آئی پی سی کی دفعہ۳۶۶؍(کسی عورت کو اغوا کرنا،  یا اسے شادی کرنے پر مجبور کرنا وغیرہ) اور دفعہ۳؍ اور۵؍ (غلط بیانی، زبردستی، دھوکہ دہی، ناجائز اثر و رسوخ، جبر، لالچ کے ذریعہ تبدیلی مذہب کی ممانعت ایکٹ) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا ۔حالانکہ استغاثہ نے عدالت میں دعویٰ کیا تھا کہ مسلم شخص نے جبراً تبدیلی مذہب کراکرلڑکی سے شادی کی ہے۔
 منگل کو بینچ نے یہ جاننے کے بعد عدم اطمینان کا اظہار کیا کہ اپریل میں  اس معاملے میں ضمانت پانے والے شخص کو ابھی تک جیل سے رہا نہیں کیا گیا ہے۔ عدالت نے اسے انصاف  کے ساتھ  دھوکہ قرار دیا اور ڈسٹرکٹ جیل غازی آباد کے سپرنٹنڈنٹ جیلر کو ذاتی طور پر پیش ہونے کی ہدایت دی۔سپریم کورٹ نے نوٹ کیا تھا کہ اس نے۲۹؍ اپریل کو اس شخص کو ذاتی حاضری کے لیے نوٹس جاری کیا تھا۔ بعد ازاں اس کی ضمانت منظور کر لی گئی اور۲۷؍مئی کو غازی آباد کی ایک ٹرائل کورٹ نے جیل سپرنٹنڈنٹ کو رہائی کا حکم جاری کیا تھا۔ اس معاملے پر ہونے والی پیش رفت کا سپریم کورٹ اب ۸؍ اگست کو سماعت میں جائزہ لے گا ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK