• Sat, 06 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

دہلی ہائی کورٹ نے ہندوتوا تنظیم کی تین درگاہوں اورایک مزار ہٹانے کی عرضی خارج کی

Updated: September 05, 2025, 10:05 PM IST | New Delhi

دہلی ہائی کورٹ نے تین درگاہوں اور ایک مزار کو ہٹانے کی عرضی خارج کرتےہوئے عرض گزار ہندوتوا تنظیم کو بھی یکطرفہ طور پر مسلمانوں کی عبادتگاہوں کی نشاندہی کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔

Delhi High Court. Photo: INN
دیلی ہائی کورٹ۔ تصویر: آئی این این

 ہندوتوا این جی او `سیو انڈیا فاؤنڈیشن کی جانب سے دہلی ہائی کورٹ میں ایک ایسی درخواست مسترد کردی گئی ہے جس میں جمنا کے سیلابی میدان پر مبینہ غیرقانونی قبضے کی نشاندہی کرتے ہوئے ایک مزار اور تین درگاہوں کو ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔کورٹ نے بدھ کے روز اس درخواست کو خارج کردیا، جس پر چیف جسٹس ڈی کے اپادھیائے نے تنظیم کی منشا پر سوال اٹھائے اور مسلم مذہبی مقامات کے جانبدارانہ ہدف بنانے پر تشویش کا اظہار کیا۔عدالت  نے پوچھا’’آپ مبینہ طور پر قبضہ شدہ مزاروں کو منتخب کیسے کرتے ہیں؟ کیا آپ کو دوسرے قبضے نظر نہیں آتے؟ آپ صرف مزاروں کی نشاندہی کیوں کر رہے ہیں؟‘‘جسٹس تشار راؤ گاڈیلا پر مشتمل بینچ نے تبصرہ کیا،کہ یہ اس بینچ کے سامنے پیش ہونے والی پانچویں یا چھٹی درخواست ہے جس میں آپ کسی مزار کو ہٹانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ یہ ڈھانچہ جائز ہے، لیکن خاص طور پر مزار کیوں؟ اگر آپ واقعی عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں، تو اور بھی بہت سے طریقے ہیں، صرف ڈھانچے ہٹانا نہیں، براہ کرم اپنی فاؤنڈیشن کو بتائیں کہ وہ جو کر رہے ہیں اس سے بہتر بھی کام کریں۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: یوپی: ۷؍مسلمانوں نے حراستی تشدد اور ”تبدیلی ِ مذہب“ معاملے میں جبری اعتراف کرانے کا الزام عائد کیا

واضح رہےکہ یہ تنظیم اپنے بانی پریت سنگھ کی قیادت میں اپنی مسلم مخالفت اور نفرت انگیز تقریروں کے باعث بارهاتنازعات کا شکار رہی ہے۔کورٹ نے حکام کو ہدایت کی کہ وہ فاؤنڈیشن کی درخواست پر غور کریں اور معاملے کو فوری طور پر طے کریں۔ پریت سنگھ، جو اس وقت نفرت انگیز تقریر کے مقدمے میں ضمانت پر رہا ہے، نےعوامی مفاد کی درخواست دائر کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ سرکاری زمین پر ’’جعلی مذہبی ڈھانچوں‘‘کے ذریعے زمین مافیا نے قبضہ کر رکھا ہے۔ درخواست میں روہتک روڈ، سیلامپور، اور براڑی میں تین درگاہوں اور بودھ وہار فیز ۲؍ میں ایک مزار کی نشاندہی کی گئی تھی۔ 

یہ بھی پڑھئے: ریاستی حکومتوں کو حراستی مراکز قائم کرنے کی ہدایت کانوٹیفکیشن جاری

یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ اس سے قبل اجمیر شریف درگاہ سمیت کئی درگاہوں اور مزاروں کے خلاف اسی قسم کی عرضی داخل کی گئی تھی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بار بار آنے والے قانونی اور سماجی چیلنج دائیں بازو کی تنظیموں کی جانب سے مسلم مذہبی مقامات کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھانے اور ہندوستان کی صدیوں پرانی صوفی تعظیم کی روایت کو کمزور کرنے کی کوششوں کینشاندہی  کرتے ہیں۔ مذہبی اسکالرزکا کہنا ہے کہ اجمیر شریف درگاہ اور مزار ثقافتی اور روحانی تانے بانے کے مرکز ہیں ۔انہوں نے دہلی ہائی کورٹ کی جانب سے سیو انڈیا فاؤنڈیشن کی درخواست کو خارج کرنے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ ساتھ ہی ان حلقوں میں اسے مذہبی تنوع کے تحفظ کے اقدام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK