فلمی شخصیات نے اپنے مشترکہ بیان میں بین الاقوامی عدالت انصاف کے اس فیصلے کی طرف اشارہ کیا کہ اسرائیل کے غزہ میں اقدامات نسل کشی کے مترادف ہو سکتے ہیں۔
EPAPER
Updated: September 09, 2025, 7:01 PM IST | Washington
فلمی شخصیات نے اپنے مشترکہ بیان میں بین الاقوامی عدالت انصاف کے اس فیصلے کی طرف اشارہ کیا کہ اسرائیل کے غزہ میں اقدامات نسل کشی کے مترادف ہو سکتے ہیں۔
۱۳۰۰؍ سے زائد فلمی شخصیات، جن میں آسکر، بافٹا، ایمی، اور کانز ایوارڈ یافتہ افراد شامل ہیں، نے پیر کو اعلان کیا کہ وہ اسرائیل کے فلمی اداروں کے ساتھ کام نہیں کریں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی ادارے بھی ”فلسطینی عوام کے خلاف نسل کشی اور نسلی امتیاز“ میں ملوث ہیں۔
ایک مشترکہ بیان میں، فلمسازوں، اداکاروں اور فلمی کارکنوں کے گروپ نے کہا کہ سینما میں عوامی رائے کو تشکیل دینے کی طاقت ہوتی ہے اور فنکار اس وقت خاموش نہیں رہ سکتے جب اسرائیل غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف وحشیانہ جنگ جاری رکھے ہوئے ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ ”اس وقت، جب بہت سی حکومتیں غزہ میں ہونے والے قتل عام کی حمایت کر رہی ہیں، ہمیں اس ہولناکی کو ختم کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے۔“ دستخط کنندگان نے بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) کے اس فیصلے کی طرف اشارہ کیا کہ اسرائیل کے غزہ میں اقدامات نسل کشی کے مترادف ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں کیلئے انصاف عالمی فلمی برادری کا ایک ”اخلاقی فرض“ ہے۔
اس عہد میں ان فنکاروں کی مثال بھی دی گئی جنہوں نے نسلی امتیاز والے جنوبی افریقہ کا بائیکاٹ کیا تھا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ”ہم اسرائیلی فیسٹیولز، براڈکاسٹرز اور پروڈکشن ہاؤسیز سمیت صہیونی ریاست کے فلمی اداروں کے ساتھ فلمیں نہیں دکھائیں گے، ان میں شریک نہیں ہوں گے، یا ان کے ساتھ کام نہیں کریں گے جو نسل کشی اور نسلی امتیاز سے منسلک ہیں۔“ دستخط کرنے والوں میں اولیویا کولمین، جیویر باردیم، سوسن سارینڈن، مارک روفالو، رض احمد، ٹلڈا سوئنٹن، جولیا ساو لہہ، میریم مارگولیس، کین لوچ، ایما اسٹون اور جولیٹ اسٹیونسن جیسے معروف اداکار اور فلمی شخصیات شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: مسلمانوں کو اسرائیل سے ہر قسم کے تعلقات ختم کرنا ہوں گے
غزہ نسل کشی
دریں اثنا، غزہ میں اسرائیل کی جاری تباہ کن فوجی کارروائیوں میں اکتوبر ۲۰۲۳ء سے اب تک ۶۴ ہزار ۵۰۰ سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ فلسطین کی سرکاری نیوز ایجنسی ’وفا‘ کے مطابق، تقریباً ۱۱ ہزار فلسطینی تباہ شدہ گھروں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اموات کی اصل تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے اور ممکنہ طور پر ۲ لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہے۔ اس نسل کشی کے دوران، اسرائیل نے محصور علاقے کے بیشتر حصے کو کھنڈر میں تبدیل کر دیا ہے اور اس کی تمام آبادی کو بے گھر کر دیا ہے۔ اسرائیلی قابض افواج کی مسلسل بمباری کے باعث غزہ پٹی میں خوراک کی شدید قلت اور بیماریوں کے پھیلاؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ مارچ میں ایک مختصر جنگ بندی ختم ہونے کے بعد سے عالمی جنگ بندی کی کوششیں تعطل کا شکار ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: غزہ میں رہائشی عمارتوں پر اسرائیل کی بمباری جاری، برج الرؤیا کو بھی تباہ کردیا
گزشتہ سال نومبر میں بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) نے اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو اور سابق اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گیلنٹ کے خلاف اسرائیل کی غزہ پر جنگ کے دوران مبینہ جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا حوالہ دیتے ہوئے گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے تھے۔ اس کے علاوہ، اسرائیل بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں بھی نسل کشی کے مقدمے کا سامنا کر رہا ہے۔