ملک کے۸۳؍ریٹائرڈ اعلیٰ افسروں نے ریاستی حکومت کو خط لکھ کر انتہائی غم وغصہ کا اظہار کیا،ہلدوانی کے واقعات کی غیر جانبدارانہ جانچ کا مطالبہ بھی کیا۔
EPAPER
Updated: February 20, 2024, 10:31 AM IST | Ahmadullah Siddiqui | New Delhi
ملک کے۸۳؍ریٹائرڈ اعلیٰ افسروں نے ریاستی حکومت کو خط لکھ کر انتہائی غم وغصہ کا اظہار کیا،ہلدوانی کے واقعات کی غیر جانبدارانہ جانچ کا مطالبہ بھی کیا۔
ملک کے اہم عہدوں پر کام کر چکے ۸۳؍نوکر شاہوں کے ایک گروپ نے اتراکھنڈ کی حکومت کو خط لکھ کر ہلدوانی کے واقعات پر سخت غم وغصہ کا اظہار کرتے ہوئے انتظامیہ سے قانون کے نفاذ میں غیر جانبداری کا مطالبہ کیاہے۔ خط میں ۸؍ فروری کے تشدد کے واقعہ کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اس کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا گیاہے۔ اس میں مہلوکین کے اہل خانہ ،پولیس، انتظامی اہلکاروں اور زخمی ہونے والے عام شہریوں کے ساتھ گہری ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے انتظامیہ کے اقدامات پر سنگین سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ خط میں ہلدوانی کے بن بھول پورہ میں ۱۶؍ فروری تک کرفیو اور انٹرنیٹ کی خدمات کو معطل کرنے پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا گیاکہ جب انتظامیہ نے ۸؍ فروری کی رات ہی حالات کو قابو میں کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور اس کے بعد سے کوئی تشدد یا امن وامان کو خطرہ نہیں تھا تو اس کرفیو کو اتنی دیر تک جاری رکھنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔
اس بات شدید غم وغصہ کا اظہار کیا گیاکہ پولیس بن بھول پورہ میں خواتین اور بچوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنارہی ہے اور علاقے میں املاک کو نقصان پہنچا یا جارہا ہے، ساتھ ہی لوگوں کو ان کے گھر والوں کو بتائے بغیر حراست میں لے رہی ہے۔ ابھی تک ۳۰۰؍سے زائد خاندان علاقہ سے نقل مکانی کرچکے ہیں۔سابق نوکرشاہوں نے مطالبہ کیا کہ ان سنگین الزامات کی فوری تحقیقات کی جائے۔ خط میں کہا گیا کہ ۸؍فروری کے واقعات کے بعد ریاست میں نفرت انگیز جرائم میں اضافہ ہوا۔ ہلدوانی کے دوسرے حصوںجیسے فتح پور اور کمالوگنجہ میں مسلم دوکانداروں کو اپنی دوکانیں کھولنے سے زبردستی روکاگیا۔ ۱۱؍ فروری کو پتھورا گڑھ ضلع کے دھارچولا میں ایک ریلی نکالی گئی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ باہری لوگوں کو قصبے سےنکالا جائے۔
خط میں کہا گیا ہےکہ یہ پہلی بار نہیں ہے بلکہ اسی طرح کی ریلیاں گزشتہ سال مئی اور جون میں بھی نکالی گئیں جن میں درجنوں خاندانوں کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا اور اترکاشی ضلع میں انتہائی کشیدگی کی صورتحال پیدا ہوئی۔ ۱۵؍ فروری کو کاشی پور میں جنسی ہراسانی کے ایک ملزم کے گھر کے کچھ حصے کو مسمار کرنے کیلئے بلڈوزر کا استعمال کیا گیا۔اس کیلئے نہ تو کوئی نوٹس دیا گیا اور ہی قانون کی پیروی کی گئی۔یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ریاست میں جنسی ہراسانی کے کسی اور واقعے میں ایسی کوئی کارروائی نہیں کی گئی ، جس سے یہ تشویش پیدا ہوتی ہے کہ یہ غیرقانونی کارروائی صرف اس لیے کی گئی کہ ملزم اقلیتی برادری سے تعلق رکھتا ہے۔ نوکر شاہوں نے گزشتہ سال لکھے گئے اپنے خطوط کا بھی حوالہ دیا جس میںاس تشویش کا اظہار کیا گیا تھاکہ ریاست میں اقلیتی برادری کو نشانہ بنانے کیلئے ایک پرتشدد اور مجرمانہ مہم چلائی جارہی ہے۔ پرولا، بڈکوٹ اور ہلدوانی کے قصبوں میں توڑ پھوڑ اور دوکانوں کو تباہ کرنے سمیت تشدد کے متعدد واقعات پیش آئے، دہشت کے اس ماحول میں کئی خاندان فرار ہونے پر مجبور ہوئے اور وہ واپس نہیں آئے۔خط میں اس پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا کہ ان واقعات کے مجرمین کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔خط میں ۸؍فروری کو انتظامیہ کے طرز عمل کے حوالےپر بھی سوال اٹھا یا گیا ہے۔