صحافی نرنجن ٹکلے کا خطاب،کہا کہ’’آرایس ایس کے قیام کو ۱۰۰؍سال ہوگئے لیکن اب تک کسی بھی حکومتی ادارےمیں اس کا رجسٹریشن نہیں ہوا ‘‘
EPAPER
Updated: November 18, 2025, 11:09 PM IST | Z A khan | Aurangabad
صحافی نرنجن ٹکلے کا خطاب،کہا کہ’’آرایس ایس کے قیام کو ۱۰۰؍سال ہوگئے لیکن اب تک کسی بھی حکومتی ادارےمیں اس کا رجسٹریشن نہیں ہوا ‘‘
یہاں کے رحمانی کالونی میں ’ونچت بہوجن اگھاڑی‘ کے زیر اہتمام ’’آر ایس ایس کی زہریلی جڑیں اور بھارت کا مستقبل‘‘ کے عنوان سے ایک جلسہ عام منعقد کیا گیا۔ اس پرہجوم جلسے میں معروف صحافی نرنجن ٹکلے نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی اور خطاب کیا۔ جبکہ ونچت بہوجن اگھاڑی کے ریاستی نائب صدر فاروق احمداور دیگر لیڈران بھی مدعو تھے۔
مقامی سطح پر تنظیم کے ذمہ داران طیب ظفر، امیت گھوئی گل، راہول مکاسرے اور مسلم اتحاد فرنٹ کے صدر جاوید قریشی نے بھی اظہار خیال کیا۔نرنجن ٹکلے نے اپنے خطاب میں کہا کہ’’ آر ایس ایس نے اپنے قیام کے سو سال مکمل کر لئے ہیں، لیکن اب تک حکومت کے کسی بھی ادارے میں اس کا باقاعدہ رجسٹریشن نہیں ہوا۔ آر ایس ایس کی بنیاد نفرت کی سوچ پر رکھی گئی تھی اور آج بھی وہ اسی نظریے پر کاربند ہے۔‘‘ انہوں نے الزام لگایا کہ ’’آر ایس ایس کی سرگرمیاں ہندوستانی آئین اور قوانین کے خلاف ہیں، لیکن جب کوئی کارکن گرفتار ہوتا ہے تو تنظیم اس سے لاتعلقی ظاہر کرتی ہے، کیونکہ اس کے اراکین کا کوئی تحریری ریکارڈ نہیں رکھا جاتا۔‘‘ ٹکلے نے یہ بھی کہا کہ’’ ملک کے مختلف شہروں میں بم دھماکوں جیسے معاملات میں ملوث ہونے کے باوجود آر ایس ایس کے کارکنوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔‘‘ انہوں نے سنسنی خیز انکشاف کیا کہ’’ آر ایس ایس کے ذمہ داران نے امریکہ میں ایک ایجنسی کو ۳؍لاکھ ۳۰؍ہزار ڈ الر کی خطیر رقم دی ہے، آخر وہ کون سی غیر قانونی سرگرمی تھی جسے چھپانے کیلئے اتنی رقم دی گئی۔‘‘ انہوں نے مجمع کو دستاویزکی نقول بھی دکھائیں۔
ٹکلے نے راہل گاندھی کے ووٹ چوری کے الزامات کی تائیدمیں کہا کہ’’ بہار کے انتخابات میں بی جے پی اور اسکے اتحادیوں کی تاریخی کامیابی ووٹ چوری کا نتیجہ ہے۔ ا اگر یہ الزامات غلط ہیں تو الیکشن کمیشن کو اس معاملے کی تحقیق کرنی چاہیے، لیکن وہ کوئی کارروائی کرنے کو تیار نہیں، جو اس بات کی دلیل ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے‘‘۔ٹکلے نے مزید کہا کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے نظریات کو ماننے والے ملک میں صرف ۱۵؍ فیصد ہیں، جبکہ ۱۵ فیصد لوگوں کو بہلا پھسلا کر ووٹ دئیے گئے ہیں۔ باقی ۷۰؍فیصد عوام انکے نظریات کے مخالف ہیں۔انہوں نے ایک واقعے کا حوالہ دیکر کہا کہ بی جے پی کے ایک وزیر کے بیٹے نے کسانوں کے احتجاج کے دوران اپنی گاڑی ان پر چڑھا دی، جس سے کئی کسان ہلاک ہو گئے۔ جب وزیر سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا تو آر ایس ایس کے حامیوں نے کہا کہ ’’بیٹے کے جرم کی سزا باپ کو نہیں دی جا سکتی‘‘۔ ٹکلے نے سوال اٹھایا کہ پھر بنگلہ دیش میں ہندوؤں پر ہونے والے مظالم کا بدلہ ہندوستان کے مسلمانوں سے کیوں لیا جا رہا ہے؟ناندیڑ سے آنیوالے وی بی اے لیڈر فاروق احمد نے اپنے خطاب میں کہا کہ آر ایس ایس کی نفرت انگیز سوچ کا مقابلہ صرف شاہو، پھلے اور ڈاکٹر امبیڈکر کے مساوات کے نظریے سے کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ قرآن پاک اور نبی کریمؐنے مساوات اور انصاف کا درس دیا ہے، اور ہمیں مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔جاوید قریشی نے کہا کہ اورنگ آباد میں مسلمانوں اور دلت سماج کے اتحاد سے پارلیمانی نشست جیتی گئی تھی، لیکن کچھ لوگوں نے ذاتی مفاد کی خاطر اس اتحاد کو توڑ دیا۔ راہول مکاسرے، جن کے خلاف آر ایس ایس کی ممبرشپ مہم کے خلاف احتجاج کرنے پرحال ہی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا، نے کہا کہ’’ آر ایس ایس ایک غیر قانونی تنظیم ہے اور اس کے خلاف آواز اٹھانا ہماری ذمہ داری ہے۔‘‘ جلسے میں مقامی لوگوں نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔