قریش برادری کی ہڑتال کا معاملہ اسمبلی میں بھی گونجا، ابو عاصم اعظمی نے وزیر اعلیٰ کی گئو رکشکوں کے تشدد اور پولیس کی زیادتی کی طرف دلائی
EPAPER
Updated: July 15, 2025, 7:05 AM IST | Iqbal Ansari | Mumbai
قریش برادری کی ہڑتال کا معاملہ اسمبلی میں بھی گونجا، ابو عاصم اعظمی نے وزیر اعلیٰ کی گئو رکشکوں کے تشدد اور پولیس کی زیادتی کی طرف دلائی
گئو رکشکوں کی جانب سے بے جا تشدد اور پولیس کی ہراسانی کے تنگ قریش برادری نے ریاست کے کئی اضلاع میں بڑے کے گوشت کی فروخت بند کر دی ہے۔ اس معاملے میں اب اسمبلی میں بھی آواز سنائی دی۔ سماج وادی پارٹی کے رکن اسمبلی ابو عاصم اعظمی نے ایوان میں پوائنٹ آف انفارمیشن کے دوران قریش برادری پر ہونے والے تشدد کا معاملہ اٹھایا۔ انہوں نے ایوان کو بتایا کہ قانونی مراحل کی تکمیل کے بعد لائے جانے والے بھینس کے گوشت پر بھی گئو رکشک مارپیٹ کر رہے ہیں۔ انہوں نے تشدد کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔
ابو عاصم عظمی نے کہا’’ ہندوستا ن بہت سے جانوروں کو ذبح کرنا منع ہے۔ ہم بھی س کی تائید کرتے ہیں کہ ممنوعہ جانوروں کو ذبح نہ کیا جائے اور ایسا کرنے والوں کو سخت سزا دی جائے۔ لیکن ۱۱؍ جولائی کو تھانے سلاٹر ہاؤس میں ۱۳؍ بھینسوں کو قانونی طریقے سے ذبح کیا گیا ۔ اصول کے مطابق ذبح کرنے سے قبل ڈاکٹر نے ان جانوروں کو صحت مند ہونے کا سرٹیفکیٹ بھی دیا تھا۔ متعلقہ بیوپاری جب سلاٹر ہاؤس سے گاڑی میں گوشت لے کر نکلاتو شام تقریباً ساڑھے ۵؍ بجے جب گاڑی کاشی میرا میں واقع فونٹین ہوٹل پہنچی تو ایک ایسی تنظیم کے اراکین جس کا اگر اس ایوان میں نام لے لیا تو لوگ مجھے گالی دیں گے اور ماریں گے ۔ اس تنظیم کے اراکین نے گاڑی کو روک کر ڈرائیوراکمل انصاری اور ساحل عرف فوجی کو بہت پیٹا۔گاڑی کو کاشی میرا پولیس اسٹیشن لے گئے۔ ابو عاصم کے مطابق وہاں لے جانے کے بعد نام نہاد گئو رکشکوں نےپولیس کے سامنے بھی ان دونوںکو گالیاں دیں اور پیٹا۔اس کا پورا ویڈیو موجود ہے۔ان دونوں کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کیا گیا ۔ اس کے بعد پولیس نے بھی جانوروں کے ڈاکٹر کو بلایا اور ڈاکٹر نے جانچ کرنے کے بعد جو سرٹیفکیٹ دیا ہے اس میں بتایا ہے کہ وہ بھینس کا گوشت تھا ۔میرے پاس وہ سرٹیفکیٹ بھی موجود ہے۔ رکن اسمبلی نے بتایا کہ اس کے باوجود اس گوشت کو ضبط کر لیاگیا اور گوشت لانے والوں پر ایف آئی آر بھی درج کی گئی۔وہیں سے متعلقہ ڈی سی پی ، اے سی پی اور پولیس کمشنر کو ای میل کیا گیا لیکن آج تک اس کا کوئی جواب نہیں ملا۔
انہوں نے مزید بتایاکہ ’’ شام کو جب گوشت کے ساتھ ملزمین کو عدالت میں پیش کیا گیا تو اس گوشت سے بدبو آنے لگی تھی جسکے بعد ساڑھے ۷؍ لاکھ روپے کا گوشت بغیر کسی غلطی کے پھینک دیا گیا ۔ پولیس نے اس کی قیمت کم یعنی ۳؍ لاکھ ۷۰؍ ہزار روپے بتائی ہے ۔‘‘
ابو عاصم اعظمی کے بقول قریشی برادری جانور خرید کر اس کی دیکھ بھال کرتی ہے جو قانونی طور پر جائز ہے۔آج حالات ایسے بنا دیئے گئے ہیں کہ جانوروںکے بازار سے اگر کوئی مسلم کوئی بیل یا گائے کھیتی کرنے دودھ کا کاروبار کرنے کیلئے خریدتا ہے تو بھی اس پر شبہ کیاجاتاہے ، اس کی گاڑی کو روکا جاتا ہے اور پیٹا جاتا ہے۔
ابو عاصم اعظمی نے قریش برادری کی ہڑتال کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا’’ اسی تشدد کے سبب قریشی برادری نے جانوروں کو خریدنا اور ان کا گوشت بیچنا بند کر دیا ہے۔ انہو ںنے ہڑتال کر دی ہے۔ رکن اسمبلی نے کہا ’’مَیں وزیر اعلیٰ دیویندر فرنویس سے درخواست کرتا ہوں کہ جب وہ گوشت قانونی تھا ، بھینس کا تھا اس کے باوجود ایف آئی آر درج کی گئی۔ اگر اس طرح سے ہوتا رہے گااور چاروں طرف مسلمانوں کو ستایا جاتا رہا تو دیش میں لوگ کیسے جئیں گے ؟؟‘‘ اس ضمن میں وزیر اعلیٰ دیویندر فرنویس نے محض اتنا کہا کہ ’’سرکارنے اس کا نوٹس لیا ہے۔‘‘