Inquilab Logo Happiest Places to Work

کیا نائب صدر جمہوریہ جگدیپ دھنکر کو اچانک استعفیٰ دینے کیلئے مجبور کیا گیا ؟

Updated: July 24, 2025, 1:08 PM IST | New Delhi

تحریک مواخذہ یا پھر اپوزیشن سے قربت، کیا وجہ ہو سکتی ہے آئیے جانتے ہیں

Jagdeep Dhankhar
جگدیپ دھنکر

سیاست میں کچھ استعفے معاملات کو بحسن و خوبی انجام تک پہنچانے کے بجائے کئی تشنہ سوال چھوڑ جاتے ہیں۔ یہی معاملہ ملک کے نائب صدر جگدیپ دھنکر کے اچانک اور پراسرار استعفے کا ہے ۔ انہیں حکومت کے قریبی اور وفادارافراد میں شمار کیا جاتا تھا مگر ان کی رخصتی پر وزیر اعظم مودی کا صرف ۲۶؍ الفاظ کا ٹویٹ ، پوری مودی کابینہ کی خاموشی اور حکومتی حلقوں کی جانب سے لب سی لینے کی وجہ سے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ اندر ہی اندر بہت کچھ پک رہا ہے۔ وزیر اعظم مودی  نے کئی گھنٹوں  کی خاموشی کے بعد دھنکر کےاستعفیٰ پر جو مختصر  ایکس پوسٹ کیا وہ یہ تھا کہ ’شری جگدیپ دھنکر جی کو ملک کی خدمت کے کئی مواقع ملے، جن میں نائب صدر کے طور پر خدمات بھی شامل ہیں۔ ان کی صحت کی بہتری کیلئے نیک تمنائیں۔ ‘‘  بی جے پی کے کئی سینئر لیڈر بھی اس سرد مہری پر حیران ہیں۔
 چند گھنٹوں میں ایسا کیا ہوا ؟  
  سوال یہ  پیدا ہوتا ہے کہ چند گھنٹوں میں ایسا کیا ہوا کہ دھنکر کو اچانک استعفیٰ دینا پڑا جبکہ وہ  تھوڑی دیر پہلے تک بہت اطمینان کے ساتھ راجیہ سبھا کی کارروائی چلارہے تھے۔   جگدیپ دھنکر نےپیر کو مانسون اجلاس کے پہلے دن راجیہ سبھا کی کارروائی کی صدارت کی اس دوران کہیں بھی محسوس نہیں ہوا کہ وہ شام تک مستعفی ہونے والے ہیں۔   صرف ۱۱؍ دن پہلے ایک تقریب کے دوران انہوںنے خود اعلان کیا تھا کہ وہ اپنی مدتِ کار اگست۲۰۲۷ء تک موجود رہیں گے اور اس کے بعد اطمینان سے ریٹائر ہوجائیں گے مگر اب اچانک وہ رخصت ہو گئے  اور وزارت داخلہ نے بھی آئین کے آرٹیکل ۶۷؍ اےکے تحت ان کا استعفیٰ فوراً منظور کر لیا۔ اس سرعت  اور غیر رسمی انداز نے حزبِ اختلاف سمیت تمام سیاسی و سماجی حلقوں کو تشویش کے ساتھ ساتھ حیرت میں بھی مبتلا کردیا ہے ۔
کیا  مواخذہ سے بچنے کیلئے استعفیٰ دینا پڑا
  پیر کو دھنکر نے بغیر کسی پیشگی اپوائنٹ منٹ  کے اچانک صدر جمہوریہ سےملاقات کی اور استعفیٰ  پیش کردیا۔ساڑھے ۹؍ بجے انہوں نے ایکس پر اس کااعلان کیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ کانگریس لیڈرجے رام رمیش کا کہنا ہے کہ وہ ۴؍ بجے تک ان کے ساتھ تھے اور  ساڑھے ۷؍ بجے فون پر گفتگو ہوئی تب تک انہوں نے ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا۔

 تایا جارہاہے کہ دھنکر کو یہ اطلاع ملی تھی کہ حکمراں محاذ کے اراکین پارلیمان سے کورے کاغذ پر دستخط لئے جارہے ہیں جس سے وہ سمجھ گئے کہ  ان کے مواخذہ کی تیاری ہورہی ہے،اسی لئے انہوں نے خود  ہی استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا۔ دھنکر کے خلاف ممکنہ کارروائی کی فوری تیاری کی وجوہات میں سے   ایک بڑی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ   انہوں نے ہائی کورٹ کے ایک  جج کے مواخذہ کی تحریک کو راجیہ سبھا میں منظوری دیدی تھی۔ اتنا  ہی نہیں انہوں نےراجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر کھرگے کو بولنے کا موقع دیا جنہوں  نے پہلگام حملے اور ٹرمپ کے دعوؤں  سے متعلق وہ تمام باتیں کہہ دیں جو حکومت نہیں چاہتی تھی کہ ایوان کے ریکارڈ میں جائے۔حکومت کی یہ ناراضگی اس سے بھی ظاہر ہے کہ پیر کی دوپہر راجیہ سبھا کی بزنس ایڈوائزری کمیٹی کی میٹنگ میں بی جےپی لیڈر جےپی نڈا  اور پارلیمانی امور کے وزیر کرن رجیجو نہیں پہنچےجبکہ  دونوں ہائوس لیڈرس ہیں۔ 
  جسٹس یشونت ورما —، جن کے گھر سے غیر محسوب نقدی ملی تھی، کے خلاف مواخذے کی تحریک  کے تعلق  سے حکومت چاہتی تھی کہ تحریک پہلے لوک سبھا میں پیش کی جائے اور اس کے بعد راجیہ سبھا لائی جائے مگر  دھنکر نے حکومت یا اس کےکسی بھی وزیر کو مطلع کئے بغیر اپوزیشن پارٹیوں کی جانب سے پیش کی گئی مواخذہ کی تحریک کا نوٹس قبول کرلیا  اور اس بارے میں پیر کی صبح اچانک ایوان کو اطلاع دی۔  اس سے حکومتی بنچ ہکا بکا رہ گئی کیوں کہ ایسی ہی ایک تحریک  لوک سبھا میں حکومت کی جانب سے لائی جاچکی  ہے اور اگر ایوان بالا میں اس سے ملتی جلتی کوئی تحریک آتی ہے تو پھر تکنیکی طور پر ایوان زیریں  یعنی لوک سبھا کی تحریک خود بخود ختم ہو جاتی ہے۔ حکومت کے ایک سینئر وزیر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’’ہمیں اس بات کی قطعی خبر نہیں تھی کہ راجیہ سبھا میں اپوزیشن کی تحریک کو منظوری دے دی جائے گی۔ ہمیں اندھیرے میں رکھا گیا جس کی وجہ سے یہ حکومت کے لئے بہت بڑی سبکی کا سبب بن گیا۔‘‘ 
اسی دن شام  وزیر اعظم کے دفتر میں  وزراء کی اعلیٰ سطحی میٹنگ ہوئی اور باوثوق ذرائع کے مطابق دھنکر کو براہ راست فون کر کے سخت سست کہاگیا۔ 
جسٹس شیکھر یادو کا زاویہ 
جگدیپ دھنکر کو استعفیٰ دینے پر مجبور کئے جانے کی ایک تھیوری یہ بھی ہے کہ حکومت کو یہ ڈر تھا کہ جس طرح  سے نائب صدر نےجسٹس یشونت ورما کے خلاف نوٹس قبول کیا ہے کہیں وہ جسٹس شیکھر یادو(مسلمانوں کیخلاف زہر افشانی کرنے والے الہ آباد ہائی کورٹ کے جج) کے خلاف بھی  اپوزیشن کے مواخذہ کا نوٹس قبول نہ کرلیں کیوں کہ اس سلسلے میں انہوں نے ابتدائی طور پر کچھ کارروائیاں کی تھیں اوراپوزیشن  کے   ساتھ نظر آرہے تھے۔ 
اپوزیشن سے قربت ؟
 دلچسپ بات یہ ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں جنہوں نے چند ماہ پہلے دھنکر کے خلاف خود مواخذے کا نوٹس پیش کیا تھا   اب ان کے اس طرح ہٹائے جانے پر حکومت پر تنقید کررہی ہیں۔ کئی اپوزیشن ایم پی  جو حال ہی میں دھنکر سے ملے تھے، بتاتے ہیں کہ وہ خود کو حکومت کے ہاتھوں نظرانداز ہوتا ہوا محسوس کر رہے تھے۔    دھنکر کی اپوزیشن سے قربت پر بھی برسر اقتدار محاذ میں بے چین تھی۔ انہوں نے پیرکو راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر ملکارجن کھرگے کو آپریشن سیندور پر بولنے اور حکومت کی دھجیاں  اڑانے کا موقع دے کر مودی سرکار کی رسوائی کا سامان کیا تھا ۔ بی جے پی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ دھنکر اپنے خلاف اپوزیشن کے الزامات اور مواخذہ کا نوٹس پیش کئے جانے کے بعد سے ہی  اپوزیشن لیڈران کے تئیں کافی نرمی کا مظاہرہ کر نے لگے تھے۔ 
اگلا نائب صدر کون ہو گا ؟
اب جبکہ دھنکر رخصت ہو گئے ہیں تو ان کے متبال کی تلاش جاری  ہے لیکن یہ کب ہو گا اس بارے میں فی الحال کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے مگر دھنکر کے انجام سے یہ تو واضح ہو گیا ہے کہ چاپلوسی اور ضرورت سے زیادہ چاپلوسی بھی آپ کی کرسی محفوظ رکھنے میں معاون نہیں ہو سکتی کیوں کہ  دھنکر کو راجیہ سبھا سے  روایتی الوداعی خطاب کرنے کا موقع تک نہیں دیا گیا  ۔ چونکہ وہ ایوان کے رکن نہیں تھے صرف صدرِ اجلاس تھے اس  لئے استعفیٰ کے بعد اب وہ  ایوان میں داخلے کے بھی مجاز نہیں رہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK