آئی سی آر سی سربراہ نے کہا کہ وہ امداد فراہم کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں لیکن رسائی پر پابندی اور سلامتی کے خطرات کی وجہ سے بیشتر علاقوں میں کام نہیں کرسکتے۔ میانمار کے دورے پر میریانا نے کہا کہ انہوں نے آرمی چیف کو ان مسائل کے متعلق مطلع کیا۔
EPAPER
Updated: September 11, 2024, 11:13 PM IST | New Delhi
آئی سی آر سی سربراہ نے کہا کہ وہ امداد فراہم کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں لیکن رسائی پر پابندی اور سلامتی کے خطرات کی وجہ سے بیشتر علاقوں میں کام نہیں کرسکتے۔ میانمار کے دورے پر میریانا نے کہا کہ انہوں نے آرمی چیف کو ان مسائل کے متعلق مطلع کیا۔
بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی (آئی سی آر سی) کی سربراہ نے بدھ کو بتایا کہ وہ، میانمار کی حکمران پارٹی، اس کے مسلح مخالفین اور پڑوسی ممالک کے ساتھ، جنگ زدہ میانمار میں انسانی امداد فراہم کرنے کیلئے گفتگو کر رہے ہیں۔ تنظیم کی سربراہ میریانا سپولجارک نے بتایا کہ میانمار کے مختلف حصوں میں ہنگامہ آرائی کی وجہ سے ملک کی ۵۵ ملین کی آبادی میں تقریباً ایک تہائی افراد کو انسانی امداد کی اشد ضرورت ہے۔ ملک میں ادویات کم پڑ رہی ہیں اور بہت کم خوراک دستیاب ہے۔ آئی سی آر سی امداد فراہم کرنے کی اہلیت رکھتی ہے لیکن رسائی پر پابندی اور سلامتی کے خطرات کی وجہ سے وہ بیشتر علاقوں میں کام نہیں کر سکتے۔ میانمار کے دورے پر میریانا نے کہا کہ انہوں نے آرمی چیف کو ان مسائل کے متعلق مطلع کیا۔
یہ بھی پڑھئے: عرب لیگ کا عالمی برادری سے اسرائیلی بستیوں کو غیر قانونی قرار دینے کا مطالبہ
آئی سی آر سی بنگلہ دیش اور تھائی لینڈ و دیگر پڑوسیوں کے ذریعے میانمار میں مزید امداد بھیجنے کے امکانات پر بھی غور کر رہا ہے۔ میانمار میں امداد پہنچانے کا ایک ممکنہ راستہ بنگلہ دیش سے گزرتا ہے، جس کی سرحد میانمار کی ریاست کھینے سے ملتی ہے۔ اس علاقہ میں آرمی کے باغی گروپ نے فوج کو پسپا کرکے کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے۔ راکھینے میں لڑائی کی وجہ سے مسلم اقلیتی روہنگیا برادری نے حال ہی میں بنگلہ دیش میں نقل مکانی کی ہے، جہاں پہلے ہی وسیع کیمپوں میں دس لاکھ سے زیادہ روہنگیا مہاجرین پناہ گزین ہیں۔ واضح رہے کہ میانمار میں فروری ۲۰۲۱ء میں سے اعلیٰ جرنیلوں نے نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کی منتخب حکومت کو معزول کر دیا تھا جس کے بعد بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہوئے جو طاقتور فوج کو چیلنج کرتے ہوئے مسلح بغاوت اور خانہ جنگی میں تبدیل ہو گئے۔