آسٹریلیا، کنیڈا اور برطانیہ کے بعدفرانس، بلجیم اور پرتگال کے ذریعہ بھی فلسطین کو آزادی ریاست کے طور پر تسلیم کر لئے جانے اور کئی دیگر ممالک کے تسلیم کرنے کے اعلان نیز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ۲؍ ریاستی حل کے حق میں کانفرنس سے یہ سوال ذہن میں ابھرنا فطری ہے کہ یہ کتنا اہم ہے اور اس سے فلسطین کے کاز کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
آسٹریلیا، کنیڈا اور برطانیہ کے بعدفرانس، بلجیم اور پرتگال کے ذریعہ بھی فلسطین کو آزادی ریاست کے طور پر تسلیم کر لئے جانے اور کئی دیگر ممالک کے تسلیم کرنے کے اعلان نیز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ۲؍ ریاستی حل کے حق میں کانفرنس سے یہ سوال ذہن میں ابھرنا فطری ہے کہ یہ کتنا اہم ہے اور اس سے فلسطین کے کاز کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ مختلف ممالک کا یکے بعد دیگرے فلسطین کو تسلیم کرنے کے اس مربوط اقدام کا مقصد مسئلہ فلسطین کے۲؍ ریاستی حل کے نظریہ کو تقویت دینا اورا س ضمن میں پیش رفت کیلئے ماحول کو سازگار بنانا ہے۔اہم بات یہ ہے کہ فلسطین کو تسلیم کرنے والے یہ ممالک زیادہ تر اسرائیل اورامریکہ کے اتحادی ہیں۔ غزہ پر اسرائیلی مظالم نے پور دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور اسرائیل کے اتحادی ممالک کے عوام میں بھی شدید بے چینی ہے۔ اس بنا پر ممالک مسئلہ فلسطین کے حل اور اسرائیلی تسلط سے آزاد فلسطین کا قیام کی حمایت پر مجبور ہیں۔
یہ اسرائیل اور امریکہ کیلئےپیغام بھی ہے۔ اسرائیل مغربی کنارے کو ضم اورغزہ سے فلسطینیوں کو اردن یا مصر کی طرف دھکیل کر فلسطین کے قیام کے امکان کو ہی ختم کردینا چاہتاہے۔ آزاد فلسطین کو تسلیم کرنا اسرائیل کے اس منصوبہ کی مخالفت کا اظہار اور یہ واضح پیغام ہے کہ اسرائیل فلسطینی زمین کو ضم نہیں کر سکتا۔ اس کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ فلسطین کی ریاست کو تسلیم کرنا زیادہ تر علامتی ہی ہے مگر اسرائیل پر دباؤ بڑھے گا نیز فلسطین کو تسلیم کرنےوالے ممالک اس کے ساتھ باقاعدہ معاہدہ کر سکیں گے۔