Inquilab Logo Happiest Places to Work

ندی نے متھن منڈل کا گھرنگل لیا تو محمد سلیمان نے دوست کیلئے اپنے گھر کے دروازے کھول دئیے

Updated: July 30, 2025, 11:50 PM IST | New Delhi

مغربی بنگال کے شمشیر گنج میں رہنے والے محمد سلیمان نے اپنے دوست متھن منڈل اور انکے اہل خانہ کو اپنے گھر میںپناہ دی اورتقریباً ایک سال سے انہیں مفت میں دوکمرے دے رکھے ہیں

In the picture, Muhammad Suleman, on the right his wife Jahan Ara and Mithun`s wife Madhuri
تصویر میں محمد سلیمان ،دائیںجانب ان کی اہلیہ جہاں آراء اور متھن کی بیوی مادھوری

مغربی بنگال کے شمشیر گنج میں رہنے والے محمد سلیمان نے ندی کے کٹاؤ کے سبب بے گھر ہونیوالے اپنے دوست متھن منڈل اور ان کے اہل خانہ کو پناہ دے کر انسانیت نوازی اور بھائی چارے کی ایک نئی مثال پیش کی ہے۔  ایسے وقت میں جب شرپسند عناصر ملک میں فرقہ واریت کو بڑھاوا دینے کی کوشش کررہے ہیں، سلیمان جیسے افراد اتحاد و اتفاق کے فروغ کیلئے عملی محنت کررہے ہیں۔ ۳۷؍سالہ سلیمان پیشے سے مستری ہیں ۔ انہوں نے اپنے ۳۶؍سالہ دوست جو پیشے سے پلمبر متھن منڈل کو اپنے سادہ سے گھر میں پچھلے ایک سال سے پناہ دے رکھی ہے۔ گزشتہ سال گنگا ندی کے مسلسل کٹاؤ نے متھن کا گھر نگل لیا۔ مرشدآباد کے شورش زدہ علاقے شمشیرگنج کے اس مستری نے وہ مثال قائم کی جو ایسے وقتوں میں بہت کم لوگ قائم کرنے کی ہمت کرتے ہیں۔
 ستمبر ۲۰۲۳ء میں جب گنگاندی  نے متھن کا ۶؍ کمروں پر مشتمل گھر نگل لیا، تو سلیمان نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اسے اور اس کے خاندان کو اپنے گھر میں جگہ دی۔ اپنے چھوٹے سے چار کمروں والے گھر میں، سلیمان نے دو کمرے متھن کے خاندان کے حوالے کر دیے، بغیر کسی کرایے کے۔ سلیمان نے کہا:’’یہ کرایے کی نہیں، یہ محبت کے رشتے کی بات ہے۔‘‘
 سلیمان اور متھن  نوتن شب پورمیں رہتے ہیں، جو شمشیر گنج اور ڈھولین سے محض ۵؍کلومیٹر دور ہے ۔ وہی شمشیرگنج اور ڈھولین جہاں   اپریل میں   وقف ترمیمی بل مخالف احتجاج کے دوران فرقہ وارانہ فسادات  ہوئے ۔ فساد، لوٹ مار اور خونریزی کے دوران  تین جانیں چلی گئیں اور ہزاروں  نقل مکانی پر مجبور ہوئے ۔تاہم  نفرت کی یہ آنچ سلیمان  نے اپنے گھر تک آنے نہیں دی ۔متھن نے کہا کہ ’’ستمبر سے ہم سلیمان بھائی کے گھر میں رہ رہے ہیں۔ جب ہم بے گھر ہو کر ادھر اُدھر بھٹک رہے تھے، تو انہوں نے ہمیں آسرا دیا۔ جب فساد ہوا، ہمیں کوئی خوف نہیں تھا کیونکہ سلیمان بھائی ایک بار پھر ہمارے لئے  محافظ بن کر کھڑے ہوئے۔‘‘
 سلیمان اور متھن ایک ہی گاؤں میں ایک دوسرے کے سامنے والے گھروں میں پلے بڑھے۔ جب ندی کے کٹاؤ نے متھن کا گھر تباہ کردیا ، سلیمان کیلئے   یہ فطری تھا کہ وہ اپنے دوست کو اپنے ساتھ رکھتے، چاہے اسے سماجی دباؤ کا سامنا ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔اپریل کے فسادکے دوران، سلیمان کے اپنے ہی کمیونٹی کے کچھ تنگ دلوں نے سوال اٹھایا کہ’’جب دونوں قومیں آپس میں لڑ رہی ہیں تو ایک ہندو کو اپنے گھر میں کیوں رکھ رہے ہو؟‘‘سلیمان کا جواب تھا کہ:’’کسی مصیبت زدہ کی مدد کرنا بھی نیکی ہے۔‘‘ سلیمان کہتے ہیں کہ کیا میں صرف مذہب کی بنیاد پر اس دوست کو چھوڑ دیتا جس کے ساتھ میں نے بچپن گزارا ہے؟
 اب سلیمان، ان کی بیوی جہاں آرا اور ۳؍ بچے دو کمروں میں رہتے ہیں، جبکہ متھن، ان کی بیوی مادھوری اور ان کے ۵؍ بچے باقی ماندہ دو کمروں میں رہتے ہیں۔ ہر صبح دونوں  ایک ساتھ کام پر نکلتے ہیں، انکے بچے ایکساتھ اسکول جاتے ہیں اور ان کی بیویاں — جہاں آرا اور مادھوری — دن بھر بیڑیاں بناتی ، کھانا پکاتی ہیں اور گپیں بھی لڑاتی ہیں۔ جہاں آرا نے کہا:’’ندی اب خطرناک حد تک قریب آ چکی ہے، وہ کٹاؤ سڑک تک پہنچ چکا ہے جو ہمارے گھر کے پاس ہے۔ ہمیں نہیں معلوم کہ ہمارا گھر کب تک محفوظ ہے۔ لیکن جب تک ہے، تب تک متھن دا(بھائی ) اور ان کا خاندان ہمارے ساتھ ہی رہے گا۔‘‘انہوں نے مزید کہا: ’’فساد کے دوران کئی لوگوں نے صرف مذہب کی بنیاد پر متھن دا کو الگ کرنے کی کوشش کی، لیکن ہم نے انہیں صاف کہہ دیا کہ ہمارا مذہب انسانیت سیکھاتا ہے ۔‘‘
 سلیمان کی خاموش مزاحمت نے متھن کو بے حد متاثر کیا۔ متھن نے کہا:’’جب ہم نے اپنا گھر کھویا، ہم واقعی بے سہارا تھے۔ سلیمان بھائی نے بلا جھجھک ہمیں پناہ دی۔  میں  ان کی جگہ ہوتا تو شاید اتنی ہمت جٹا نہیں پاتا۔تقریباً ایک سال ہوگیا ، انہوں نے ہم سے ایک روپیہ تک نہیں لیا ، حالانکہ وہ چاہتے تو لے سکتے تھے۔ یہ بہت بڑی بات ہے کہ انہوں نے اپنی برادری کے دباؤ کے باوجود ہمارا ساتھ دیا۔‘‘ متھن کی بیٹی رتیکا، جو ساتویں جماعت کی طالبہ ہے، کہتی ہے:’’اگرچہ ہم نے اپنا گھر کھو دیا، لیکن کبھی ایسا نہیں لگا کہ ہم گھر سے دور ہیں۔ سلیمان انکل اور جہاں آرا آنٹی ہمیں اپنے بچوں کی طرح پیار کرتے ہیں۔ ہم دو خاندان نہیں، ایک ہی خاندان ہیں۔‘‘شمشیرگنج کے بلاک ڈیولپمنٹ آفیسر سُجیت کمار لودھ نے اسے ’اصل بھارت‘ کی مثال قرار دیا۔کہا: ’’صدیوں سے ہندو اور مسلمان ساتھ رہتے آئے ہیں۔ اپریل کا فساد غنڈوں کا کام تھا۔ محمد سلیمان اور متھن منڈل جیسے لوگ   امید کی کرن ہیں

new delhi Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK