اترپردیش کے فتح پور میں مسلم طالب علم کی پٹائی سے موت پرسماج میں غم و غصہ پایا جارہا ہے، جبکہ ملزمین کے حامیوں نےآن لائن قتل کا جشن منایا۔
EPAPER
Updated: July 31, 2025, 10:23 PM IST | Lukhnow
اترپردیش کے فتح پور میں مسلم طالب علم کی پٹائی سے موت پرسماج میں غم و غصہ پایا جارہا ہے، جبکہ ملزمین کے حامیوں نےآن لائن قتل کا جشن منایا۔
فتح پور کے۱۷؍ سالہ مسلم طالب علم عارش خان کے بہیمانہ قتل نے معاشرے میں شدید غم و غصہ اور خوف کی لہر دوڑا دی ہے۔ حملے کی ہولناک ویڈیواور ملزمان کے حامیوں کے بعد میں سامنے آنے والے عوامی جشن کے مناظر، اس واقعے کی ایک ممکنہ نفرت انگیز جرم کے طور پر نشاندہی کر رہے ہیں۔۲۳؍ جولائی کومہارشی ودیا مندر سینئر سیکنڈری اسکول کے بارہویں جماعت کے طالب علم عارش خان کو اسکول سے نکلتے ہی تین نوجوانوں ، جن کی شناخت ہرشوردھن پانڈے، دیپک سویِتا اور بھرت سرکار کے طور پر ہوئی ہے ،نے گھات لگا کر حملہ کر دیا۔ سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ حملہ آور ایک اسکوٹر پر سوار آئے اور عارش پر ڈنڈوں اور سلاخوں سے اس وقت تک وار کیے جب تک وہ بے ہوش ہو کر گر نہیں گیا۔ عارش کو تشویشناک حالت میں مقامی اسپتال میں داخل کیا گیا لیکن۳۶؍ گھنٹے بعد۲۶؍ جولائی کو زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کر گیا۔ اگرچہ پولیس نے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے، لیکن علاقے کے بہت سے لوگ اس حملے کوفرقہ وارانہ پٹائی (لنچنگ) قرار دے رہے ہیں اور الزام لگا رہے ہیں کہ عارش کو محض مسلمان ہونے کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا۔
یہ بھی پڑھئے: پونے میں کارگل جنگ کے فوجی کے اہل خانہ سے شہریت کے ثبوت طلب، پولیس تماشائی
مکتوب سے بات کرتے ہوئے ان کے والد نے کہا’’ہم نہیں جانتے کہ ان لڑکوں نے ہمارے بچے کو کیوں مارا۔ ہم صرف انصاف چاہتے ہیں۔ ہمارے بیٹے کو دِن دہاڑے قتل کیا گیا۔‘‘خاندان کی شکایت پر۲۴؍ جولائی کو ایف آئی آر درج کی گئی، جس میں تینوں ملزمان پراشتعال، حملہ اور دانستہ چوٹ پہنچانے کے الزامات عائد کیے گئے۔ تینوں کو۲۶؍ جولائی کو — اسی دن جب عارش کا انتقال ہوا گرفتار کر لیا گیا۔ بعد میں عارش کے دادا نے ایک دوسری شکایت درج کرائی، جس میں ملزمان کے حامیوں پر قتل کی تعریف کرنے اور سوشل میڈیا اور سڑکوں پر فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھانے کا الزام لگایا گیا۔
ملزمین کے حامیوں نے بائیک ریلیاں نکالیں، مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے اشتعال انگیز نعرے لگائے، اور سوشل میڈیا پر گستاخانہ پوسٹ گردش کرتے ہوئے عارش کے قتل کی تعریف کی۔ملزمین کے حمایتی میں سے ایک ابھے دیویدی نے انسٹاگرام پر جشن کی ایک ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے لکھا: *"جلدی واپسی ہو گی میرے شیر کی۔‘‘ ساتھ ہی ملزمین کے ساتھ اپنی تصاویر بھی شیئر کیں۔ ایک اور پوسٹ میں اس نے لکھا’’فل سپورٹ، میری جان۔‘‘ اس کے علاوہ پوسٹ میں انتہائی مغلظات کا استعمال کیا گیا تھا۔ دونوں اکاؤنٹ بعد میں ڈی ایکٹیویٹ کر دیے گئے۔ پوسٹ کی اسکرین شاٹس ثبوت کے طور پر عارش کے دادا نے پولیس کو جمع کرا دیں۔
عارش کے خاندان اور مقامی رہائشیوں نے اسکول پرلاپرواہی کا الزام لگایا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اسکول گیٹ کے بالکل باہر حملہ ہونے کے باوجود اسٹاف نے فوری طبی امداد فراہم نہیں کی، اورعارش کو صرف اس وقت اسپتال لے جایا گیا جب ان کا خاندان اور پولیس پہنچ گئی۔مقامی افراد نے تصدیق کی کہ ایک ملزم، ہرشوردھن پانڈے، ہندوتوا انتہا پسند گروپ بجرنگ دل سے اپنے تعلق کے لیے جانا جاتا تھا۔اس واقع کے بعد مسلم معاشرے میں خوف و تشویش کا ماحول ہے۔انسانی حقوق کی تنظیموں نے کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن (ایس آئی او) کی ایک ٹیم، زونل صدر کیف خان کی قیادت میں، سوگوار خاندان سے ملنے پہنچی اور قتل کی مذمت کی۔ ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (اے پی سی آر) نے بھی خاندان کو قانونی مدد کی پیشکش کی ہے۔ ایک اے پی سی آر نمائندے نے مکتب کو بتایا،’’ ہم کیس کی نگرانی کر رہے ہیں اور یقینی بنائیں گے کہ انصاف کی راہ میں رکاوٹ نہ آئے۔‘‘تحقیقات میں پیشرفت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے مکتوب نے فتح پور پولیس اہلکاروں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن اشاعت کے وقت تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔