Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’ناکردہ گناہ کی سزا بھگتنے والوں کے قیمتی ۱۹؍ سال کون لوٹائے گا؟‘‘

Updated: July 22, 2025, 11:29 PM IST | Saeed Ahmed Khan | Mumbai

ملّی تنظیموں نے ٹرین بلاسٹ کیس میں عدالت کے فیصلے پراطمینان کا ا ظہار کیا اور ایجنسیوں اورافسران کے مواخذے کا مطالبہ کیا جنہوں نے تفتیش کو غلط رخ دے کراصل مجرموں کوبچایا

Questions are being raised about the investigation into the train blast case after the acquittal of 12 accused. (File photo)
۱۲؍ ملزموں کے بری ہونے پرٹرین بلاسٹ کیس کی تفتیش پرسوال اٹھ رہے ہیں۔(فائل فوٹو)

  لوکل ٹرینوں میںسلسلہ وار  بم دھماکوں  کے کیس  کے ۱۲؍بے گناہوں کی رہائی پرعدالت کے فیصلے پر اطمینان وخوشی کا اظہار کرتے ہوئے ملی تنظیموں کے ذمہ داران نے کئی اہم سوالات بھی قائم کئے۔ کہا کہ جن ایجنسیوں اور تفتیشی افسران نے اپنی غلط تفتیش کے ذریعے ان کی زندگیاں برباد کیں، اہل خانہ کا جینا دوبھر کیا اور اس کی آڑ میں تمغے اورترقی حاصل کی نیز اصل مجرموں کو بچایا، ان کا مواخذہ کب ہوگا ؟اور ایسے افسران کو قانون کے دائرے میں کب لایا جائے گا؟اس موقع پرسابق اے ٹی ایس چیف آنجہانی ہیمنت کرکرے کو بھی یاد کیا گیا۔
’’انصاف میںتاخیر، انصاف نہ ملنے کے برابر ہے‘‘
 آل انڈیا علماء کونسل کے جنرل سیکریٹری مولانا محمودخا ن دریابادی نے کہاکہ ’’ انصاف میں تاخیر انصاف نہ ملنے کے برابر ہے ۔ مجھے اس تعلق سے تین باتیں کہنی ہیں۔ اوّل یہ کہ ناکردہ گناہ   کے باوجود باعزت بری کئے جانے میں ۱۹؍ سال کیوں لگے۔ دوسرے ملزمین کے زندگی کے قیمتی ۱۹؍سال کون لوٹائے گا اورتیسرے ملزمین کی زندگیاں برباد کرنے والے افسران کا احتساب کب ہوگا اوران کو قانون کے دائرے میںکب لایا جائے گا ؟ کیا موجودہ حالات میں اس کی امید بھی کی جاسکتی ہے ، یہ اہم سوال ہے ۔اس کے علاوہ نامعلوم ایسے کتنے نوجوان اب بھی جیلوں میں ہوںگے جن کا کوئی پرسانِ حال ہی نہیںہے ۔‘‘
 جماعت اسلامی ہند ممبئی کے امیر ہمایوں شیخ نے کہاکہ ’’فیصلے سے یقیناً عدلیہ پر اعتماد بڑھا ہے مگر تفتیشی ایجنسیو ں کےتعلق سے دو اہم سوالات ہیں ۔ جن افسران نےغلط تفتیش کی اوربے قصوروں کو قید وبند کی صعوبتیں جھیلنے پرمجبور کیا اور حقیقی مجرموں کوبچایا ،اس طرح افسران نے دوہرا جرم کیا۔ ان کا مواخذہ کب ہوگا اوران کوقانون کے دائرے میںکب لایا جائے گا؟ کیا محض اطمینان کا اظہار کافی ہوگا یا ایسے افسران کو  قانون کے دائرے میںلائے بغیر انصاف کا تقاضا پورا نہیں ہوگا ،یہ اہم سوال ہے۔‘‘
’’افسران کے خلاف مقدمہ دائر کیاجائے ‘‘
 جمعیۃ علماء مہاراشٹر کے ناظم تنظیم مفتی حذیفہ قاسمی نے کہا کہ ’’ جن افسران نے غلط طریقے سے ۱۲؍ نوجوانوں کو پھنسایا، ان کے خلاف کیس درج کرایا جائے اور ان کوسزا دلوانے کی کوشش کی جائے تبھی اس طرح کی غلط اوریک رُخی تفتیش پرقدغن لگنے کی امید ہے ا ورافسران میں بھی احتساب کے تئیں خوف پیدا ہوسکتا ہے۔ بلاشبہ عدالت سے انصاف ملا ہے مگر آخر ہم کب تک ستائش اور کلماتِ تشکر پرہی اکتفا کرتے رہیں گے؟ اس کے تعلق سے سکھ مخالف فسادات کی مثال ہمارے سامنے ہے۔سکھوں نے کوشش کی، آواز بلند کی اور اجتماعیت کا مظاہرہ کیا، چنانچہ جو فسادات اور اس کی سازش میں شامل تھے ،ان کو قید وبند کی صعوبتیں جھیلنی پڑیں اور ان کا سخت مواخذہ ہوا ۔‘‘ مفتی حذیفہ قاسمی نے جواں سال شہید ایڈوکیٹ شاہد اعظمی اورگلزار اعظمی کویاد کیا ۔
’’مواخذہ نہ ہونے پر بے قصور ایسے ہی تنگ نظر اور متعصب افسران کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے‘‘
 رضا اکیڈمی کے سربراہ محمدسعید نوری نے کہاکہ’’ بلاشبہ بامبے ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ تاریخی ہے ۔ عدالت نے باریکی سے جانچ پرکھ کرسزایافتہ ملزمین کو نہ صرف بری کردیا بلکہ نچلی عدالت کے فیصلے پر بھی سوالات قائم کئے ۔ اس سے عدالت کا وقار بلند ہوا اور سابق اے ٹی ایس چیف آنجہانی ہیمنت کرکرے کی روح بھی خوش ہوئی ہوگی مگراس کیس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ فیصلہ آنے میں ۱۹؍ سال لگ گئے، مطلب کسی کی زندگی کے اصل اور قیمتی سال وماہ ضائع ہوگئے۔ یہ سب کچھ افسران کی غلط تفتیش اور ایجنسیوں کی من مانی تھی ۔ ان افسران کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہئے تبھی ان کو یہ احساس ہوگا کہ قانون اورعہدے کا غلط استعمال قابل ِ مواخذہ ہے، بصورت دیگر اسی طرح بہت سے بے قصور قانون کے نام پر تفتیشی ایجنسیوں اور متعصب اورتنگ نظر افسران کی من مانی کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے۔ ‘‘ 
 جمعیت اہل حدیث کے نائب صد رمولانا عبدالجلیل انصاری نے کہاکہ ’’ فیصلے سے بہت خوشی ہوئی اورلگا کہ ابھی انصاف زندہ ہےمگر کئی سوالات بھی ذہن میںگردش کرنے لگے۔ ناکردہ گناہ کے باوجود ۱۹؍سال تک قید وبند کی صعوبت جھیلنا، اہل خانہ پر مصیبت کے پہاڑ ٹوٹنا، متاثرین کا معاشرے اوراپنوں سے کٹ جانا اور ایسے کئی سوالات ہیں جن کے جواب ضروری ہیں مگر کون جواب دے گا،یہ سب سے اہم سوال ہے؟اس کے علاوہ افسران کی جواب دہی کب طے ہوگی ؟ ‘‘ 
 مولانا حسین شاہ پٹیل ، یہ گوونڈی میںبرسوں امام و خطیب رہ چکےہیں، ٹرین بم دھماکوں میں قید وبند کی صعوبتیں جھیلنے والے محمدعلی نے مولانا کے حوالے سے عدالت میں اپنی بے گناہی کا حوالہ دیا تھا کہ مجھے پھنسایا گیا ہے، گرفتاری کے وقت میں مولانا کے ساتھ تھا۔ اس بارے میں مولانا حسین شاہ پٹیل کا کہنا ہےکہ ’’ جو کہا تھا، وہ بالآخر سچ ثابت ہوا مگر یہ انصاف ادھورا ہے، مکمل انصاف اس وقت ہوگا جب افسران کو بھی سزاملے اورو ہ اپنی غلطی تسلیم کریں نیز آئندہ کسی بے قصور کی زندگی سے کھلواڑ نہ کرنے کاعہد کریں۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK