• Tue, 02 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

ڈونالڈ ٹرمپ بارہا کوششوں کے باوجود، پوتن کو جنگ بندی پر آمادہ کیوں نہیں کرسکے؟

Updated: December 02, 2025, 4:09 PM IST | Inquilab News Network | New Delhi

روسی صدر اپنی سرحدوں کے پاس سے نیٹو کی افواج کو ہٹانے سے کم پر گفتگو کیلئے تیار نہیں ہیں جبکہ ٹرمپ انہیں صرف معاشی امور سے بہلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

Vladimir Putin is not bowing to pressure from Donald Trump. Picture: INN
ولادیمیر پوتن ڈونالڈ ٹرمپ کے دباؤ میں نہیں آرہے ہیں۔ تصویر:آئی این این
امرکہ اور روس  کے درمیان گزشتہ کچھ عرصے میںکشیدگی بڑھتی چلی گئی۔ امریکہ نے روسی کمپنیوں پر نئی پابندیاں عائد کیںتوروس نے اپنےجوہری کروز میزائل اور زیر آب ڈرون کا تجربہ کیا ۔دونوں ممالک نے کہا ہے کہ وہ جوہری تجربات دوبارہ شروع کر سکتے ہیں۔ اس دوران (یوکرین میں) جنگ بھی جاری ہے۔ حالانکہ اس سال دونوں ممالک کے  تعلقات قدرے بہتر بھی ہوئے۔ڈونالڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعداس معاملے میں پیش رفت ہوئی تھی انہوں نےولادیمیر پوتن سے خوشگوار تعلقات بنانے اور یوکرین جنگ ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن یہ جنگ اب بھی جاری ہے اور امریکہ اور روس  ایک دوسرے کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔
آخر کیا وجہ ہے کہ ابھی تک ٹرمپ کی ذاتی سفارتکاری متوقع نتائج نہیں لا سکی ؟’ٹرمپ کی دوسری مدت کے آغاز پر ہی  یوکرین جنگ کے آغاز کے بعد پہلی بار واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان براہ راست گفتگوہوئی۔ دونوں ممالک کے صدور نے باقاعدگی سے فون پر بات کی اور گزشتہ اگست میں الاسکا میں ملاقات کی۔ فی الحال، صرف یہ ملاقات ہی واحد حقیقی کامیابی ہے جس کی طرف دونوں ممالک اشارہ کرسکتے ہیں۔ جبکہ یوکرین جنگ کے خاتمے کے تعلق سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔  ڈونالڈ ٹرمپ نیو یارک کے زمانے کے اپنے دوست اسٹیو وٹکوف کو خصوصی ایلچی بنا کر پوتن سے ملاقات کیلئے بھیجا۔ ان کے ہر دورے کے بعد فریقین نے اعلان کیا کہ وہ مفاہمت کے قریب ہیں۔ تاہم اسٹیو وٹکوف کے سفارتی تجربے کی کمی نے خارجہ  امور میں کچھ شبہات پیدا کئے۔اسٹیو اکثر اس خوش فہمی میں ماسکو سے واپس ہوتے کہ پوتن پیچھے ہٹنے کو تیار ہیں مگر وہائٹ ہاؤس کو اس کے برعکس اطلاعات موصول ہوتی تھیں۔
روسی ذرائع کے مطابق ا سٹیو وٹکوف روس کے موقف کی باریکیوں کو سمجھنے کیلئے  کوشاں رہے مگر وہ کریملن کو امریکی پالیسی کی وضاحت کرنے میں مستقل مزاجی نہ دکھا سکے۔ اس کے نتیجے میں دونوں فریق اکثر متضاد مقاصد پر بات کرتے تھے۔
۱۵؍ اگست کو الاسکا میں پوتن اور ٹرمپ کی ملاقات میں مشکلات سب کے سامنے آگئیں۔ ٹرمپ اور پوتن نے مشترکہ پریس کانفرنس کی تو انھوں نے جنگ کے خاتمے کیلئے کسی ٹھوس اقدام کا کوئی اعلان نہیں کیا۔پوتن کی طرف سے کسی بھی سطح کے عزم کی عدم موجودگی نے ٹرمپ کو ایک مشکل پوزیشن میں ڈال دیا۔نہ تو کریملن اور نہ ہی وہائٹ ہاؤس نے اس تعلق سے کوئی وضاحت  کی کہ بند دروازوں کے پیچھے کیا ہوا تھا، لہٰذا صحافیوں نے نامعلوم ذرائع سے جو کچھ وہ کر سکتے تھے وہ جمع کرنے کی کوشش کی۔
 ایک رپورٹ کے مطابق ٹرمپ نے یوکرین میں جنگ بندی کے بدلے پابندیوں میں نرمی اور تجارت کو بڑھانے کی پیش کش کی ہے۔پوتن نے اس خیال کو یکسر مسترد کردیا اور یوکرین کے ہتھیار ڈالنے اور دونباس پر مکمل کنٹرول کا مطالبہ کیا۔ مبینہ طور پر پوتن نے ایک ’تاریخی لیکچر‘ دیا جس نے ٹرمپ کو مشتعل کردیا تھا۔ 
ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ جنگ کو کاروبار کے تراز میں تول رہے ہیں جبکہ ولادیمیر پوتن کا نظریہ کچھ اور ہے۔ ٹرمپ پوتن پر معاشی پابندیاں لگا کر جنگ کو روکنے کیلئے کوشاں ہیں جبکہ پوتن اپنی زمین پر خود کے کنٹرول کے تعلق سے کوئی سمجھوتہ کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ یاد رہے کہ روس نے۲۰۲۲ء میں یوکرین پر حملہ اسی بنا پر کیا تھا کہ اس نے روسی سرحد کے قریب نیٹو کی افواج کو تعینات کیا تھا اور یورپی یونین نے یوکرین کو رکنیت دینے کا اعلان کیا تھا۔ روس اسے اپنے لئے خطرہ سمجھتا ہے۔ اس کا مطالبہ تھا کہ اس کی سرحد کے پاس سے فوری طور پر فوج ہٹائی جائے اور یوکرین کو یورپی یونین کا حصہ نہ بنایا جائے۔ جنگ شروع ہونے کے بعد امریکہ اور یورپی یونین نے روس سے ان امور پر گفتگو کے بجائے اس پر پابندیاں لگانی شروع کیں جس کا الٹا اثر ہوا اور یورپ میں گیس کی کمی ایک مسئلہ بن گئی۔ ڈونالڈ ٹرمپ کے آنے کے بعد گفتگو تو شروع ہوئی لیکن روس کے مطالبات جوں کہ توں رہے اور وہائٹ ہائوس انہیں معاشی امور کی راغب کرتا رہا ۔ پوتن اپنے موقف پر قائم ہیں اور ان کے مطالبات پورے ہونے تک پیچھے ہٹنے کوتیار نہیں ہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK