اگر ہرمز کا راستہ بند ہوتا ہے تو سب سے زیادہ اثر قیمتوں پر پڑے گا، سپلائی پر نہیں۔ تیل کی قیمتیں بڑھیں گی اور اس کا اثر کھانے پینے کی اشیاء تک نظر آئے گا۔
EPAPER
Updated: June 24, 2025, 11:28 AM IST | Agency | Mumbai
اگر ہرمز کا راستہ بند ہوتا ہے تو سب سے زیادہ اثر قیمتوں پر پڑے گا، سپلائی پر نہیں۔ تیل کی قیمتیں بڑھیں گی اور اس کا اثر کھانے پینے کی اشیاء تک نظر آئے گا۔
مغربی ایشیا میں کشیدگی اور امریکہ ایران محاذ آرائی کے درمیان، دنیا کی سب سے اہم تیل سپلائی لائن آبنائے ہرمز کے لیے خطرہ مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ ایران کی پارلیمنٹ نے اس آبی گزرگاہ کو بند کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ اب حتمی فیصلہ ایران کی سپریم نیشنل سیکوریٹی کونسل کو کرنا ہے۔ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکہ نے گزشتہ اتوار کو ایران کے تین فوجی اڈوں پر میزائل حملے کیے تھے۔ اس کے بعد سے خطے میں کشیدگی اپنے عروج پر ہے۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ ایران اب اس کا جواب سمندری راستہ روک کر دے سکتا ہے۔
آبنائے ہرمز خلیج فارس کو خلیج عمان سے ملاتا ہے جو آگے بحیرہ عرب میں کھلتا ہے۔ یہ راستہ ایران اور عمان کی سرحدوں کے اندر ہے۔ یہ دنیا کے اہم ترین سمندری تجارتی راستوں میں سے ایک ہے۔ یہ آبی گزرگاہ صرف۳۳؍ کلومیٹر چوڑی ہے اور جہازوں کی آمدورفت کے لیے لین صرف۳؍ کلومیٹر چوڑی ہے۔ اتنی کم چوڑائی کی وجہ سے یہاں جہازوں کو روکنا یا حملہ کرنا تکنیکی طور پر آسان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ علاقہ جنگی نقطہ نظر سے انتہائی حساس سمجھا جاتا ہے۔
امریکی محکمۂ توانائی کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ۲۰۲۴ء میں ہرمز آبی گزرگاہ سے۸۴؍ فیصد خام تیل ایشیائی ممالک کو بھیجاگیا۔ اس میں ہندوستان، چین، جاپان اور جنوبی کوریا شامل ہیں۔ ان چاروں ممالک نے مل کر اس راستے سے بھیجے جانے والے تیل کا تقریباً۶۹؍ فیصد خریدا تھا۔ ہندوستان اپنی ضروریات کا تقریباً۸۵؍ فیصد خام تیل درآمد کرتا ہے۔ اگر ہرمز کا راستہ بند ہوتا ہے تو سب سے زیادہ اثر قیمتوں پر پڑے گا، سپلائی پر نہیں۔ تیل کی قیمتیں بڑھیں گی اور اس کا اثر پیٹرول، ڈیزل، گیس اور ٹرانسپورٹ سے لے کر کھانے پینے کی اشیاء تک نظر آئے گا۔ مہنگائی بڑھے گی اور ہندوستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ روپے کی قدر بھی دباؤ میں آ سکتی ہے۔اگر ہرمز کا بحران مزید گہرا ہوتا ہے تو ہندوستان کو فوری طور پر اسٹریٹجک ذخائر کا استعمال شروع کرنا ہوگا، متبادل سپلائرس سے رابطہ کرنا ہوگا اور طویل مدتی توانائی کے معاہدوں پر کام کرنا ہوگا۔ تیل کمپنیوں اور وزارت خزانہ کو مل کر صورتحال پر نظر رکھنی ہوگی۔ حکومت کو اس سمت میں پیشگی تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔