Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’ کیا ناکردہ گناہوں کی سزا پانے والوں اور ان کے اہل خانہ کو بھی انصاف ملے گا ‘‘

Updated: July 12, 2025, 8:16 AM IST | Nadeem Asran | Mumbai

ممبئی ٹرین بم دھماکوں کی۱۹؍ ویں برسی پر مراٹھی پترکارسنگھ میں ’انوسینس نیٹ ورک‘ کے زیراہتمام منعقدہ پروگرام میں۱۲؍ نوجوانوں کے خاندان کے افراد نے سوال کیا، اپنادردبھی بیان کیا

In a program organized by Marathi Patkar Singh, the families of the 12 youths involved in the train bombing case shared their stories.
مراٹھی پترکارسنگھ میںمنعقدہ پروگرام میں ٹرین بم دھماکوں کے کیس کے ۱۲؍ نوجوانوں کے اہل خانہ نے اپنے حالات بتائے۔

سلسلہ وار ٹرین بم دھماکوں کی ۱۹؍ویں برسی پر  مراٹھی پتر کار سنگھ میں جمعہ کو  ’انوسینس نیٹ ورک‘ کے زیر اہتمام  پروگرام کا اہتمام کیا گیا جس  میں طویل عرصہ سے جیل میں سزا کاٹ رہے ۱۲؍ نوجوانوں کا  درد بیان کیاگیاکہ کس طرح گھر کے ایک فرد کی گرفتاری نے ان کے خاندان کو تبا ہ کر دیا اور تل تل مرنے پر مجبور کر دیا ۔ان نوجوانوں کے اہل خانہ کے بقول ایک طرف   بے گناہ ہونے کے باوجود ٹرین بم دھماکوں کے  معاملے میں پھانسی اور عمر قید کی سزا پانے والے جیل کی سلاخوں کے پیچھے سزا کاٹ رہے ہیں تو دوسری طرف ان کے اہل خانہ  نہ صرف مالی پریشانی کا شکار ہیں  بلکہ سماجی سطح پر ہونے والے بائیکاٹ اور  پولیس کی مسلسل زیادتیوں اور  تضحیک آمیز سوالوں کو برداشت کرنے پر  بھی مجبور  ہیں ۔
    ٹرین بم دھماکوں سے بری ہونے والے عبدالواحد کے انوسینس نیٹ ورک کے زیر اہتمام منعقدہ پروگرام میں۱۲؍ سزا یافتہ قیدیوں کے اہل خانہ نے اپنا درد بیان کیا  جس کے دوران عمر قید کی سزا پانے والے ملزمحمد علی شیخ کے بیٹے سہیل شیخ نےکہا کہ ’’ جس وقت میرےوالد کو گرفتار کیا گیا، ہم بھائی بہن بہت چھوٹے تھے ۔ آج ۱۹؍ برس بعد میری والدہ اپنے شوہر کی رہائی کی آس میں مختلف بیماریوں ، مالی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ پولیس کی زیادتیوں اور الٹے سیدھے سوالات سہتے سہتے بستر مرگ پر پڑی ہے ۔ میرے دادا اپنے بیٹے کی رہائی کی آس لئے اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔ ‘‘
 ۱۹؍ سال سے قید و بند کی صعوبتیں جھیلنے والے آصف  بشیر خان کے پوتے  (سجاد خان کے بیٹے) کے  ذریعہ لکھے گئے خط کو وکیل بھاگیہ شاہ نے پڑھ کر سنایا کہ’’ جب میرے والد کو گرفتار کیا گیا، اس وقت میری عمر محض ۹؍ برس تھی ، والد کی گرفتاری نے ہم سب کی زندگی میں سماجی بائیکاٹ کے علاوہ جو مالی اور پولیس کے ذریعہ ہراساں کئے جانے کے حالات پیدا ہوئے، اس کا سلسلہ میرے والد کو سزا سنائے جانے کے بعد بھی نہیں رکا ہے ۔ اس اذیت اور کرب کو سہتے سہتے میرے والد دار فانی سے کوچ کرچکے ہیں ۔‘‘
   وکیل پرتھا پال نے سزا یافتہ مجرم محمد ماجد شفیع کی بیٹی مبشرہ جو مغربی بنگال میںاپنے رشتہ داروں کے گھر رہتی ہیں ، کا تحریر کردہ خط پڑھ کر سنایا ۔انہوں نے لکھا ہے کہ ’’ جب میرے والد کو گرفتار کیا گیا تو میں محض ۳۰؍ دن کی تھی ۔ والدہ کیس کے سلسلہ میں ممبئی آتی رہیں ، انصاف اور رہائی کی جنگ لڑتی رہی اور بارہا اپنے شوہر سے ملنے کی کوشش کرتی رہیں ۔  بالآخر مختلف عارضہ میں مبتلا ہو کر اپنے شوہر کی واپسی کا انتظار کرتے کرتے اس دنیا سے چلی گئی ۔ اس ۱۹؍ سال کے کرب کوایک بیٹی جو اپنے بابا کی انگلی پکڑ کر نہ چل سکی ، نہ ان کی شفقتوں سے محظوظ ہوسکی نہ ان کی گود میں سر رکھ کر سو سکی۔ یہی نہیں آخری وقت میں میرے والدین کوایک دوسرے کا  آخری دیدار تک نصیب نہیں ہوا ۔ اس درد کو کوئی محسوس نہیں کرسکتاہے۔ اس سسٹم اور پولیس نے ہمیں ایسا درد دے رکھا ہے کہ شاید وہ ہماری موت کے ساتھ ہی ختم ہوگا ۔‘‘
  درد کی داستان کے سلسلہ کو جاری رکھتے ہوئے وکیل ابراہیم ہربٹ نے فیصل اور مزمل کی بہن اور احتشام صدیقی کے والد کے کرب کو بیان کیا ۔’’میرے والدین کا شمار ان ماں باپ میں ہوتا ہے جنہوںنے تین درخت لگائےلیکن جب پھل کھانے کا وقت آیا تو اے ٹی ایس نےان پھلدار درختوں  ہی کوکاٹ دیا اور اس پر بھی ظلم کا سلسلہ نہیں رکا حتیٰ کہ میں اور میرا خاندان اور میرے والدین انصاف کی جنگ کے ساتھ زندگی کی جنگ لڑتے رہے اور آخر میں میرے والدین نے اپنے بچوں کی رہائی کی امید میں تل تل زندگی گزارتے ہوئے اس دنیا کو الوداع کہہ دیا ۔‘‘ ابراہیم ہربٹ نے احتشام صدیقی کی والدہ کا درد بیان کیا جو اتر پردیش میں رہتی ہیں ، انہوں نے تحریر کیا تھا کہ ’’ میرا شمار ان محروم والدین میں ہوتا ہے جو اپنے بچوں کو چاہ کر بھی نہ مل سکتے ہیں ، نہ بات کرسکتے ہیں اور نہ ہی گلے لگا سکتے ہیں ۔ ۲۴؍ سال سے وہ اس گناہ کی سزا کاٹ رہا جو اس نے کیا ہی نہیں اور ہم اس کے انتظارکی سزا  کاٹ رہے ہیں ۔‘‘
 پروگرام کے اختتام پر ساجد انصاری کی بیوی کے درد اور والد کی موت کے کرب کو بیان کیا ۔ سینئر وکیل مہیر دیسائی نے حکومت کے ذریعہ متعارف کرائے جانے والے نئے قانون پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے عام آدمی کو دبانے کا ایک ذریعہ بتایا ہے ۔ اس موقع پر دو صحافیوں پارتھ ایم این اور سعید حمید نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK