نوٹ بندی ، غیر منصوبہ بند جی ایس ٹی اور اتنے ہی غیر منصوبہ بند لاک ڈائون نے ملک کی معیشت کو آسمان سے زمین پر پٹخ دیا ہے
EPAPER
Updated: November 18, 2020, 1:01 PM IST | Agency | New Delhi
نوٹ بندی ، غیر منصوبہ بند جی ایس ٹی اور اتنے ہی غیر منصوبہ بند لاک ڈائون نے ملک کی معیشت کو آسمان سے زمین پر پٹخ دیا ہے
ایک جانب ملک معیشت کو رفتار دینے کے لئے وزیر مالیات نے گزشتہ دنوں تیسرے معاشی پیکیج کا اعلان کیاتو دوسری جانب اس اعلان سے کچھ ہی دن قبل ریزرو بینک آف انڈیا نے بتایا کہ ہندوستان معاشی کساد بازار ی کے دور میں داخل ہو گیا ہے۔ وزیر مالیات نرملا سیتارمن نے تیسرے معاشی پیکیج کا اعلان کر کے معیشت کو مابعد لاک ڈاؤن ہونے والی معاشی تباہی سے باہر نکالنے کی کوشش کی ہے۔ حالانکہ معیشت کی تباہی کا سلسلہ تو نوٹ بندی اور پھر اس کے بعد بنا مناسب تیاری کے لاگو کئے گئے جی ایس ٹی کے ساتھ شروع ہوا تھا لیکن جلد بازی اور بنا پیشگی تیاری اور منصوبہ بندی کے محض ۴؍گھنٹوں کے نوٹس پر پورے ملک کو ٹھپ کرنے اور لاک ڈاؤن سے عام آدمی کو جو مشکلات ہوئیں اور معیشت کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اس کی بھرپائی میں ابھی بہت وقت لگے گا۔
نیشنل ہیرالڈ کی رپورٹ کے مطابق حکومت نے تین قسطوں میں معاشی پیکیج کا اعلان کر کے اس بھر پائی کی کوشش کی ہے۔ پہلے معاشی پیکیج میں چھوٹی اور درمیانہ زمرہ کی صنعتوں کو قرض پر سود وغیرہ میں راحت کا اعلان کیا گیا تھا تاکہ وہ اپنی پیداواری سرگرمیاں شروع کر سکیں، دوسرے پیکیج میں مرکزی حکومت کے ملازمین کے لئے مراعات کا اعلان کیا گیا تھا تاکہ وہ گھومیں پھریں، کچھ خریداری وغیرہ بھی کریں جس سے مارکیٹ میں پیسہ پہنچے اور اب اس تیسرے پیکیج میں اپنا گھر خریدنے کی خواہش رکھنے والے ، بے روزگاروں، مزدوروں، کسانوں، چھوٹے اور بڑے کاروباریوںکیلئے راحت کا اعلان کیا گیا ہے۔ در اصل معیشت کو رفتار دینے کا اولیں اصول یہی ہے کہ کھپت بڑھائی جائے جس کے لئے عوام کی جیب میں پیسہ ہونا چاہئے۔ جب کھپت بڑھے گی تو پیداوار بڑھے گی، پیداوار بڑھے گی تو روزگار کے مواقع بڑھیں گے۔ اسی لئے راہل گاندھی سمیت حزب مخالف کے تمام بڑے لیڈروں نے اور رگھو رام راجن اور امرتیہ سین جیسے تمام بڑے ماہرین معاشیات نے حکومت کو مشورہ دیا تھا کی لاک ڈاؤن کے اعلان کے ساتھ ہی عوام کو ایک مناسب رقم نقد دی جائے تاکہ ان کو روزمرہ کی ضروریات کی قلت نہ جھیلنا پڑے اور معاشی سرگرمیاں بھی جاری رہیں۔ دنیا کے قریب قریب سبھی ملکوں نے یہی کیا تھا لیکن تب ہماری حکومت کو شاید اس کی ضرورت نہیں محسوس ہوئی تھی۔ بہرحال دیر آید درست آید۔ کسی نہ کسی شکل میں معیشت کو رفتار دینے اور اسے پٹری پر لانے کا سلسلہ شروع تو کیا گیا۔
زراعت کے بعد رئیل اسٹیٹ ہی دوسرا زمرہ ہے جو سب سے زیادہ روزگار فراہم کرتا ہے۔ اس میں بڑے بڑے اعلی افسروں، انتظامی امور کے ماہرین، انجینئر سے لے کر مزدوروں تک کو روزگار ملتا ہے۔ یہی نہیں تعلیم مکمل کر کے بہتر ملازمت نہ حاصل کر سکنے والے نوجوانوں نے بھی تھوڑی بہت رقم کا انتظام کر کے پلاٹوں کو خریدنے بیچنے کا روزگار شروع کیا اور سال میں دو چار پلاٹ بیچ کر بھی اچھی خاصی رقم کما لیتے تھے جو ان کی اوسط درجہ کی ملازمت سے ملنے والی تنخواہ سے بہتر رقم ہوتی تھی۔ ضرورت مند کسان اپنی زمین آسانی سے اچھے داموں میں فروخت کر دیتے تھے مگر نوٹ بندی کے بعد یہ زمرہ بھی بیٹھ گیا ۔ بڑے بڑے بلڈروں کے کھربوں روپے پھنس گئے، تعمیر شدہ اور نیم تعمیر شدہ عمارتیں یونہی پڑی ہوئی ہیں، اعلیٰ افسران سے لے کر مزدور تک بے روزگار ہو گئے۔ نوٹ بندی کے ساتھ ساتھ حکومت نے کچھ ایسے قوانین بھی بنا دیئے جس سے مکانوں کی خرید فروخت بہت مشکل ہو گئی۔ یہ حقیقت ہے کہ اس زمرہ میں کالا دھن بہت لگا ہوا تھا لیکن ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ جو کالا دھن معیشت کا حصہ بن کر اسے فائدہ پہنچا رہا ہو، خاص کر روزگار فراہمی میں معاون ہو تو وہ محض ٹیکس چوری کا معاملہ رہ جاتا ہے۔ اس سے معیشت کو نقصان نہیں پہنچتا۔ نوٹ بندی کے جھٹکے سے یہ زمرہ ابھر بھی نہیں پایا تھا کہ جی اس ٹی اور آخر میں لاک ڈاؤن نے اس کی کمر بالکل ہی توڑ دی۔ اب حکومت نے معاشی پیکیج کا اعلان کر کے اس میں نئی جان ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ وزیر مالیات نرملا سیتا رمن کا دعویٰ ہے کہ معیشت میں سدھار کے مثبت اشارے ملے ہیں۔ کمپنیوں کے کاروبار کی رفتار کا اشارہ دینے والا کمپوزٹ پرچیزنگ مینیجرس انڈیکس (پی ایم آئی) اکتوبر میں۵۸ء۹؍ فیصد رہا جو گزشتہ ماہ ۵۸ء۶؍ فیصد تھا۔اس سے حالات بہتر ہونے کے اشارہ مل رہے ہیں۔