• Wed, 26 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

کیا ہندوراشٹر کی مانگ کرنے والوں کو ملک سے غداری کے الزام میں جیل بھجوانےکا مطالبہ کریں گے ؟

Updated: November 25, 2025, 11:41 PM IST | Hamidullah Siddiqui | Lucknow

اترپردیش کے سابق کابینی وزیر سوامی پرساد موریہ کا آرایس ایس چیف موہن بھاگوت سے چبھتا ہواسوال، کہا: ہندوستان ایک تکثیری سماج ہے، ایسے میں ہندوراشٹر کا مطالبہ کیوں؟

Swami Prasad Maurya
سوامی پرساد موریہ

اتر پردیش کے سابق کابینی وزیر سوامی پرساد موریہ اپنے دو ٹوک بیانات کیلئے جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے ایک بار پھر اسی طرح کا بیان دیا ہے۔ آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت سے ایک اہم اور تیکھا سوال پوچھتے ہوئے انہوں نے سیاسی حلقوں میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ موریہ نے کہا ہے کہ جب ملک میں ’ہندو راشٹر‘ کا مطالبہ کرنے والے کھل کر اپنے خیالات پیش کر رہے ہیں، تو کیا موہن بھاگوت ایسے عناصر کے خلاف ملک سےغداری کا مقدمہ درج کرنے اور انہیںجیل بھیجنے کا مطالبہ کریں گے؟
 سوامی پرساد موریہ نے اپنے بیان میں کہا کہ ملک کا آئین ،ہندوستان کو ایک سیکولر جمہوریہ قرار دیتا ہے اور اس سے ہٹ کر کسی متبادل نظام کا مطالبہ آئینی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ ان کے مطابق، اگر کوئی طبقہ یا تنظیم ’ہندو راشٹر‘ کی بات کرتی ہے تو وہ آئین کو چیلنج کر رہی ہے، اور ایسی سرگرمیوں پر سخت کارروائی ہونی چاہئے۔
 سوامی پرساد موریہ نے موہن بھاگوت کو مخاطب کرتے ہوئے سوال کیا کہ اگرآپ کا یہ خیال کہ اگر ہندونہیں ہوں گے تو دنیا ختم ہو جائے گی، بکواس، بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا پہلے بھی موجود تھی، آج بھی ہے اور مستقبل میں بھی رہے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ ہندوستان ایک ’امر اور تکثیری سماج‘ ہے تو ہندو راشٹر کا مطالبہ کیوں؟ انہوں نے موہن بھاگوت پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہاں یہ سچ ہے کہ اگر ہندو موجود نہیں تو مذہب کے نام پر کاروبار کرنے والوں کا وجود ختم ہو جائے گا۔‘‘
 غورطلب ہے کہ آرایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے اپنے حالیہ ایک بیان میں کہا ہے کہ’ ’ہندوستان ایک ہندو راشٹر ہے اور اس بات سے سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ ان کے مطابق ہندو صرف ایک مذہب نہیں بلکہ ایک ثقافتی اور تہذیبی شناخت ہے جو ہزاروں سال سے جاری ہے۔ بھاگوت کا یہ بھی مؤقف ہے کہ ہر وہ شخص جو ہندوستان کی تہذیبی وراثت سے محبت رکھتا ہے، اپنے آبا و اجداد کی قدر کرتا ہے اور ملک کی ثقافت کو اہمیت دیتا ہے، وہ ہندو تصور کیا جا سکتا ہے، چاہے اس کا مذہب کچھ بھی ہو۔ ایک دیگر بیان میں انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ان کا مقصدصرف ہندو سماج کو منظم کرنا ہے، نہ کہ کسی کے خلاف کھڑا ہونا۔ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ ہندوستان ’اکھنڈ ‘ہے اور ہندو راشٹر ہے، آر ایس ایس تمام ذاتوں اور مذہبوں کے لوگوں کے لئے کھلا ہے، لیکن شامل ہونے والوں کو ’بھارت ماتا کے بیٹے‘ یاایک وسیع ہندو سماج کے رکن کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ 
  سوامی پرساد موریہ نےمذکورہ بیانات پراپنےاعتراض کی تشریح کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھاگوت کے بیانات دراصل ایک نظریاتی بنیاد فراہم کرتے ہیں جو اُن کے خیال میں آئینی اور قانونی حدود کو پار کر سکتے ہیں۔ موریہ کا مطالبہ ہے کہ بھاگوت واضح طور پر بتائیں کہ وہ اس طرح کی قانونی کارروائیوں کے حق میں ہیں یا نہیں ؟ 
 سیاسی مبصرین کہتے ہیں کہ موریہ کا یہ سوال نہ صرف آر ایس ایس کی نظریاتی حدود پر روشنی ڈالتا ہے، بلکہ یہ آئینی اصولوں جیسے اظہار رائے کی آزادی اورجمہوری شناخت کو بھی مرکز میں لے آتا ہے۔ اگر بھاگوت اس مطالبے کی حمایت کرتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ وہ ہندو راشٹر کی بات کرنے والوں کو محض سیاسی یا نظریاتی بنیاد پر قانونی خطرے کی زد میں لانا چاہتے ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ موریہ کے اس بیان کے بعد نہ صرف اپوزیشن بلکہ حکمراں حلقوں میں بھی نئی بحث چھڑ سکتی ہے، کیونکہ ’ہندو راشٹر‘ کا مطالبہ دائیں بازو کی تنظیموں کا دیرینہ مؤقف رہا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK