• Wed, 15 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

لاڈلی بہن اسکیم کی ’کے وائی سی‘ کیلئے خواتین کو مسائل کا سامنا

Updated: October 14, 2025, 10:46 PM IST | Nandurbar

کہیں نیٹ ورک نہ ہونے سے اوٹی پی کیلئے خواتین کو پہاڑ پر جانا پڑرہا ہے، تو کہیں موبائل کو درخت پر لٹکایا جارہا ہے

Dear sisters, you are in trouble right now.
لاڈلی بہنیں اس وقت دشواریوں میں ہیں

 لاڈلی بہن اسکیم کیلئے کے وائی سی کروانے کیلئے خواتین کو پریشانیوں کا سامنا ہے۔ بالخصوص دیہی علاقوں کی خواتین کیلئے یہ کام جوئے شیر لانے کے مترادف ثابت ہورہا ہے۔ اس کے لئے انہیں کہیں پہاڑی پر چڑھائی کرنی پڑرہی ہے، تو کہیں دوپہر کی تیز دھوپ میں او ٹی پی کے انتظار میں لمبی قطار میں کھڑا رہنا پڑرہا  ہے۔ نندوبار ضلع کا ایک علاقہ تو ایسا ہے جہاں  سب کی نظریں ایک درخت سے بندھے موبائل فون پر جمی ہیں، اس اُمید میں کہ کہیں سے نیٹ ورک مل جائے۔ یہ ہے نندربار ضلع کا قبائلی اکثریتی علاقہ، جہاں’ڈیجیٹل انڈیا‘ کا خواب کمزور نیٹ ورک کی حقیقت سے ٹکرا رہا ہے۔ سینکڑوں مستحق خواتین  لاڈلی بہن اسکیم کی ماہانہ قسط حاصل کرنے کیلئے ’لازمی ای کے وائی سی ‘ کارروائی مکمل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
 ایک طرف دھڑگاؤں تعلقہ کےکھاردے خورد گاؤں میں عورتیں موبائل سگنل کیلئے  تقریباً۳۰؍ منٹ تک پہاڑی پر چڑھتی ہیں۔وہیں دوسری طرف بھامنہ گرام پنچایت کے ۵۰۰؍ سے زیادہ مستحقین دھوپ میں انتظار کرنے پر مجبور ہیں، اس امید میں کہ درخت پر بندھا ان کا فون کبھی نیٹ ورک پکڑ لے اور او ٹی پی آجائے۔
 نوبھارت ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق مہاراشٹر کایہ علاقہ۲؍ ریاستوں گجرات اور مدھیہ پردیش کی سرحد پر ہے۔ کبھی موبائل نیٹ ورک گجرات سے آتا ہے تو کبھی مدھیہ پردیش سے۔ نیٹ ورک کی کامیابی کی شرح صرف۵؍ فیصد سے بھی کم ہے۔ الگولان فاؤنڈیشن نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کے شریک بانیراکیش پوار نے بتایا، ’’ہم نے یہاں ایک کیمپ لگایا ہے، یہی واحد جگہ ہے جہاں کبھی کبھار موبائل ڈیٹا کام کرتا ہے، لیکن زیادہ تر اوقات میں ویری فکیشن  ناکام رہتی ہے۔‘‘
۱۰۰؍ میں سے صرف ۵؍  خواتین کواوٹی پی مل رہا ہے
 لاڈلی بہن اسکیم کیلئے ریاستی حکومت کے ای-کے وائی سی لازمی کرنے کے فیصلے نے دور دراز علاقوں کی اہل خواتین کیلئے  مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔ ویب سائٹ آہستہ لوڈ ہوتی ہیں، او ٹی پی آنے میں کافی وقت لگتا ہے، اور آدھار سے منسلک ویری فکیشن کی کارروائی بار بار ناکام ہو جاتی ہے۔ ایک رضاکار نے بتایا: ’’سو سے زیادہ خواتین کوشش کرتی ہیں، لیکن ان میں سے صرف پانچ یا دس ہی کامیاب ہو پاتی ہیں۔‘‘
۳۰۰؍روپے ٹرانسپورٹ کا خرچ 
 اُوشا پوار جیسی خواتین کیلئے ہر کوشش ایک امتحان بن جاتی ہے۔ انہوں نے بتایا، ’’دھڑگاؤں تعلقہ دفتر تک پہنچنے کے لیے ہمیں پیدل جانا پڑتا ہے، اور مجموعی طور پر۳۰۰؍ روپے آمد و رفت کا خرچ دینا پڑتا ہے ، جو ہمارے لیے ممکن نہیں۔‘‘
موبائل ٹاور لگے ہیں مگر نیٹ ورک نہیں
 دھڑگاؤں کے تحصیلدار گیانیشور سپکالے نے مشکلات تسلیم کرتے ہوئے کہا،’’موبائل ٹاور چار پانچ ماہ پہلے لگ چکے ہیں، مگر کنیکٹیویٹی اب بھی کمزور ہے۔ ہم نے آپریٹرز سے مسئلہ حل کرنے کی درخواست کی ہے۔ ہم خواتین کی مدد کے لیے عام سروس مراکز اور آدھار آپریٹرز کا تعاون لے رہے ہیں۔‘‘
ریاستی وزیر ادِتی تٹکرے کا بیان
 خواتین و اطفال ترقیات کی وزیر ادِتی تٹکرے نے حال ہی میں اعلان کیا کہ ستمبر کی قسط جاری ہو چکی ہے اور مستحقین کو یاد دلایا گیا ہے کہ وہ دو ماہ کے اندر آفیشیل ویب سائٹ:
ladkibahin.maharashtra.gov.in 
پر اپنی ای-کے وائی سی مکمل کریں۔تاہم، ان کے سوشل میڈیا پر آئے تبصروں سے عوامی پریشانی کی گہرائی کا اندازہ ہوتا ہے۔ ایک صارف نے پوچھا، ’’ان خواتین کا کیا ہوگا جن کے شوہر یا والد کا انتقال ہو چکا ہے یا وہ علیحدہ رہتی ہیں، اور ان کے آدھار کارڈ نہیں ہیں؟‘‘پونے کی مایا ڈبلیو نے کہا، ’’مجھے ستمبر کی رقم تو مل گئی، لیکن او ٹی پی اب تک نہیں آیا۔‘‘ اس پر ادِیتی تٹکرے نے یقین دلایا کہ ان کا محکمہ او ٹی پی اور ڈیٹا سے متعلق مسائل کو حل کرنے پر کام کر رہا ہے۔ خواتین کو ان مسائل کے حل ہونے کا بے صبری سے انتظار ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK