Inquilab Logo

سال ۲۰۲۰ء کورونا کی وباء اور اس پر نفرت کی سیاست کے حوالے سے یاد رکھا جائیگا

Updated: December 25, 2020, 9:18 AM IST | Nadeem Asran | Mumbai

ختم ہوتے سال کے دوران کورونا کے سبب بنائے گئے قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر شہریوں کو ہی نہیں بلکہ بے قصور غیر ملکیوں کو بھی مجرم بنا کر پیش کیا گیا اور اس میں سب سے بڑا کردار ذرائع ابلاغ کے بعض حلقوں نے ادا کیا ۔

Tablighi Jamaat
تبلیغی جماعت

ختم ہوتے سال کے دوران کورونا کے سبب بنائے گئے قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر شہریوں کو ہی نہیں بلکہ بے قصور غیر ملکیوں کو بھی مجرم بنا کر پیش کیا گیا اور اس میں سب سے بڑا کردار ذرائع ابلاغ کے بعض حلقوں نے ادا کیا ۔ ۲۰۲۰ ء میں قتل، آبرو ریزی، لوٹ مار یا چوری و ڈکیتی کے بھی واقعات ہوئے مگر مارچ ۲۰۲۰ء سے کورونا کی وبا  ءکے نام پر نفرت کی سیاست اور ذرائع ابلاغ کے سیاہ کردار نے ایک نئے جرم کو جنم دیا ۔
تبلیغی جماعت  کے اراکین پر پولیس کا عتاب 
 ذرائع ابلاغ کی منفی رپورٹنگ کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب مارچ میں لاک ڈاؤن کے دوران دہلی کے مرکز نظام الدین  میں ملک اور بیرون ملک سے آنے والے تبلیغی جماعت کے ہزاروں اراکین  جمع تھے۔ اس اجتماع کے غیر ملکی شہریوں میں تنزانیہ، انڈونیشیا، ملیشیا اور دیگر ممالک کے تبلیغی اراکین تھے جن میں سے متعدد کے خلاف لاک ڈاؤن اور کورونا کی روک تھام سے متعلق قوانین کی خلاف ورزی کے الزام کے تحت کیس درج کیا گیا۔ اس وقت میڈیا کےمخصوص حلقوں نے نفرت انگیز مہم چلاتے ہوئے انہیں کورونا پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیا۔ ممبئی میں سب سے پہلے آزاد میدان پولیس اسٹیشن میں ۶؍ اپریل کو۱۵۰؍ افراد  پرکیس درج کیا گیا۔ پھر باندرہ پولیس اسٹیشن میں۱۲؍ انڈونیشیائی شہریوں، احمدنگر ڈسٹرکٹ میں ۳۴؍اور ناگپور میں ۲۹؍ غیر ملکی شہریوں کے خلاف یکے بعد دیگرے کیس درج کئے گئے اور انہیں گرفتار کیا گیا۔ قابل ذکر بات یہ رہی کہ ان میں سے اکثر مقدموں کی شنوائی کے دوران بامبے ہائی کورٹ نےپولیس کی سرزنش کی اورغیر ملکی شہریوں کی فوراً رِہائی کا حکم دیا  ۔
اداکار کی پُر اسرار موت اور بلی کا بکرا 
 امسال آبرو ریزی اور قتل جیسے حساس کیسوں میںتو کمی واقع ہوئی  لیکن ذرائع ابلاغ کے مخصوص حلقوں کی منفی رپورٹنگ کے سبب ایک بار پھر ایک اداکارہ ہی نہیں بلکہ ہندی فلم انڈسٹری کے کئی اداکاروں کو پولیس نے جیل کی ہوا کھلا دی یا انہیں ان کے سوال جواب کا سامنا کرنا پڑا۔ جون ۲۰۲۰ء میں فلم انڈسٹری میں اس وقت کہرام مچ گیا جب مشہور اداکار سشانت سنگھ نے اپنے فلیٹ واقع باندرہ میںخود کشی کر لی۔ پھر کیا تھا منفی ذہنیت کے حامل میڈیا نے اس خود کشی کو نہ صرف قتل قرار دے دیا بلکہ اس کی معشوقہ ریہا چکروتی کو ہی اس کے قتل کا ملزم قرار دیا۔ رِیہا کی گرفتاری کے بعد اس پر صرف سشانت کو خود کشی پر آمادہ کرنے کا الزام ہی نہیں لگا بلکہ یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ اس نے اداکار کے اکاؤنٹ سے ۱۵؍ کروڑ ٹرانسفر  کئے تھے اور وہ منشیات کے کاروبار میں ملوث تھی۔ اس کیس کی  ایک دو نہیں بلکہ۴؍ ایجنسیاں  تحقیقات کررہی ہیں۔
کنگنا رناوت پر زہر افشانی کا معاملہ 
 امسال جرائم میں اضافہ کی ایک وجہ سوشل میڈیا بھی بنا۔ سوشل میڈیا کے ذریعہ کئی شہریوں نے نہ صرف مہاراشٹر اگھاڑی سرکار کو نشانہ بناتے ہوئے تضحیک آمیز پوسٹ اپلوڈ کئے بلکہ سشانت سنگھ راجپوت کی خود کشی پر اداکارہ کنگنا رناوت نے ممبئی پولیس اور مہاراشٹر حکومت اور بی ایم سی کو برا بھلا کہنے کے ساتھ ساتھ دو فرقوں کے درمیان نفرت پھیلانے کی کوشش کرتے ہوئے کئی متنازع بیانات بھی دیئے۔ یہی نہیں کنگنا نے اپنے  بنگلہ پر ہونے والی انہدامی کارروائی کے بعدحکومت، پولیس اور بی ایم سی کے خلاف اپنے ٹویٹر پرجو متنازع بیان دیئے اُن کے خلاف بھی باندرہ پولیس اسٹیشن میں کیس درج کیا گیا۔ کنگنا نےاپنے خلاف درج کردہ کیس کو خارج کرنے کے علاوہ بی ایم سی سے ۲؍ کروڑ روپے ہرجانے کا مطالبہ کرتے ہوئے بامبے ہائی کورٹ میں عرضداشت داخل کی۔ یہ معاملہ بھی فی الوقت عدالت میں ہے ۔
شیو سینا ایم ایل اے پر بد عنوانی کا الزام 
   ریاستی  اسمبلی کی کارروائی کے دوران شیو سینا ایم ایل اے پرتاپ سر نائک نےارنب گوسوامی اور کنگنا رناوت کے خلاف ممبئی کا موازنہ مقبوضہ کشمیر سے کرنے پر مراعات شکنی کا نوٹس جاری کیا تھا ۔ اس کے بعد ایم ایل اے کو بھی اس وقت سیاسی رنجش کا سامنا کرنا پڑا جب انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے نومبرمیں ان کے گھر اور دفاترپرچھاپہ مارا اور پاکستانی کریڈیٹ کارڈ بھی ضبط کرنے کا الزام لگایا ۔ ایم ایل اے کے خلاف ’ٹاپ سیکوریٹی ایجنسی ‘ نامی فرم  میں جو ان کی ذاتی ملکیت ہے اور اس فرم کے ذریعہ سرکاری دفاترکو سیکوریٹی گارڈ فراہم کرنے کا کانٹریکٹ لیا جاتا ہے، خرد برد کرنے اور آمدنی سے زائد اثاثہ جمع کرنے کے الزام میں منی لانڈرنگ کے تحت کیس درج کیا گیا ہے۔  
منفی رپورٹنگ کرنے والوں پر کیس درج 
  یوں تو منفی رپورٹنگ کرنے کا الزام کئی چینلوں پر لگا ہے لیکن نفرت انگیز رپورٹنگ کرنے اور دو فرقوں کے خلاف زہر افشانی کرنے کے تحت جن دو چینلوں کے صحافیوں پر کیس درج ہوا ہے ان میں ری پبلک ٹی وی کے ایڈیٹر اِن چیف ارنب گوسوامی اور نیوز ۱۸؍ کے امیش دیوگن شامل ہیں۔ امیش دیوگن کے خلاف خواجہ غریب نواز ؒکے تعلق سے متنازع رپورٹنگ کرنے پر ممبئی میں بھی کیس  درج ہوا ہے لیکن گرفتاری نہیں ہوئی ہے۔ بعد ازیں ارنب کے خلاف باندرہ ریلوے اسٹیشن پر جمع ہونے والے مزدوروں کی بھیڑ کو ایک مخصوص طبقہ سے جوڑنے اور نفرت پھیلانے کے علاوہ ممبئی پولیس کے این ایم جوشی مارگ اور علی باغ پولیس نے انٹیرئیر ڈیزائنر انوئے اور کمود نائک کو خود کشی پر آمادہ کرنے، پولیس کے کام میں مداخلت کرنے اور ہاتھا پائی کرنے کے تحت بھی کیس درج کیا گیا ہے ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK