نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) کے سینئر لیڈر بابا صدیقی کے بہیمانہ قتل کو ایک سال گزر جانے پر ان کے فرزند اور سابق رکن اسمبلی ذیشان صدیقی نے سوشل میڈیا پر ایک نہایت جذباتی پیغام جاری کیا، جس میں انہوں نے والد کے بچھڑ جانے کے غم اور انصاف کے حصول میں تاخیر پر گہری مایوسی ظاہر کی۔
ذیشان صدیقی(دائیں) اپنے والد بابا صدیقی(مرحوم )کے ساتھ ۔ تصویر: آئی این این
نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) کے سینئر لیڈر بابا صدیقی کے بہیمانہ قتل کو ایک سال گزر جانے پر ان کے فرزند اور سابق رکن اسمبلی ذیشان صدیقی نے سوشل میڈیا پر ایک نہایت جذباتی پیغام جاری کیا، جس میں انہوں نے والد کے بچھڑ جانے کے غم اور انصاف کے حصول میں تاخیر پر گہری مایوسی ظاہر کی۔
یاد رہے کہ ۶۶؍سالہ بابا صدیقی کو ۱۲؍ اکتوبر ۲۰۲۴ءکی رات باندرہ (ایسٹ) میں ذیشان صدیقی کے دفتر کے باہر ۳؍ حملہ آوروں نے گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔ اس دل دہلا دینے والے واقعہ نے نہ صرف ممبئی بلکہ ریاستی سیاسی حلقوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا تھا۔
ذیشان صدیقی نے اپنے پیغام میں لکھا ’’آج ایک سال بیت گیا ہے، لیکن میرے لئے یہ صرف وقت نہیں بلکہ دکھ، غصے اور بے پناہ تکلیف کے ۳۶۵؍ دن ہیں۔ میں سوچتا ہوں، اگر میں اُس رات چند منٹ پہلے دفتر سے نہ نکلا ہوتا تو شاید حالات کچھ اور ہوتے۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ پاپا نے اپنی آخری سانسوں میں بھی میری فکر کی ہوگی۔‘‘انہوں نے افسوس کے ساتھ کہا کہ ’’ایک سال گزر گیا مگر اب تک انصاف نہیں ملا۔‘‘ ذیشان نے اپنے پیغام کے آخر میں کہا کہ ان کے خاندان نے اس دن سب کچھ کھو دیا، یہ زخم کبھی نہیں بھر سکتا، مگر انہیں پختہ یقین ہے کہ سچائی کو ہمیشہ دبایا نہیں جا سکتا اور انصاف ایک دن ضرور حاصل ہوگا۔
ادھر، کیس سے متعلق ایک اہم پیش رفت میں مہاراشٹرا کنٹرول آف آرگنائزڈ کرائم ایکٹ (مکوکا)کے تحت ایک خصوصی عدالت نے۶؍ اکتوبر کو قتل کیس میں ملوث ۳؍ ملزمین سنبھاجی پاردھی، گورو اپونے اور انوراگ کشیپ کی ضمانت کی درخواستوں کو مسترد کر دیا۔
استغاثہ کے مطابق انوراگ کشیپ نے مبینہ طور پر قتل کے بعد اصل شوٹر کو نیپال فرار ہونے میں مدد فراہم کی تھی۔ سنبھاجی پاردھی اور اس کے ساتھیوں پر حملہ آوروں کو آتشیں اسلحہ اور دیگر لاجسٹک تعاون دینے کا الزام ہے، جبکہ گورو اپونے پر قتل کی سازش اور منصوبہ بندی میں سرگرم کردار ادا کرنے کا شبہ ظاہر کیا گیا۔
خصوصی سرکاری وکیل مہیش مولے نے عدالت کے روبرو کہا کہ جرم نہایت سنگین ہے اور شواہد ملزمین کے خلاف مضبوط ہیں، لہٰذا ان کی ضمانت دئیے جانے سے تفتیش پر اثر پڑ سکتا ہے۔ عدالت نے دلائل کا جائزہ لینے کے بعد تینوں کی ضمانت مسترد کرتے ہوئے یہ مشاہدہ کیا کہ ان کی رہائی جاری تحقیقات میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔