Inquilab Logo

زبیر کو ایک اور کیس میں ضمانت مل گئی مگر رہائی ابھی آسان نہیں 

Updated: July 16, 2022, 11:50 AM IST | Agenc | New Delhi

پٹیالہ کورٹ نے دہلی پولیس کے کیس میں  ضمانت پررہا کرنے کا حکم دیامگریوپی میں درج مقدموں کی وجہ سے ابھی رہائی مشکل ہے، دہلی کی عدالت نے دوٹوک انداز میں کہا کہ ’’اختلافی آوازیں ضروری ہیں، عوام کو اپنی رائے کے اظہار کی آزادی نہ دی گئی تو نہ جمہوریت باقی رہ سکتی ہے اورنہ ہی ٹھیک سے کام کرسکتی ہے۔‘‘

Muhammad Zubair got bail in another case on Friday.Picture:INN
محمد زبیر کو جمعہ کو دوسرے معاملے میں بھی ضمانت مل گئی۔ انہیں اب ہاتھرس اور لکھیم پور کھیری کیس میں ضمانت لینی ہوگی۔ تصویر: آئی این این

ستاپور  میں درج کیس میں  سپریم کورٹ سے ضمانت ملنے کے بعد آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کو جمعہ کو دہلی کے پٹیالہ کورٹ  نے محمد زبیر کو دہلی میں  درج اس کیس میں  بھی  ضمانت پر رہا کرنے کا حکم سنایا ہے، جس کیس میں  انہیں سب سے پہلے گرفتار کیاگیاتھا۔  محمد زبیر کو رہا کرتے ہوئے کورٹ نے دوٹوک انداز میں  واضح کیا کہ ’’جمہوریت میں اختلافی آوازیں  ضروری  ہیں اور سیاسی جماعتوں پر بھی تنقید کی جاسکتی ہے۔‘‘  ساتھ ہی کورٹ نے متنبہ کیا کہ ’’اگر عوام کو ان کی رائے کے اظہار کی اجازت نہ دی گئی تو جمہوریت فروغ پائے گی ،نہ ٹھیک سے کام کرسکے گی۔
؍۷؍ میں سے ۲؍ مقدموں میں ضمانت 
 فرضی خبروں کو بے نقاب کرنے والے محمد زبیر کو اب تک ۷؍ معاملوں میںسے ۴؍ میں گرفتار کیاجا چکا ہے جن میں سے  جمعہ کو انہیں  دوسرے معاملے میں بھی ضمانت مل گئی ہے۔ لکھیم پور کھیری  اور ہاتھرس میں درج کئے گئے  معاملے میں  ضمانت کی ان کی درخواست زیر شنوائی ہے جبکہ  جمعرات کو انہیں  ہاتھرس کے کیس میں گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیاگیا جس نے انہیں ۱۴؍ دنوں  کی عدالتی تحویل میں بھیج دیا ہے۔  یوپی میں محمد زبیر کے خلاف کل ۶؍ معاملے درج ہیں ۔ اندیشہ ہے کہ لکھیم پور کھیری اور ہاتھرس میں ضمانت ملنے پر انہیں دیگر معاملوں میں گرفتار کیا جائے گا۔ بہرحال محمد زبیر نے یوپی میں درج کی گئی تمام ۶؍ ایف آئی آر کو خارج کرنے کیلئے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کردی ہے۔  اس سے قبل گرفتاری سے قبل ہی  دہلی  میں درج ایک کیس میں  سپریم کورٹ انہیں  گرفتاری سے تحفظ دے جاچکا ہے۔
ابھی جیل میں ہی رہنا ہوگا
 دہلی پولیس کے کیس  محمد زبیر کو میں پٹیالہ ہاؤس کورٹ نے ۵۰؍ ہزار روپے  کے ذاتی مچلکہ اور ایک شخص کی ضمانت پر رہا کرنے کا حکم سنایا ہے۔ اس سے قبل سپریم کورٹ انہیں  سیتاپور میں  درج کیس میں تاحکم ثانی مشروط ضمانت دے چکی ہے تاہم ان کی رہائی ابھی ممکن نہیں ہوگی۔ محمد زبیر کو لکھیم پور کھیری اور ہاتھرس کیس میں بھی ضمانت حاصل کرنی ہوگی اور اگر یوپی میں درج کئے گئے دیگر  مقدموں  میں ان کی گرفتاری ہوتی تو ان میں  بھی ضمانت حاصل کرنی ہوگی۔اس سے قبل اگر سپریم کورٹ   یوپی میں درج ۶؍ معاملوں کو ان کی اپیل پر کالعدم قرار دینے کا حکم سناتا ہے تب رہائی کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ 
 سیاسی جماعتیں تنقید سے بالاتر نہیں
 پٹیالہ کورٹ میں محمد زبیر کی ضمانت کی  مخالفت  کرتے ہوئے وکیل استغاثہ نے دلیل دی کہ زبیر نے اپنے ٹویٹ میں ’’۲۰۱۴ء سے قبل اور ۲۰۱۴ء کے بعد‘‘کہہ کر ایک سیاسی جماعت کی طرف اشارہ کیا ہے کیوں کہ  ۲۰۱۴ء میں مودی بر سراقتدار  آئے  تھے، وکیل نے دلیل دی کہ ’’اس کا مقصد دوسری طرف کے لوگوں کو مشتعل کرنا اور غلط فہمی پھیلانا تھا۔‘‘ جواب میں کورٹ نےکہا کہ ’’ہندوستانی  جمہوریت میں سیاسی پارٹیوں پر تنقید کی جاسکتی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’اپنی پالیسیوں پر تنقید سے بچنے کیلئے سیاسی پارٹیاں اپنا منہ نہیں چھپا سکتیں۔ صحت مند جمہوریت کیلئے اختلافی آوازیں  ضروری ہیں اس لئے صرف کسی پارٹی پر تنقید کرنے کی پاداش میں دفعہ ۱۵۳(اے ) اور ۲۹۵ ( اے)کا اطلاق نہیں کیا جاسکتا۔‘‘
 ہنومان ہوٹل نام رکھنا بھی کوئی جرم نہیں
  یاد رہے کہ محمد زبیر نے ۱۹۸۳ء کی فلم ’کسی سے نہ کہنا‘کی ایک تصویر ٹویٹ کی تھی جس میں  ایک ہوٹل کا بورڈ نظر آرہا ہے ۔بورڈ پر ہوٹل کا نام ’ہنومان ہوٹل‘لکھا ہوا ہے مگر واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ پہلے یہ ’ہنی مون ہوٹل‘ تھا۔ تصویر کو شیئر کرتے ہوئے محمد زبیر نے لکھاتھا کہ ’’۲۰۱۴ء سے قبل: ہنی مون ہوٹل، ۲۰۱۴ء کے بعد ہنومان ہوٹل۔‘‘ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ’’ہیش ٹیگ سنسکاری ہوٹل‘‘ بھی لکھا تھا۔  اسی ٹویٹ  کے خلاف  ایک انجان ٹویٹر صارف کی  شکایت پر جو ٹویٹ کے ذریعہ ہی کی گئی تھی ، محمد زبیر کو گرفتار کرلیا۔  جمعرات کو اس معاملے میں جب کورٹ نے  پولیس سے دریافت کیا کہ کیا اس نے متاثرہ شخص کا بیان درج کیا تو پولیس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ عدالت میں محمد زبیر کی پیروی کرتے ہوئے  ان کی وکیل ورندا گروور نے ’’کسی سے نہ کہنا‘‘ فلم کا وہ حصہ بھی لیپ ٹاپ پر جج کو دکھایا جس سے لی گئی تصویر پر واویلا مچایاگیاہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ ۱۹۸۳ء سے یہ فلم دیکھی جارہی ہے مگر کسی کے جذبات مجروح نہیں ہوئے۔ عدالت نے جمعہ کو فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ہندو مذہب ایسا غیر متحمل نہیں ہے کہ دیوی دیوتاؤں  کے نام پر ادارہ یا  دکان کا نام رکھنے پر جذبات مجروح  ہوجائیں۔ 
زبیر کے وکیل کے دلائل سے اتفاق
  کورٹ نے ضمانت کی درخواست پر شنوائی کے دوران  محمد زبیر  کے وکیل کی اس دلیل سے بھی اتفاق کیا کہ رشی کیش مکھرجی کی مذکورہ فلم کو سینسر بورڈ   نے سرٹیفکیٹ دیا ہے اور اب تک کہیں کوئی شکایت درج نہیں ہوئی کہ اس سے کسی کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہوں۔ کورٹ نے اس بات کا بھی نوٹس لیا کہ اتنے دن گزر جانے کے بعد بھی پولیس اس انجان شخص کا بیان درج نہیں کرسکی جس کی شکایت پر محمد زبیر کے خلاف کیس درج کر کے اسے گرفتار کرلیاگیا۔
دہلی پولیس کی سرزنش
 پٹیالہ کورٹ نے دہلی پولیس کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہا سے ضابطہ فوجداری کے تحت طے شدہ اصولوں  کے تحت جانچ کرنی چاہئے۔ کورٹ  نے نشاندہی کی کہ جانچ اپنے آپ میں دستاویزی نوعیت کی ہے  جس کیلئے محمد زبیر کو تحویل میں رکھ کر پوچھ تاچھ کی ضرورت نہیں ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK