• Mon, 24 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

اسرائیل کا مغربی کنارے کے تاریخی مقام سیبسٹیا کی وسیع زمین کوضبط کرنے کا منصوبہ

Updated: November 24, 2025, 2:04 PM IST | Gaza

ایک سرکاری اسرائیلی دستاویز سے پتہ چلا ہے کہ اسرائیل مغربی کنارے کے تاریخی مقام سیبسٹیا کے تقریباً ۴۵۰؍ ایکڑ حصے پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنارہا ہے، جس میں ۱۸۰۰؍ دونم نجی فلسطینی اراضی شامل ہے۔ پیس ناؤ نے اس اقدام کو آثارِ قدیمہ کے لحاظ سے فلسطینی زمین پر سب سے بڑی ضبطی قرار دیا۔ انسانی حقوق تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ اس سے فلسطینی خاندان بے گھر ہو سکتے ہیں اور مقامی سیاحت ختم ہو سکتی ہے۔ یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب اسرائیل پر آباد کاروں کے تشدد کے خلاف کارروائی کا دباؤ بڑھ رہا ہے، جبکہ عالمی برادری مغربی کنارے کی بستیوں کو غیر قانونی مانتی ہے۔

Photo: X
تصویر: ایکس

اسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ایک سرکاری اسرائیلی دستاویز سے انکشاف ہوا ہے کہ اسرائیل مغربی کنارے کے تاریخی مقام سیبسٹیا کے بڑے حصوں پر قبضہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اینٹی سیٹلمنٹ واچ ڈاگ گروپ پیس ناؤ کا کہنا ہے کہ تقریباً ۴۵۰؍ ایکڑ پر مشتمل اس علاقے کی ضبطی، آثارِ قدیمہ کے لحاظ سے اہم فلسطینی زمین پر ہونے والا ’’سب سے بڑا قبضہ‘‘ ہے۔ تنظیم کے مطابق، اس منصوبے میںفلسطینی دیہات برقع اور سیبسٹیا کی تقریباً ۱۸۰۰؍ دونم نجی اراضی شامل ہے، جن پر ہزاروں زیتون کے درخت موجود ہیں۔ پیس ناؤ کا کہنا ہے کہ یہ زمین فلسطینی مالکان کے نام پر باضابطہ طور پر رجسٹرڈ ہے۔ دستاویز کے مطابق فلسطینیوں کو ضبطی کے اس حکم پر اعتراضات دائر کرنے کیلئے ۱۴؍ دن کا وقت دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: کنیڈا: پابندی کے باوجود اسرائیل کو ہتھیاروں کی ترسیل کی رپورٹ کے جائزے کا اعلان

سیبسٹیا کی تاریخی اہمیت اور اسرائیلی مؤقف
سیبسٹیا وہ مقام ہے جو قدیم اسرائیلی بادشاہی سامریہ کے دارالحکومت سے منسوب ہے۔ عیسائی اور مسلمان یہ بھی مانتے ہیں کہ یہیں جان بپٹسٹ کی تدفین ہوئی تھی۔ یہ جگہ ۲۰۱۲ء سے ریاستِ فلسطین کیلئے یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ کی فہرست میں شامل ہے۔ اسرائیل کا مؤقف ہے کہ یہ ضبطی ’’وراثت کے تحفظ‘‘ کیلئے ضروری ہے، اور وہ اس مقام کے ’’یہودی انجیلی ورثے‘‘ کو اپنی ملکیت کا جواز قرار دیتا ہے۔ ۲۰۲۳ء میں اسرائیلی حکومت نے اس مقام کو سیاحتی مرکز بنانے کیلئے ۳۰؍ ملین شیکلسے زیادہ کی رقم مختص کی تھی۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کے خدشات
انسانی حقوق گروپس کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے مقامی فلسطینی باشندے شدید متاثر ہوں گے، کئی خاندانوں کو بے گھر ہونا پڑ سکتا ہے، اور اس مقام پر فلسطینیوں کی زیرِ قیادت سیاحت مکمل طور پر ختم ہو جائے گی۔ پیس ناؤ کے مطابق، جیسے دیر قلعہ اور دیر سمعان کے مقامات اب اسرائیلی بستیوں میں شامل ہیں اور فلسطینیوں کی وہاں تک رسائی ممکن نہیں، ویسے ہی سیبسٹیا کا انجام بھی ایسا ہی ہو سکتا ہے۔ تنظیم نے مزید کہا کہ ’’بین الاقوامی قانون کے تحت مقبوضہ علاقوں میں زمین پر قبضہ صرف اسی صورت میں جائز ہے جب وہ مقامی آبادی کی ضروریات پوری کرے۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزی، غزہ اور خان یونس پر اسرائیلی حملہ

غیر قانونی چوکیوں اور آباد کاروں کے تشدد کے پس منظر میں اقدام
یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بیت المقدس کے قریب اسرائیلی آباد کاروں نے ایک نئی غیر قانونی چوکی قائم کی ہے، جبکہ حکومت پر آباد کاروں کے بڑھتے ہوئے تشدد کے خلاف کارروائی کیلئے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ مقامی ایٹزیون سیٹلر کونسل کے چیئرمین یارون روزینتھل نے اس قبضے کو ’’ہمارے مادری راہیل، کنگ ڈیوڈ کے شہر میں واپسی‘‘ قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ یہ منصوبہ ایٹزیون اور یروشلم کے درمیان رابطہ مضبوط کرے گا۔

پس منظر: مغربی کنارے کی صورتِ حال
اسرائیل نے ۱۹۶۷ء کی چھ روزہ جنگ کے بعد مغربی کنارے، غزہ اور مشرقی یروشلم پر قبضہ کیا تھا۔ آج مغربی کنارے میں تقریباً ۳۰؍ لاکھ فلسطینی رہتے ہیں، جو زیادہ تر اسرائیلی فوجی کنٹرول کے تحت ہیں جبکہ نصف ملین سے زائد اسرائیلی آباد کار یہاں بسے ہوئے ہیں۔ بین الاقوامی برادری مغربی کنارے میں اسرائیلی بستیوں کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی سمجھتی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK