Updated: December 16, 2025, 3:35 PM IST
|
Agency
| Washington
اس فورس کی تعیناتی امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کے اگلے مرحلے کا ایک اہم حصہ ہے مگر امریکہ اب تک یہ واضح نہیں کرسکا ہےکہ حماس کو غیر مسلح کیسے کیا جائے گا؟
غزہ میںعالمی فورس کی تعیناتی مو ضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ تصویر: آئی این این
امریکی حکام کے مطابق، غزہ کی پٹی میں اقوامِ متحدہ کے اختیار کے تحت ایک عالمی استحکام فورس (اسٹیبلائزیشن فورس) تعینات کی جا سکتی ہے جس میں بین الاقوامی فوجی دستے شامل ہوں گے اور اس کی تعیناتی ممکنہ طور پر اگلے ماہ ہی شروع ہو سکتی ہے۔ تاہم، اس تعلق سے اب تک کچھ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ حماس کو غیر مسلح کیسے کیا جائے گا۔عالمی ذرائع کے مطابق۲؍ امریکی عہدیداروں نے خبر رساں ایجنسی رائٹرز کو بتایا کہ ایک امریکی ۲؍ اسٹار جنرل کو اس فورس کی قیادت کیلئے زیر غور لایا جا رہا ہے، تاہم اس حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔اس فورس کی تعیناتی امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کے اگلے مرحلے کا ایک اہم حصہ ہے۔ منصوبے کے پہلے مرحلے کے تحت ۲؍ سالہ جنگ میں ایک عاضی جنگ بندی کا آغاز۱۰؍ اکتوبر کو ہوا جس کے بعد حماس نے یرغمالوں کو رہا کیا جبکہ اسرائیل نے زیر حراست فلسطینیوں کو آزادی دی۔
وہائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولین لیوٹ نے صحافیوں کو بتایا ’’امن معاہدے کے دوسرے مرحلے کیلئے اس وقت پس پردہ منصوبہ پر خاموشی سے کام جاری ہے۔ ہم ایک دیرپا اور مستقل امن کو یقینی بنانا چاہتے ہیں ۔ ‘‘ انہوں نے بتایاکہ انڈونیشیا نے کہا ہے کہ وہ غزہ میں صحت اور تعمیر نو سے متعلق ذمہ داریاں سنبھالنے کیلئے۲۰؍ ہزار تک فوجی تعینات کرنے کیلئے تیار ہے۔انڈونیشیائی وزارتِ دفاع کے ترجمان ریکو سریات نے کہا کہ ’’یہ معاملہ ابھی منصوبہ بندی اور تیاری کے مراحل میں ہے۔ ہم تعینات کی جانے والی فورس کے تنظیمی ڈھانچے کو حتمی شکل دے رہے ہیں۔‘‘
غزہ کو غیر فوجی بنانے کا عمل
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس بین الاقوامی استحکام فورس کو اجازت دی ہے کہ وہ نئی تربیت یافتہ اور جانچ پڑتال سے گزرنے والی فلسطینی پولیس کے ساتھ مل کر غزہ میں سیکوریٹی کو مستحکم کرے۔ اس میں غزہ پٹی کو غیر فوجی بنانے کا عمل شامل ہے جس کے تحت عسکری، حماس جنگجو اور ان کے انفرا اسٹرکچر کو تباہ کرنا، ان کی دوبارہ تعمیر کو روکنا اور غیر ریاستی مسلح گروہوں کے ہتھیاروں کو مستقل طور پر ناکارہ بنانا شامل ہے۔تاہم یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ یہ عملی طور پر کیسے انجام دیا جائے گا۔اقوامِ متحدہ میں امریکی سفیر مائیک والٹز نے کہا کہ سلامتی کونسل نے اس فورس کو غزہ کو غیر فوجی بنانے کے لیے ضروری وسائل بشمول طاقت کے استعمال کی اجازت دی ہے۔ انہوں نے اسرائیلی ’چینل۱۲‘ کو بتایا کہ یقیناً یہ ہر فریق ملک کے ساتھ بات چیت ہوگی اور فورس کی موجودگی سے متعلق قوانین وضوابط پر مشاورت جاری ہے۔ دوسری جانب حماس کا کہنا ہے کہ اس سے غیر مسلح ہونے کے معاملے پر ثالثوں امریکہ، مصر اور قطر نے باضابطہ طور پر کوئی بات نہیں کی ہے اور تنظیم کا موقف ہے کہ فلسطینی ریاست کے قیام تک وہ ہتھیار نہیں ڈالے گی۔
یو این آر ڈبلیو اے کی حمایت
اس دوران جمعہ کو۸؍ مسلم اور عرب ممالک کے وزرائے خارجہ نے فلسطینی مہاجرین کیلئے اقوامِ متحدہ کے ادارے یو این آر ڈبلیو اے کی حمایت میں ایک مشترکہ بیان جاری کیا تھا۔بیان پر سعودی عرب، مصر، اردن، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، پاکستان، ترکی اور قطر کے وزرائے خارجہ نے دستخط کیے۔ ان ممالک نے اس بات کی توثیق کی کہ ’’اقوامِ متحدہ کا فلسطینی مہاجرین کے لیے امدادی ادارہ (انروا) فلسطینی مہاجرین کے حقوق کے تحفظ میں ناگزیر کردار ادا کر رہا ہے۔‘‘