Inquilab Logo Happiest Places to Work

سید مشتاق علی، جن کے نام پر ٹرافی کرکٹ میں داخلہ کا راستہ ہے

Updated: June 18, 2025, 11:33 AM IST | Inquilab News Network | Mumbai

آج ہم ایک ایسے مردِ میدان کی کہانی پیش کررہے ہیں، جس نےہندوستانی کرکٹ کے آسمان پر اپنی برق رفتار بیٹنگ اور جواں مردی سے وہ چراغ روشن کیا، جس کی روشنی آج بھی سید مشتاق علی ٹرافی کی شکل میں قائم ہے۔

A great cricketer Syed Mushtaq Ahmed. Photo: INN
ایک عظیم کرکٹ کھلاڑی سید مشتاق احمد۔ تصویر: آئی این این

آج ہم ایک ایسے مردِ میدان کی کہانی پیش کررہے ہیں، جس نےہندوستانی کرکٹ کے آسمان پر اپنی برق رفتار بیٹنگ اور جواں مردی سے وہ چراغ روشن کیا، جس کی روشنی آج بھی سید مشتاق علی ٹرافی کی شکل میں قائم ہے۔ یہ داستان ہے ایک ایسے کھلاڑی کی جس نے غلامی کے دور میں بھی آزادی کی للکار بیٹ سے دی، اور جس کی بے خوفی اور فن نے ہندوستانی بیٹنگ کو نئی شناخت بخشی۔ 
 سید مشتاق علی کی پیدائش۱۷؍دسمبر۱۹۱۴ءکواندور (مدھیہ پردیش) میں ہوئی۔ وہ ایک علمی، تہذیبی اور شائستہ مسلم گھرانے سے تعلق رکھتےتھے۔ تعلیم یافتہ والدین نے ان کی پرورش میں ادب و اخلاق کا رنگ بھرا، اور وہ نہ صرف کرکٹ کے عاشق بنے بلکہ ادبی گفتگو، موسیقی اور اردو زبان سے بھی لگاؤ رکھتے تھے۔ ان کے استاد، کرکٹ کے ابتدائی رہنما سی کے نائیڈو تھے، جو خود اُس دور کے بڑےبلے بازوں میں شمار ہوتے تھے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ نائیڈو کی تربیت اور مشتاق کی فطری چمک نے ایک نایاب گوہر کو تراشا۔ 
 انہوں نے۱۹۳۴ءمیں ہندوستان نے اپنا پہلا ٹیسٹ کھیلا، اور ۱۹۳۶ءمیں مشتاق علی کو ہندوستان کی قومی ٹیم میں شامل کیا گیا۔ انہوں نے۱۹۳۶ءکےانگلینڈ ٹور پر ٹیسٹ کرکٹ کا آغاکیا، اور وہیں تاریخ رقم کی۔ ۱۹۳۶ءمیں انگلینڈ کا میدان، ٹھنڈی ہوائیں، اور دیارِ غیر کا دباؤ۔ لیکن مشتاق علی اپنے منفرد انداز میں میدان میں اترتے ہیں، اور۱۰۳؍رنز کی تاریخی اننگز کھیلتے ہیں۔ یہ پہلی مرتبہ تھا کہ کسی ہندوستانی کھلاڑی نے غیر ملکی سرزمین پر ٹیسٹ سنچری بنائی ہو۔ ان کی بیٹنگ روایتی نہیں تھی — وہ ایک فنکار تھے۔ ان کی بیٹنگ میں جھجک نہیں، جرات تھی۔ ان کے شاٹس میں تکنیک نہیں، موسیقی تھی۔ ان کی اوپننگ پارٹنرشپ وجے مرچنٹ کے ساتھ ہندوستان کی ابتدائی ’گلیمر جوڑی‘ سمجھی جاتی تھی۔ دونوں کی جوڑی نے کرکٹ کو وہ قد و قامت دیا جو آج وراٹ کوہلی اور روہت شرما کی شراکت میں جھلکتا ہے۔ 
 انہوں نے مجموعی طور پر ۱۱؍ٹیسٹ میچ کھیلے جس میں انہوں نے ۶۱۲؍ رن بنائے۔ ان رنوں میں ۲؍سنچریاں بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے ۱۳۵؍فرسٹ کلاس میچوں میں بھی حصہ لیاجس میں انہوں نے ۱۰؍ہزار ۳۷۷؍ رن بنائے جس میں ۲۶؍سنچریاں شامل ہیں۔ اس وقت کے لحاظ سے یہ اعداد و شمار غیر معمولی تھے۔ 
• ان کی یاد میں ہندوستان میں ہر سال ہونے والا ڈومیسٹک ٹی ۲۰؍ٹورنامنٹ، ’سیدمشتاق علی ٹرافی‘ اُن ہی سے منسوب ہے۔ یہ ٹورنامنٹ آج بھی نوجوان کھلاڑیوں کے لیے کرکٹ کی دنیا میں قدم رکھنے کا گیٹ وے سمجھا جاتا ہے۔ 
 مشتاق علی صرف کھلاڑی نہیں تھے وہ اردو زبان کے دلدادہ، موسیقی پسند، اور شائستہ گفتگو کے حامل تھے۔ انہوں نے اپنی خودنوشت’کرکٹ ڈیلائٹ فل‘ کے نام سے شائع کی، جو آج بھی کرکٹ کے شیدائیوں میں مقبول ہے۔ 
 سید مشتاق علی نے ۱۸؍جون ۲۰۰۵ء کو ۹۱؍ برس کی عمر میں انتقال کیا۔ ان کا انتقال گویا ایک عہد کا اختتام تھا۔ ان کی وفات کے بعد ہندوستانی کرکٹ بورڈ نے ان کے اعزاز میں سالانہ ٹورنامنٹ شروع کیا جو ہر نوجوان بلے باز کے لیے پہلا خواب بن چکا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK