کھیل میں کچھ لمحات ایسے آتے ہیں جو مقابلے سے کہیں آگے نکل جاتے ہیں، ایسے لمحات فخر، میراث اور جیت سے بڑھ کر کچھ تخلیق کرتے ہیں۔ اتوار کو ڈاکٹر ڈی وائی پاٹل اسپورٹس اکیڈمی،نوی ممبئی میں ایسا ہی ایک لمحہ فلڈ لائٹ میں دیکھنے کوملےگا۔
EPAPER
Updated: November 01, 2025, 6:42 PM IST | Navi Mumbai
کھیل میں کچھ لمحات ایسے آتے ہیں جو مقابلے سے کہیں آگے نکل جاتے ہیں، ایسے لمحات فخر، میراث اور جیت سے بڑھ کر کچھ تخلیق کرتے ہیں۔ اتوار کو ڈاکٹر ڈی وائی پاٹل اسپورٹس اکیڈمی،نوی ممبئی میں ایسا ہی ایک لمحہ فلڈ لائٹ میں دیکھنے کوملےگا۔
کھیل میں کچھ لمحات ایسے آتے ہیں جو مقابلے سے کہیں آگے نکل جاتے ہیں، ایسے لمحات فخر، میراث اور جیت سے بڑھ کر کچھ تخلیق کرتے ہیں۔ اتوار کو ڈاکٹر ڈی وائی پاٹل اسپورٹس اکیڈمی،نوی ممبئی میں ایسا ہی ایک لمحہ فلڈ لائٹ میں دیکھنے کوملےگا۔
ہندوستان اور جنوبی افریقہ کی خواتین ٹیمیں جنہوں نے مستقل مزاجی اور ہمت کے دشوار گزار راستے پر چل کر اس ورلڈ کپ میں تاریخ رقم کی ہے، اب حتمی انعام یعنی آئی سی سی ویمنز ورلڈ کپ۲۰۲۵ء ٹائٹل کے لیے لڑیں گی۔ یہ صرف ایک اور فائنل نہیں ہے۔ یہ لچک، فنکارانہ اور پرسکون عزم کی انتہا ہے جس نے گزشتہ ایک دہائی میں خواتین کرکٹ کی شناخت بدل دی ہے۔ سیمی فائنل میں آسٹریلیا کے خلاف سنسنی خیز فتح کے بعد ہندوستانی خواتین ٹیم نے ایک بار پھر خوابوں کو جگا دیا ہے۔ جب انہوں نے نو گیندیں باقی رہتے ۳۳۹؍ رنز کا ہدف حاصل کیا، تو یہ صرف ایک جیت نہیں تھی، یہ ایک اعلان تھا۔
یہ بھی پڑھئے: ایشیا کپ کے بعد ایک بار پھر ہندوستان اور پاکستان کا دوحہ میں ۱۶؍ نومبر کو آمنے سامنے
جمائمہ روڈریگیز نے پُرسکون اور متاثر کن انداز میں ناٹ آؤٹ ۱۲۷؍ رنز کی اننگز کھیلی، جس کی گونج ہندوستانی کرکٹ کی تاریخ میں ہمیشہ سنائی دے گی۔ دوسری جانب، کپتان ہرمن پریت کور، جو جتنا جارحانہ تھیں، اتنی ہی پُر وقار، انہوں نے ۸۸؍گیندوں پر ۸۹؍رنز بنائے، ایک ایسے لیڈر کی طرح جو جانتا ہے کہ قسمت اُنہیں پکار رہی ہے۔
دونوں کے درمیان ۲۲۱؍ رنز کی شراکت صرف اسکور بورڈ پر اعداد نہیں تھی، بلکہ صبروتحمل، وضاحت اور ہمت کی علامت تھی۔ تب سے ہندوستانی ڈریسنگ روم میں جوش کی لہر دوڑ گئی ہے اور اس جوش میں یہ یقین چھپا ہے کہ اتوار شاید وہ دن ہو جب وہ اپنی سرزمین پر کپ اٹھائیں۔ اسمرتی مندھانا، بائیں ہاتھ کی شاندار بلے باز، جن کا بلہ ناظرین کی تال پر ناچتا محسوس ہوتا ہے، اس ٹورنامنٹ کی سب سے جارح مزاج بلے باز رہی ہیں۔ ۱۰۰؍ سے زائد اسٹرائیک ریٹ سے۳۸۹؍رنز اور سب سے اہم، جب ضرورت ہو تب رنز بنائی ہے۔ اگر وہ ڈی وائی پاٹل پر پھر سے چھا گئیں، تو شاید مقابلہ ہندوستان کے حق میں رہے۔ شیفالی ورما اپنی شاندار بیٹنگ سے ابتدا میں ہی رفتار قائم کرنے کی کوشش کریں گی جبکہ رچا گھوش کے آخری لمحات کے جادوئی اسپیل نے ٹیم کی بولنگ لائن اپ کو ایسا خطرناک بنا دیا ہے جس سے ہر حریف لرزتا ہے۔
وہیں جنوبی افریقہ کا سفر بھی اتنا ہی خاص رہا ہے، ایک ٹیم جو کبھی قریبی میچوں میں ہار جاتی تھی، اب یقین کی دھن پر کھیل رہی ہے۔ کپتان لورا وولوارٹ نے اچھی بلے بازی کی ہے،۴۷۰؍ رنز، ہر شاٹ کسی ایک خاص مقصد کے ساتھ کھیلا گیا۔ ان کی شائستگی اور تحمل نے ایک پوری نسل کو متاثر کیا ہے۔ ان کے ساتھ تزمین برِٹس مسلسل کارکردگی دکھا رہی ہیں، جبکہ ماریزان کیپ، جو کبھی ہار نہیں مانتی، جنوبی افریقہ کے عزم و استقلال کی علامت ہیں۔ سیمی فائنل میں انگلینڈ کے خلاف ان کی پانچ وکٹوں کی کارکردگی محض جادو نہیں تھی، یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ اب یہ ٹیم دباؤ کے آگے نہیں جھکے گی۔
یہ بھی پڑھئے: ہندوستان اور جنوبی افریقہ کی خواتین ٹیم اپنا پہلا ورلڈ کپ خطاب جیتنے کے لئے پرجوش
غور طلب ہے کہ ڈی وائی پاٹل کے میدان میں کافی رن بننے کے امکان ہیں، وہیں میچ کے دوران بارش بھی کھیل میں خلل ڈال سکتی ہے۔ ہندوستان کے پاس گھریلو تماشائی ہوں گے تو جنوبی افریقہ کے پاس تاریخ لکھنے والی مضبوط خاموشی ہوگی۔ ایک ٹیم اپنی شاندار کہانی میں نیا سنہری باب جوڑنے کا خواب دیکھ رہی ہے تو دوسری اپنی تاریخ کا پہلا باب لکھنے کو پرعزم ہے۔ کل کا مقابلہ صرف صلاحیت کا نہیں ہوگا، یہ حوصلے کا ہوگا، یہ دیکھنے کا کہ روشنیوں میں سب سے آخر میں کون پلک جھپکاتا ہے اور جب دنیا دباؤ میں جھک رہی ہو تو کون اپنی تال برقرار رکھتا ہے۔