جنوبی افریقہ۲۷؍ سال بعد عالمی چمپئن بنا۔ ورلڈ ٹیسٹ چمپئن شپ کے فائنل میں پروٹیز ٹیم نے آسٹریلیاکو ۵؍وکٹ سے شکست دے دی۔
EPAPER
Updated: June 15, 2025, 11:50 AM IST | London
جنوبی افریقہ۲۷؍ سال بعد عالمی چمپئن بنا۔ ورلڈ ٹیسٹ چمپئن شپ کے فائنل میں پروٹیز ٹیم نے آسٹریلیاکو ۵؍وکٹ سے شکست دے دی۔
جنوبی افریقہ کی۲۰۲۵ء کی ٹیم نے کرکٹ میں اہم مقام رکھنے والے لارڈس میں سنیچر کو آسٹریلیا کو ۵؍ وکٹ سے شکست دے کر آئی سی سی ورلڈ ٹیسٹ چمپئن شپ کا خطاب اپنے نام کر لیا۔ اس فتح سے نہ صرف۲۷؍ برسوں میں اس کا پہلا سینئر مینز آئی سی سی خطاب یقینی ہوا بلکہ پوری کرکٹ قوم کے کئی دہائیوں کے غم کو بھی مٹا دیا۔ لارڈس کے صاف آسمان کے نیچے، بالآخر پروٹیز ٹیم پر سورج کی روشنی چمکی۔ ایک ایسی قوم کیلئے جس نے۱۹۹۹ء میں ایلن ڈونالڈ کے رن آؤٹ سے لے کر گزشتہ سال ہندوستان کے خلاف ٹی ۲۰؍ ورلڈ کپ کے دل ٹوٹنے تک، بہت سے تکلیف دہ آئی سی سی کے دردناک لمحے دیکھے ہیں ، ا س کے لئے یہ صرف ایک اور فائنل نہیں تھا۔ یہ ایک حساب تھا اور سب سے بڑے اسٹیج پر انہوں نے کمال کردیا۔ پروٹیز ٹیم نے اپنے ماتھے سے چوکرس کا داغ بھی ہٹا دیا ہے۔
خیال رہے کہ آخری بار جنوبی افریقہ نے ۱۹۹۸ء میں آئی سی سی ٹرافی اٹھائی تھی۔ تب سے، توقعات بڑھتی اور گرتی رہیں۔ کسی اور کرکٹ ٹیم کو اتنے قریبی مقابلوں کا جذباتی بوجھ نہیں اٹھانا پڑا ہے۔ لیکن اس بار یہ مختلف تھا۔ اس بار ٹھنڈے مزاج والے ٹیمبا باؤما کی قیادت میں ٹیم نے پلک جھپکانے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے چوتھے دن صبح۶۹؍ رن کے معمولی ہدف کا تعاقب کیا اور واضح طور پر پیغام دیا کہ یہ جنوبی افریقی ٹیم تاریخ کو دُہرانے نہیں بلکہ اسے دوبارہ لکھنے آئی ہے۔ سنیچر کو ۲؍وکٹ پر ۲۱۳؍ رن سے آگے کھیلتے ہوئے دن کا آغاز خوف کے ساتھ ہوا۔ باؤما نے۶۶؍ رن کی شاندار اننگز کھیلی اور ٹرسٹن اسٹبس بھی جلد ہی آؤٹ ہوگئے۔ پھر بھی کوئی گھبراہٹ نہیں تھی۔ تیسرے دن سنچری بنانے والے کریز پر ایڈین مارکرم کھڑے تھے۔ انہوں نے پہلے ہی جنوبی افریقہ کی ٹیسٹ تاریخ کی بہترین اننگز میں سے ایک کھیلی تھی۔ روانی سے۱۳۶؍ رن پرجہاں ایک طرف ان کے ارد گرد وکٹ گر رہے تھے سنیچر کو انہوں نے یقینی بنایا کہ پروٹیز لائن کو عبور کرے، چاہے ٹھیک پہلے ہی آؤٹ ہوگئے ہوں۔ فتح سے۶؍ رن پہلے ان کے آؤٹ ہونے سے لارڈس کے ہجوم کو صرف ایک لمحے کے لیے کھڑے ہونے اور اس شخص کو سلام کرنے کا موقع ملا جس کے بلے نے پوری قوم کی جیت کی اسکرپٹ لکھی تھی۔
جب کائل ویرین نے آخری شاٹ کھیلا اور اس کے بعد ہونے والی گرج سے ایسا محسوس ہوا جیسے پوری قوم ایک ساتھ سانس چھوڑ رہی ہے۔ مارکرم کی اننگز سنگ بنیاد تھی لیکن یہ فتح اجتماعی طاقت پر استوار ہوئی۔ باؤما کا صبر، کگیسو ربادا کا جوش، کیشومہاراج کا کنٹرول، اسٹبس کی موجودگی اور ڈریسنگ روم جس نے ماضی کی ناکامیوں کے بھوت کو نہیں بھلایا۔ مارکرم کے ساتھ۲۰۱۴ء کی انڈر۱۹؍ ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کے ایک اور سابق کھلاڑی ربادا نے ثابت کیا کہ وہ اس بولنگ یونٹ کے روح رواں کیوں ہیں۔ میچ میں ۹؍ وکٹ اور ایک اسپیل کے ساتھ جس نے دباؤ کو آسٹریلیا کے لیے دہشت میں بدل دیا۔
جنوبی افریقہ نے صرف ایک ٹیسٹ نہیں جیتا۔ انہوں نے تاریخ رقم کی۔ انہوں نے ڈبلیو ٹی سی سائیکل کے دوران مسلسل ۸؍ جیت درج کیں جو اس فتح کو یادگار بناتی ہیں۔
خیال رہے کہ میٹ ویبسٹر کے۷۲؍ رن کے باوجود آسٹریلیا ۲۱۲؍ ر ن بنا کر آؤٹ ہو گیا لیکن جنوبی افریقہ کی جوابی اننگز جلد ہی بکھرنے لگی۔ پیٹ کمنس نے ۶؍ وکٹ لے کر بیٹنگ لائن اپ کو تہس نہس کردیاجب کہ پروٹیز صرف ۱۳۸؍ رن ہی بنا سکے تھے، صرف باؤما اور ڈیوڈ بیڈنگھم نے کچھ مزاحمت کی۔ آسٹریلیا نے پہلی اننگز میں ۷۴؍ رن کی برتری کے ساتھ اپنی برتری برقرار رکھی۔ انہوں نے دوسری اننگز میں اچھی شروعات کی لیکن انگیڈی اور ربادا کی بولنگ کی وجہ سے آسٹریلیا نے صرف۷۳؍ رن پر ۷؍ وکٹ گنوا دیئے۔ اسٹا رک نے ۵۸؍رن بناکر اچھی بلے بازی کی۔