Inquilab Logo

عالمی کہانیوں کا ترجمہ: لاٹری ٹکٹ

Updated: March 24, 2023, 3:51 PM IST | Shahebaz khan | Mumbai

انتون چیخوف کی شاہکار مختصر کہانیThe Lottery Ticket کا اُردو ترجمہ

photo;INN
تصویر :آئی این این

ایوان دِ مترچ کا تعلق متوسط طبقہ سے تھا۔ اس کی سالانہ آمدنی بارہ سو تھی۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ ایک چھوٹے مکان میں رہتا تھا اور اپنی کمائی سے مطمئن تھا۔ رات کے کھانے کے بعد ایوان صوفے پر بیٹھ کر اخبار پڑھنے لگا۔
 ’’میں آج اخبار دیکھنا ہی بھول گئی۔‘‘ اس کی بیوی نے کھانے کی میز صاف کرتے ہوئے کہا۔’’دیکھو اور بتاؤ کہ اس میں لاٹری کی فہرست ہے یا نہیں؟‘‘
 ’’ہاں، ہے۔‘‘ ایوان نے کہا۔ ’’لیکن کیا تمہارے ٹکٹ کی میعاد ابھی ختم نہیں ہوئی؟‘‘
 ’’نہیں؛ میں نے منگل ہی کو ٹکٹ لیا ہے۔‘‘ 
 ’’نمبر کیا ہے؟‘‘
 ’’سیریز ۹۴۹۹، نمبر ۲۶۔‘‘ 
 ’’ٹھیک ہے ...دیکھتا ہوں، ۹۴۹۹ اور ۲۶۔‘‘
 ایوان دمترچ کو لاٹری پر بالکل بھروسہ نہیں تھا، اور اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ لاٹری جیتنے والے نمبروں کی فہرست دیکھے گا۔ چونکہ اس وقت اس کے پاس کوئی دوسرا کام نہیں تھا اور وہ اخبار ہی دیکھ رہا تھا تو اس نے سوچا کہ کیوں نہ بیوی کا بتایا ہوا نمبر ہی دیکھ لیا جائے۔ 
 اس نے لاٹری جیتنے والے نمبروں کی فہرست دیکھنا شروع کی، اور یہ کیا ... اوپر سے دوسری سطر ہی میں اسے سیریز ۹۴۹۹؍ نظر آگئی۔ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا اور اس نے نمبر دیکھے بغیر جلدی سے اخبار اپنے گھٹنوں پر رکھ دیا۔ اسے لگ رہا تھا جیسے کسی نے اس پر ٹھنڈے پانی کی بالٹی الٹ دی ہو۔ جیت کی خوشی کا سوچ کر اس کے معدے میں مروڑ اٹھنے لگے۔ 
 ’’ماشا! فہرست میں ۹۴۹۹؍ ہے۔‘‘ اس نے کھوکھلی آواز میں کہا۔
 اس کی بیوی نے حیرت اور خوف کے ملے جلے آثار کے ساتھ اس کی طرف دیکھا، اور اسے دیکھتے ہی سمجھ گئی کہ وہ مذاق نہیں کر رہا ہے۔
 ’’۹۴۹۹؟‘‘ اس نے زرد چہرے کے ساتھ میز صاف کرنے والا کپڑا میز پر رکھتے ہوئے پوچھا۔
 ’’ہاں، ہاں ... یہ نمبر واقعی فہرست میں ہے!‘‘
 ’’اور ٹکٹ کا نمبر؟‘‘
 ’’اوہ ہاں! ٹکٹ کا نمبر بھی ہے، لیکن ٹھہرو ... ٹھہرو! نہیں، میں کہہ رہا ہوں! ویسے ہماری سیریز کا نمبر ہے! لیکن! تم سمجھ رہی ہو ...‘‘اپنی بیوی کو دیکھتے ہوئے، ایوان نے کچھ بے معنی اور بے ترتیب جملے کہے۔ اس کی مسکراہٹ بے جان تھی لیکن چہرہ ایسے بچے کی طرح تھا جیسے اسے اس کی کوئی پسندیدہ چیز مل گئی ہو۔ ایوان کیلئے یہ احساس ہی خوش کردینے والا تھا کہ اس کی سیریز جیتنے والی فہرست میں موجود ہے، اس خوشی میں اس نے نمبر دیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ یہ سچ ہے کہ ممکنہ خوش قسمتی کی امیدوں کے ساتھ اپنے آپ کو اذیت دینا اور پرجوش ہونا بہت سنسنی خیز ہوتا ہے۔
 ’’یہ رہی ہماری سیریز!‘‘ایوان دمترچ نے ایک طویل خاموشی کے بعد گہری سانس لیتے ہوئے کہا۔ ’’تو ایک امکان ہے کہ ہم جیت گئے ہیں۔ یہ صرف ایک امکان ہے، لیکن امید تو ہے!‘‘ 
 ’’اچھا، اب دیکھو!‘‘ بیوی نے بے صبری سے کہا۔
 ’’تھوڑا انتظار کرو۔ ہمارے پاس مایوس ہونے کیلئےکافی وقت ہے۔ چونکہ یہ سیریز اوپر سے دوسری سطر میں ہے ، اس لئے انعام ۷۵؍ ہزار ہے۔ یہ صرف پیسہ نہیں بلکہ طاقت اور سرمایہ ہے! اب ایک منٹ میں مَیں فہرست دیکھوں گا، اور وہاں ۲۶؍ نمبر ہوگا! لیکن اگر ہم واقعی جیت گئے تو؟‘‘
 اس بات پر میاں بیوی ہنسنے لگے اور پھر خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ جیتنے کے چھوٹی سی امید نے انہیں حیران کر دیا تھا؛ وہ کہہ نہیں سکتے تھے کہ کبھی جیتیں گے، کبھی خواب بھی نہیں دیکھ سکتے تھے، ان دونوں کو ۷۵؍ہزار کی کیا ضرورت تھی، وہ کیا خریدیں گے، کہاں جائیں گے۔ انہوں نے صرف ۹۴۹۹؍ اور ۷۵؍ ہزار کے بارے میں سوچا اور اپنے تخیل میں ان کی تصویر کشی کی جبکہ انہوں نے اس بارے میں نہیں سوچا کہ جیتنے کی خوشی کیا ہوگی۔ 
 ایوان دمترچ اخبار ہاتھ میں پکڑے ایک کونے سے دوسرے کونے تک چلتا رہا، اور جب سیریز جیتنے کا نشہ تھوڑا کم ہوا تو خواب دیکھنے لگا۔
 ’’اور اگر ہم جیت گئے،‘‘ اس نے کہا’’یہ ایک نئی زندگی ہوگی، یہ ایک تبدیلی ہوگی! ٹکٹ تمہارا ہے، لیکن اگر یہ میرا ہوتا تو میں سب سے پہلے ۲۵؍ ہزار میں جائیداد خریدتا، ۱۰؍ہزار فوری اخراجات جیسے تزئین کاری، سفر ،قرضوں وغیرہ وغیرہ پر خرچ کرتا، باقی ۴۰؍ ہزار میں بینک میں رکھتا اور اس پر سود حاصل کرتا۔‘‘ 
 ’’ہاں، ایک پراپرٹی لینا اچھا رہے گا،‘‘ اس کی بیوی نے بیٹھتے ہوئے کہا۔’’کہیں تو‘لا یا اوریول صوبوں میں ... فی الحال ہمیں موسم گرما کے وِلا کی ضرورت نہیں ہے، اس کے علاوہ، یہ دائمی آمدنی کا ذریعہ رہے گا۔‘‘ 
 اور ایوان کے تصور میں تصویروں کا ایک ہجوم آگیا، سبھی ایک سے بڑھ کر ایک۔ بہت قیمتی۔ اور ان تمام تصویروں میں اس نے اپنے آپ کو صحتمند، آسودہ حال اور پُرسکون، محسوس کیا۔ اپنے تصور میں اس نے تولایا کے موسم گرما کا ٹھنڈا سوپ پینے کے بعد، اس نے ندی کے کنارے واقع اپنے باغ کے لیموں کے ایک درخت کے نیچےاپنی پیٹھ جلتی ریت سے ٹکادی۔ 
 ریت گرم ہے ... اس کا چھوٹا بیٹا اور بیٹی اس کے قریب ہی کھیل رہے ہیں۔ ریت میں کھدائی کر رہے ہیں اور گھاس میں ٹڈوں کو پکڑ رہے ہیں۔ وہ میٹھی نیند میں سویا ہوا ہے، اسے کسی چیز کی فکر نہیں ہے۔ اسے آج، کل یا پرسوں دفتر نہیں جانا ہے۔ پھر، وہ کھیتوں میں جاتا ہے، جنگلوں میں پھرتا ہے اور ماہی گیروں کو مچھلیاں پکڑتے دیکھتا ہے۔ جب سورج غروب ہوتا ہے تو وہ ایک تولیہ اور صابن لے کر غسل خانے میں جاتا ہے، جہاں وہ آرام سے نہاتا ہے۔ نہانے کے بعد جب وہ ندی میں اترتا ہے تو چھوٹی مچھلیاں بے تابی سے اس کے ارد گرد تیرنے لگتی ہیں۔ نہانے کے بعد اس کے سامنے ملائی رول کے ساتھ چائے سجی ہے۔ پھر اس نے دیکھا کہ وہ شام کو پڑوسیوں کے ساتھ چہل قدمی کررہا ہے۔
 ’’ہاں، جائیداد خریدنا اچھا ہو گا!‘‘ اس کی بیوی نے خواب کے عالم میں ایک مرتبہ پھر اپنی بات دہرائی۔اس کے چہرے سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ بھی مستقبل کے جادو میں کھوئی ہوئی ہے۔ 
 ایوان دمترچ نے اپنے آپ کو موسم خزاں کی بارشوں، اس کی سرد شاموں اور سینٹ مارٹن (ایک شہر) کے موسم گرما میں محسوس کیا۔ اس موسم میں اسے باغ اور دریا کے کنارے زیادہ دیر چہل قدمی کرنی پڑے گی تاکہ وہ اچھی طرح ٹھنڈا ہو جائے، اور پھر وہ ٹھنڈے مشروب کا ایک بڑا گلاس پی کر نمکین مشروم یا میٹھی ٹھنڈی ککڑی کھائے گا، اور پھر ٹھنڈے مشروب کا ایک اور گلاس پئے گا۔ کچھ دیر بعد اس کے بچے کچن گارڈن سے دوڑتے ہوئے گاجر اور مولی لائیں گے جن سے تازہ مٹی کی خوشبو آئے گی۔ اور پھر، وہ صوفے پر لمبا لمبا لیٹ کر کسی مصوری کی میگزین کی ورق گردانی کرے گا یا اس سے اپنا چہرہ ڈھانپ کر واسکٹ کا بٹن کھولے گا، اور پھر نیند کی آغوش میں چلا جائے گا۔
 سینٹ مارٹن کے موسم گرما کے بعد ابر آلود، اداس موسم ہوتا ہے۔ دن رات بارش ہوتی ہے، درخت بغیر پتوں کے کھڑے روتے رہتے ہیں، ہوا نم اور ٹھنڈی ہوتی ہے۔ کتے، گھوڑے، پرندے، سب بھیگے ہوئے، افسردہ اور مایوس ہیں۔ اس موسم میں باہر چہل قدمی کیلئے نہیں جایا جاسکتا، کئی کئی دن گھر ہی میں گزارنے پڑتے ہیں۔ بس کھڑکی سے دیکھتے ہوئے گھر ہی میں یہاں سے وہاں چکرانا پڑتا ہے۔ یہ خوفناک ہے!
 ایوان دمترچ چلتے چلتے رک گیا، پھر اس نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا۔
 ’’مجھے بیرون ملک جانا چاہئے، تم کیا کہتی ہو ماشا!‘‘ اس نے کہا۔ اور وہ سوچنے لگا کہ خزاں کے آخر میں جنوب میں کہیں بیرون ملک جانا کتنا اچھا ہوگا، جیسے فرانس، اٹلی، ہندوستان! 
 اس کی بیوی نے کہا، ’’مجھے بھی یقیناً بیرون ملک جانا چاہئے۔ لیکن ٹکٹ کا نمبر تو دیکھو!‘‘
 ’’رکو، رکو! ...‘‘ وہ کمرے کا چکر لگاتا سوچتا چلا گیا۔ 
 پھر اس نے سوچا: اگر اس کی بیوی واقعی بیرون ملک چلی جائے تو کیا ہوگا؟ کیا ایک عورت کا اکیلے سفر کرنا خوشگوار ہے؟ وہ بھی موجودہ حالات میں؟ موجودہ دور کی لاپروا خواتین تمام سفر میں اپنے بچوں کے علاوہ اور کچھ نہیں سوچتیں، بس بات کرتی رہتی ہیں، آہیں بھرتی رہتی ہیں اور ہر وقت مایوسی کا شکار ہوتی ہیں۔
 ایوان نے نے ٹرین میں اپنی بیوی کو پارسلوں، ٹوکریوں اور بیگوں کے ہجوم کے ساتھ تصور کیا۔ وہ کسی چیز پر آہ بھری، شکایت کر رہی ہو گی کہ ٹرین کی آواز کے سبب اس کے سر میں درد شروع ہوگیا ، اور یہ کہ اس نے اتنے پیسے خرچ کر دیئے۔ اسٹیشنوں پر وہ گرم پانی، روٹی اور مکھن کیلئے مسلسل دوڑتی رہے گی۔ وہ رات کا کھانا زیادہ ہونے کی وجہ سے نہیں کھائے گی ...
 اس نے اپنی بیوی کی طرف ایک نظر ڈالتے ہوئے سوچا،’’یہ ہر وقت مجھ سے بدتمیزی کرے گی۔‘‘
 ’’لاٹری ٹکٹ اس کا ہے، میرا نہیں! اس کے علاوہ اس کے بیرون ملک جانے کا کیا فائدہ؟ وہ وہاں کیا چاہتی ہے؟ وہ خود کو ہوٹل میں بند کر لے گی، اور مجھے اپنی نظروں سے دور نہیں ہونے دے گی !‘‘
 اور ایوان کی زندگی میں پہلی بار اس کے ذہن نے اس پر یہ حقیقت آشکار کی کہ اس کی بیوی بوڑھی اور سادہ ہو گئی ہے۔ کھانے کی خوشبو ہی سے وہ سیر ہوجاتی ہے جبکہ ایوان ابھی جوان، تروتازہ، صحت مند اور طاقتور ہے، اور ہوسکتا ہے کہ وہ دوسری شادی بھی کرلے۔ 
 ’’یہ سب احمقانہ بکواس ہے۔‘‘ اس نے اپنا سر جھٹکتے ہوئے سوچا۔ لیکن ... اس کی بیوی بیرون ملک کیوں جائے؟ وہ اس سے کیا فائدہ اٹھائے گی؟ اور پھر بھی وہ ضرور جائے گی ...مجھے معلوم ہے ...حقیقت میں اس کیلئے تمام جگہیں ایک ہی ہے، پھر وہ نیپلز ہو یا کلین۔ وہ صرف میرے راستے میں آئے گی۔ مجھے اس پر منحصر ہونا پڑے گا۔ میں سوچ سکتا ہوں کہ پیسے ملتے ہی وہ اسے ایک عام عورت کی طرح تجوری میں بند کر دے گی۔وہ اپنے رشتہ داروں کی آؤ بھگت کرے گی اور مجھ سے ہمیشہ ناراض رہے گی۔ 

ایوان دمترچ نے اس کے رشتہ داروں کے بارے میں سوچا۔ لاٹری ٹکٹ کی جیت کا سنتے ہی بیوی کے تمام بدبخت بھائی بہن اور چچی اور چچا رینگتے ہوئے آگئے، اور بھکاریوں کی طرح رونا شروع کردیا، ان کے چہروں پر منافقانہ مسکراہٹیں ہیں۔ ایوان نے سوچا: بد بخت لوگ! اگر انہیں کچھ دیا جائے تو وہ مزید مانگیں گے۔ اور اگر انکار کیا جائے تو وہ قسمیں کھا کھا کران پر بہتان لگائیں گے اور پھر بدحالی کی بددعائیں دیں گے۔ 
 ایوان دمترچ کو اپنے بھی رشتہ دار یاد آ گئے اور ان کے چہرے بھی اس کی نظروں کے سامنے گھوم گئے۔ ماضی میں جن کی جانب وہ غیر جانبدارانہ انداز میں دیکھتا تھا، اب اسے وہ تمام نفرت انگیز لگنے لگے۔’’ یہ کیسے کیڑے مکوڑے ہیں!‘‘ اس نے سوچا۔ اور اسے اپنی بیوی کا چہرہ بھی قابل نفرت لگنے لگا۔اس کے دل میں بیوی کے خلاف غصہ بڑھ گیا، اور اس نے نفرت سے سوچا:وہ پیسے کے بارے میں کچھ نہیں جانتی، اسی لئے کنجوس ہے۔ اگر وہ جیت گئی تو وہ مجھے ۱۰۰؍ روبل (روسی کرنسی) دے گی، اور باقی کو تجوری میں چھپا دے گی۔
 پھر اس نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا لیکن مسکراتے ہوئے نہیں بلکہ غصے اور نفرت سے۔بیوی نے بھی ایوان کی طرف دیکھا لیکن انتہائی نفرت اور غصے سے۔ 
 بیوی کے بھی اپنے خواب تھے، اپنے منصوبے تھے۔ وہ اچھی طرح سمجھتی تھی کہ اس کے شوہر کے خواب کیا ہیں۔ وہ یہ بھی جانتی تھی کہ اس کی لاٹری پر قبضہ کرنے کی کوشش کرنے والا پہلا شخص کون ہوگا۔
 ’’دوسرے لوگوں کی دولت پر خواب دیکھنا بہت اچھا ہے!‘‘ اس کی آنکھوں نے اس بات کا اظہار کیا۔ایوان جیسے اپنی بیوی کی آنکھیں پڑھ رہا تھا۔ بیوی کی آنکھوں میں پیغام واضح تھا کہ ’’ایوان، ایسا سوچنا بھی نہیں۔‘‘ ایوان اس کے تاثرات سمجھ گیا۔ نفرت کی آگ اس کے سینے میں بھڑکنے لگی، اور پھر اپنی بیوی کو تنگ کرنے کیلئے اس نے اخبار کے چوتھے صفحے پر نظر دوڑائی اور فاتحانہ انداز میں پڑھا:
 ’’سیریز ۹۴۹۹، نمبر ۴۶، ۲۶؍ نہیں!‘‘ 
 نفرت اور امید دونوں ہی ایک دم غائب ہو گئے، اور ایوان دمترچ اور اس کی بیوی کو فوراً یہ احساس ہوا کہ ان کے کمرے میں اندھیرا مزید بڑھ گیا ہے اور وہ انہیں چھوٹا محسوس ہونے لگا ہے۔ رات کا جو کھانا انہوں نے کھایا تھا، وہ ان کیلئےاچھا نہیں ثابت ہوا تھا بلکہ ان پر بھاری پڑگیا تھا۔ اور وہ محض سیریز کا نمبر دیکھ کر ہی خواب دیکھنے لگے جبکہ لاٹری کا نمبر ان کا نہیں تھا، لیکن اتنی سی دیر میں انہوں نے ایک دوسرے کے بارے میںکیا کچھ سوچ لیا تھا۔ انہیں سمجھ میں آگیا کہ ان کےپیٹ اور خواہشات کی آگ کبھی سرد نہیں ہوگی۔ انہیں یہ بھی سمجھ میں آگیا کہ ان کی شامیں لمبی اور تھکا دینے والی کیوں ہوگئی ہیں۔‘‘
 ’’شیطنت کیا ہے؟‘‘ ایوان دمترچ نے سوچا۔یہ کہ انسان بدمزاج ہونے لگے۔ جب ایک قدم چلے تو دوسرا قدم بہکنے لگے۔ مَیں نے اس دوران کیا کچھ نہیں سوچا۔ مَیں اور میری زندگی ایک مذاق بن گئی ہے۔ یقیناً مَیں ایک برا انسان ہوں۔ لعنت ہے مجھ پر اورمیری روح پر۔مجھے گھر کے باہر لگے درخت سے لٹک کر خودکشی کرلینی چاہئے

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK