EPAPER
Updated: April 14, 2023, 4:25 PM IST | Shahebaz khan | Mumbai
تمام کیلنڈر طلوع و غروب ِ آفتاب یاچاند کے بڑھنے اور گھٹنے کی بنیاد پر بنے ہیں، اِن میں سے بعض کیلنڈر بہت قدیم ہیں لیکن آج بھی رائج ہیں۔ ہم لوگ ہجری اور عیسوی کیلنڈر استعمال کرتے ہیں
ہجری اور گریگورین کیلنڈر سے آپ واقف ہیں کیونکہ یہ دونوں کیلنڈر دنیا میں بڑے پیمانے پر استعمال ہوتے ہیں۔ دنیا کے تمام مسلمان ہجری کیلنڈر کی مدد سے اپنے تہوار مناتے ہیں جبکہ گریگورین کیلنڈر کا استعمال دنیا کا ہر ملک کرتا ہے۔ جانئے اسلامی دنیا میں رائج ۸؍ کیلنڈر کے بارے میں:
مصری کیلنڈر
معلوم تاریخ کی بنیاد پر اندازہ لگایا گیا ہے کہ مصری کیلنڈر ۳؍ ہزار قبل مسیح میں سورج کی مدد سے بنایا گیا تھا جس میں ۳۶۵؍ دن تھے اور ہر موسم کو ۱۲۰؍ دن دیئے گئے تھے۔ بدلتے وقت کے ساتھ اس میں ضروری تبدیلیاں کی گئیں اور چاند کے گھٹنے اور بڑھنے کے دورانیے کو بھی اس میں شامل کیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چاند کی بنیاد پر جو مصری کیلنڈر بنایا گیا اس میں ۱۲؍ مہینوں کے علاوہ تمام ۳۰؍ دنوں کو بھی نام دیئے گئے۔ مصری کیلنڈر قمری ، شمسی، اور قمری شمسی بھی ہے۔
بَر بَر کیلنڈر
یہ ایک زرعی کیلنڈر ہے جسے بربرقوم نے بنایا تھا۔ اسے بنانے کا مقصد موسم کی مناسبت سے اناج کی کاشتکاری تھی۔ ہجری کیلنڈر موسم کی مناسبت سے نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ متعدد اسلامی ممالک کاشتکاری کیلئے بربر کیلنڈر استعمال کرتے ہیں۔ یہ کیلنڈر ۱۲؍ مہینوں پر مشتمل اور ۳۶۵؍ یا ۳۶۶؍ دنوں کا ہے۔
کُردی کیلنڈر
ہجری اور گریگورین کیلنڈر کے ساتھ کردستان میں کُردی کیلنڈر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔کہتے ہیں کہ نینوا کی جنگ کے آغاز سے یہ کیلنڈر رائج ہے۔ اس کیلنڈر میں ۱۲؍ مہینے ہیں جنہیں کُرد معاشرے کے اہم واقعات سے موسوم کیا گیا ہے۔ ابتدائی ۶؍ ماہ ۳۱؍ دنوں کے اور اس کے بعد کے ۵؍ ماہ ۳۰؍ دنوں کے ہوتے ہیں۔ آخری ماہ ۲۹؍ یا ۳۰؍ دن کا ہوتا ہے۔
ایرانی کیلنڈر
درحقیقت یہ شمسی کیلنڈر ہے۔ ایرانی مسلمانوں نے اسے ’’ شمسی ہجری تقویم‘‘ میں بدل دیا ہےجو ایران اور افغانستان میں استعمال ہوتی ہے۔ اس کیلنڈر میں شمالی نصف کرہ میں بہار کا پہلا دن سال کا پہلا دن ہوتا ہے جو۲۱؍ مارچ ہے۔ اس دن کو ’’نوروز‘‘ کہتے ہیں۔ اس میں ۱۲؍ مہینے ہیں جن میں دنوں کی ترتیب کردی کیلنڈر ہی کی طرح ہے۔
ہجری کیلنڈر
قمری ہجری تقویم کو بعض ممالک میں اسلامی تقویم بھی کہا جاتا ہے۔ ہجری کیلنڈر کو ہجری کا نام اس لئے دیا گیا ہے کہ اس کا پہلا سال نبی کریمؐ کے مکہ سے مدینہ ہجرت کئے جانے والے سال کو قرار دیا گیا ہے۔ اور قمری کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کیلنڈر کے دن اور مہینے چاند کی نقل و حرکت سے وابستہ ہیں۔اس کیلنڈر میں ایک سال ۳۵۴؍ دنوں کا ہوتا ہے۔
جدولی کیلنڈر
ماہرین اسے ہجری کیلنڈر کی ایڈوانس شکل قرار دیتے ہیں۔ اسے انگریزی میں ’’ٹیبیولر کیلنڈر‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس میں برسوں اور مہینوں کی تعداد ہجری کیلنڈر ہی کی طرح ہے لیکن مہینوں کا تعین مشاہدے یا فلکیاتی حسابات کے بجائے ریاضی کے اصولوں سے کیا جاتا ہے۔ یہ کیلنڈر مسلم ماہرین فلکیات نے سورج، چاند اور سیاروں کی نقل و حرکت کو مد نظر رکھتے ہوئے بنایا تھا۔ چند اسلامی ممالک میں یہ کیلنڈر استعمال ہوتا ہے۔ مغربی اور خلیجی ممالک کے ماہرین فلکیات کا خیال ہے کہ یہ کیلنڈر حضرت علیؓ نے بنایا تھا۔
جلالی کیلنڈر
ہزاروں سال سے رائج ایرانی کیلنڈر ہی کو جلالی کیلنڈر کی نئی شکل دی گئی ہے۔ یہ کیلنڈر عمر خیام اور ان کے ساتھیوں نے سلطان جلال الدین ملک شاہ سلجوقی کے کہنے پر بنایا تھا۔ سلطان جلال الدین ملک شاہ اول کے نام پر اس کیلنڈر کو جلالی تقویم کہا گیا۔ اس کا نفاذ ۱۵؍ مارچ ۱۰۷۹ء کو ہوا تھا۔عمر خیام نے رصدگاہ میں تحقیق سے دریافت کیا تھا کہ زمین کا سورج کے گرد چکر ۳۶۵؍ دنوں میں پورا ہوتا ہے۔ عمر خیام کی پیمائش سے جلالی کیلنڈر میں ۵۵۰۰؍ برسوں میں صرف ایک گھنٹے کی غلطی ہوتی ہے جبکہ گریگورین کیلنڈر میں ۳۳۰۰؍ سال میں پورے ایک دن کی غلطی ہونے کی گنجائش ہے۔
فصلی کیلنڈر
فصلی تقویم مغلیہ سلطنت میں مال گزاری کی وصولیابی کیلئےرائج تھی۔ اسے جلال الدین محمد اکبر نے اپنے دور حکومت میں وضع کیا تھا۔ فصلی کیلنڈر کا سال گریگورین کیلنڈرکے لحاظ سے جولائی سے شروع ہو کر جون تک بارہ ماہ کے دورانیے پر مشتمل ہے۔ اگر فصلی تقویم میں ۵۹۰؍ برس بڑھا دیئےجائیں تو وہ عہد حاضر میں رائج گریگورین کیلنڈر کے مساوی ہو جائے گی۔ فصلی تقویم کا سن تشکیل ۹۶۳؍ ہجری خیال کیا جاتا ہے۔ اس کے دن اور مہینوں کی تعداد اسلامی تقویم کے مطابق ہی رکھے گئے ہیں۔ فصلی تقویم کے سال کا آغاز ۷؍ یا ۸؍ جون سے ہوتا ہے۔ یہ کیلنڈر اکبر کی تخت نشینی کے سال سے شروع ہوا تھا۔ لفظ فصلی عربی زبان کے لفظ فصل سے ماخوذ ہے جس کے معنی تقسیم کے ہیں۔ تاہم، ہندوستان میں یہ لفظ موسم کے مترادف کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ کیلنڈر بیک وقت مسلمانوں کی قمری تقویم اور ہندوؤں کی شمسی تقویم کے ساتھ چلتی تھی۔ آندھرا پردیش میں یہ کیلنڈر اب بھی رائج ہے۔