Inquilab Logo

ٹکٹوں کا البم

Updated: May 21, 2022, 11:32 AM IST | Sundar Rama Swami (Moin Ijaz) | Mumbai

ایک وقت تھا کہ راجپا کا البم بہت مشہور تھا۔ راجپا اسی محنت سے ٹکٹ جمع کرتا جس محنت سے شہد کی مکھیاں شہد جمع کرتی ہیں۔ یہی اس کی زندگی تھی۔ لیکن اب اس کے البم کی طرف کوئی دیکھتا بھی نہیں تھا اور اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات یہ تھی کہ وہ لوگ ناگ راجن کے البم کے مقابلے میں اس کے البم کو یہ کہہ کر کمتر ثابت کرتے کہ ناگ راجن کے البم سے اس کا مقابلہ ہی نہیں کیا جاسکتا۔ ایک دن موقع پا کر راجپا، ناگ راجن کے گھر جاتا ہے اور موقع پاکر اس کا البم اپنی پتلون میں چھپا کر لے آتا ہے اور.

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

راجپا نے اچانک اپنی مقبولیت میں کمی محسوس کی۔ گزشتہ تین دنوں سے ہر شخص ناگ راجن کے قریب بھیڑ لگا رہا تھا۔
 راجپا نے انہیں بتانے کی کوشش کی کہ ناگ راجن مغرور ہوگیا ہے لیکن اس کی بات پر کسی نے دھیان نہیں دیا کیونکہ ناگ راجن بڑی فراخدلی سے ٹکٹوں کا وہ البم لوگوں کو دکھا رہا تھا جو اس کے چچا نے سنگاپور سے بھیجا تھا۔ لڑکے ناگ راجن کے قریب اکٹھا ہوجاتے اور البم کو بڑے شوق سے اس وقت تک دیکھتے رہتے جب تک کہ صبح کی کلاس کے لئے اسکول کی گھنٹی بج نہیں جاتی تھی۔ دن کو کھانے کی چھٹی کے وقت بھی وہ لوگ اسے گھیر لیتے اور شام کو اس کے گھر پر دھاوا بول دیتے۔ ناگ راجن کو رتی برابر گھبراہٹ نہ ہوتی اور وہ ہر ایک کو البم دکھاتا۔ بس اس کی ایک ہی شرط تھی کہ ’’کوئی البم کو ہاتھ نہ لگائے۔‘‘ وہ اپنی گود میں رکھ کر اسے کھولتا اور خود ہی اس کے ورق الٹتا جاتا۔ اس طرح ہر شخص جی بھر کر دیکھ لیتا تھا۔ اب راجپا کے البم کا نہ کوئی ذکر کرتا اور نہ اس کی طرف کوئی دھیان دیتا تھا۔ ایک وقت تھا کہ راجپا کا البم بہت مشہور تھا۔ راجپا اسی محنت سے ٹکٹ جمع کرتا جس محنت سے شہد کی مکھیاں شہد جمع کرتی ہیں۔ یہی اس کی زندگی تھی۔ لیکن اب اس کے البم کی طرف کوئی دیکھتا بھی نہیں تھا اور اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات یہ تھی کہ وہ لوگ ناگ راجن کے البم کے مقابلے میں اس کے البم کو یہ کہہ کر کمتر ثابت کرتے کہ ناگ راجن کے البم سے اس کا مقابلہ ہی نہیں کیا جاسکتا۔ راجپا نے ناگ راجن کا البم دیکھا تک نہیں۔ جب دوسرے لڑکے ادھر منڈلا رہے ہوتے تو وہ اپنا منہ دوسری طرف گھما لیتا۔ لیکن کنکھیوں سے اس کی ایک جھلک دیکھنے کی کوشش اس نے ضرور کی تھی۔ البم خوبصورت تو واقعی بہت تھا! یہ تو ہوسکتا ہے کہ اس میں وہ ٹکٹ نہ رہے ہوں جو راجپا کے البم میں تھے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تعداد میں بھی زیادہ نہ ہوں لیکن خوبصورتی میں وہ اپنی مثال آپ تھا۔ کسی بھی مقامی دکان پر اس قسم کا البم نہیں تھا۔ ناگ راجن کے چچا نے اپنے بھتیجے کے البم کے پہلے صفحے پر بڑے حروف میں اس کا نام لکھا تھا ’’اے ایس ناگ راجن‘‘ اس کے بعد تحریر تھا:
 ’’اس البم کو چوری کرنے والے بے حیا، بے شرم.... اس پر تو میرا نام دیکھ رہا ہے؟ یہ میری اور صرف میری ملکیت ہے۔ یہ اس وقت تک میری ملکیت رہے گی جب تک گھاس ہری اور کمل سفید رہے گا۔ جب تک سورج مشرق سے نکلتا اور مغرب میں ڈوبتا رہے گا۔‘‘
 تمام لڑکوں نے اپنے اپنے البم پر ان سطور کو نقل کر لیا۔ اسی طرح لڑکیوں نے اس تحریر کو اپنی کتابوں اور کاپیوں پر نقل کر لیا۔
 راجپا غرایا، ’’تم لوگ اتنے بڑے نقال کیوں بن گئے؟‘‘ لڑکے اس پر بگڑ پڑے اور کرشنن نے فوراً جوابی حملہ کیا، ’’دور ہو جاؤ یہاں سے حاسد کیڑے!‘‘ ’’حاسد! مَیں؟ بھلا مَیں کیوں حسد کرنے لگا؟ میرا البم تو اس سے کہیں بڑا ہے۔ کیوں؟‘‘ ’’تمہارے البم میں اس کے البم جیسے ٹکٹ ہی نہیں ہیں۔‘‘ ’’اس کے پاس وہ ٹکٹ ہی نہیں جو میرے پاس ہیں۔‘‘ ’’ہونہہ! دکھاؤ کوئی ایسا ٹکٹ جو اس کے پاس نہیں ہے!‘‘
 ’’پہلے تم کوئی ایسا ٹکٹ دکھاؤ جو میرے پاس نہیں ہے۔ آؤ ہم دس روپے کی شرط لگائیں۔‘‘ ’’تمہارا البم کوڑے کے ڈھیر پر پھینکنے کے لائق ہے۔‘‘ کرشنن نے طنز کیا۔ اور لڑکے نعرے لگانے لگے، ’’کوڑے کرکٹ کا البم! کوڑے کا البم!‘‘
 راجپا نے محسوس کیا کہ بحث جاری رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ٹکٹوں کا البم سجانے میں اسے کتنا وقت لگا تھا! اس نے ایک ایک کرکے ادھر ادھر سے ٹکٹ جمع کرکے اسے نفاست سے سنوارا تھا اور تب اچانک ڈاکیہ سنگاپور سے یہ البم لایا اور اس طرح ناگ راجن راتوں رات اتنی اہمیت اختیار کر گیا۔ لڑکے ان دونوں البم کا فرق نہیں جانتے تھے۔ اور چاہے جس انداز سے بھی سمجھانے کی انہیں کوشش کی جاتی، اس سے رتی برابر بھی کوئی فرق نہ پتا۔ راجپا اندر ہی اندر بپھرتا رہا۔ اسے اسکول جانے سے نفرت ہوگئی۔ وہ لڑکوں کا سامنا کیسے کرتا؟ عام طور سے وہ سنیچر اور اتوار کو طوفان انداز سے ٹکٹ کی تلاش میں نکل پڑتا لیکن اس ہفتہ کے اختتام پر وہ بمشکل ہی گھر سے باہر نکلا۔ عام طور پر کوئی ایسا ایسا نہ گزرتا جب وہ بار بار اپنے البم کے ورق الٹ الٹ کر نا دیکھتا ہو۔ یہاں تک کہ رات کو بھی البم پر نظر دوڑانے کیلئے چپکے سے بستر سے نکل آتا تھا۔ لیکن دو دن گزر گئے اور اس نے اسے چھوا تک نہیں۔ اس پر نظر پڑتے ہی وہ غصے بپھر اٹھا۔ ناگ راجن کے البم کے مقابلے میں اب اس کا البم چیتھڑوں کی ایک پوٹلی معلوم ہو رہا تھا۔
 شام کو راجپا ناگ راجن کے گھر گیا۔ اس کے لئے اس نے اپنا ذہن تیار کر لیا تھا۔ اب وہ اپنی مزید ذلت نہیں برداشت کرسکتا تھا۔ ناگ راجن کو بہرحال اتفاق سے ایک البم مل گیا تھا لیکن ٹکٹ جمع کرنے کے اسرار و رموز سے وہ کہاں واقف ہے؟ اسے کیا معلوم کہ ماہرین کی نظر میں اس کی کیا حیثیت؟ شاید اسے اس بات کا یقین تھا کہ ٹکٹ جتنا بڑا ہوگا اتنی ہی زیادہ اس کی اہمیت ہوگی یا یہ کہ بڑے اور طاقتور ملک کا ٹکٹ کمزور ملک کے ٹکٹ سے زیادہ اہم ہوگا۔ ناگ راجن تو محض شوق کی خاطر ایسا کر رہا تھا۔ راجپا بڑی آسانی سے اپنے معمولی ٹکٹ دے کر اس سے اچھے ٹکٹ حاصل کرسکتا تھا۔ اس نے اس سے پہلے بہت سے دوسرے لوگوں کو بیوقوف بنایا تھا۔ ٹکٹ جمع کرنے والی دنیا تو بڑی شاطر اور چالباز قسم کی ہوتی ہے اور ناگ راجن نے تو اس میدان میں ابھی نیا نیا قدم رکھا تھا۔ راجپا سیڑھیاں چڑھتا ہوا سیدھا ناگ راجن کے کمرے میں پہنچا۔ کسی نے اسے روکا نہیں کیونکہ وہ اس گھر میں اکثر آیا کرتا تھا۔ وہ ناگ راجن کی میز کے قریب بیٹھ گیا۔ کچھ ہی دیر بعد ناگ راجن کی چھوٹی بہن کماکشی اندر آئی، ’’بھیّا شہر گئے ہیں۔‘‘ اس نے کہا، ’’کیا آپ نے ان کا نیا البم دیکھا ہے؟‘‘
 راجپا بڑبڑایا لیکن اس کی بات کچھ صاف سمجھ میں نہیں آئی، ’’یہ واقعی اصلی خوبصورتی کا نمونہ ہے۔ کیوں؟ مجھے یقین ہے کہ اسکول میں اور کسی کے پاس ایسا البم نہیں ہے۔‘‘
 ’’کس نے کہا؟‘‘
 ’’بھیّا نے۔‘‘
 ’’یہ البم بہت بڑا ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ کیا کوئی بھی چیز ضرورت سے زیادہ بڑی ہونے سے اہم ہو جاتی ہے؟‘‘
 کماکشی نے کوئی جواب نہیں دیا اور کمرے سے باہر چلی گئی۔
 راجپا نے میز پر رکھی ہوئی کتابیں الٹ پلٹ کر دیکھیں۔ اس کا ہاتھ بار بار میز کی دراز میں لگے ہوئے تالے کی طرف جاتا۔ غیر ارادی طور پر تو اس نے قریب قریب اسے جھٹکا دے کر کھینچنے کی کوشش بھی کی۔ لیکن دراز بڑی مضبوطی سے بند کی ہوئی تھی۔ کیوں نہ اسے کھول دیا جائے؟ اس کی کنجی کتاب پر پڑی ہوئی تھی۔ راجپا نے زینے پر کھڑے ہو کر چاروں طرف نظر دوڑائی۔ کوئی دکھائی نہیں دیا۔ اس نے دراز کھول لی۔ ناگ راجن کے ٹکٹوں کا البم اوپر ہی دائیں جانب رکھا ہوا تھا۔ راجپا نے پہلا ورق الٹا اور کتبہ پڑھا۔ اس کے دل پر کچوکے سے لگے۔ اس نے دراز بند کرکے مقفل کر دیا۔ البم کو اس نے پتلوں میں ٹھونس کر قمیص سے چھپا لیا۔ پھر جلدی جلدی زینے طے کرتا ہوا اپنے گھر کی طرف بھاگا۔ شام کو ۸؍ بجے اپو آیا۔ اس نے راجپا کو بتایا کہ ناگ راجن کا البم غائب ہوگیا ہے۔ ناگ راجن اور وہ شام کو شہر گئے تھے اور جب وہ واپس آئے تو پتہ چلا کہ البم غائب ہوچکا ہے۔ راجپا نے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔
 اگلے دن اپو راجپا سے ملنے آیا۔ ’’مجھے بتایا گیا ہے کہ کل تم اس کے گھر گئے تھے۔‘‘ راجپا خاموش رہا۔ ’’کماکشی کہتی ہے کہ ناگ راجن اور میرے شہر جانے کے بعد تمہارے سوال کوئی اس کے گھر نہیں گیا۔ راجپا نے کچھ نہیں کہا۔ ’’ناگ راجن رات بھر روتا رہا ہے۔ اس کے والد پولیس بلوانے والے ہیں۔‘‘ راجپا نے پھر بھی کچھ نہیں کہا۔ راجپا کی قسمت اچھی تھی۔ اپو کا بھائی آکر اسے لے گیا۔ اس کے چلے جانے کے بعد راجپا بڑی دیر تک اپنے بستر پر خاموش بیٹھا رہا۔ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ کیا پولیس آگئی؟ راجپا نے جلدی سے البم اٹھایا اور غسل خانہ چلا گیا اور دروازہ اندر سے بند کر لیا۔ غسل خانے میں نہانے کا پانی گرم کرنے کیلئے ایک بڑا سا تنور تھا۔ راجپا نے البم کو آگ میں پھینک دیا۔ البم جل گیا۔ راجپا کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس کی ماں زور سے آواز لگائی، ’’جلدی آؤ ناگ راجن تم سے ملنے آیا ہے۔‘‘ راجپا ایک بھیگا تولیہ لپیٹ کر باہر آیا۔ کپڑے پہن کر ناگ راجن سے ملنے گیا۔ وہ رو کر اپنا غم بیان کرنے لگا۔ ’’ناگ راجن، یہ رہا میرا البم۔ یہ آج سے تمہارا ہوگیا۔‘‘ ناگ راجن کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا کہ راجپا اسے البم دے رہا ہے لیکن راجپا زور دے رہا تھا کہ وہ اسے لے لے۔ وہ البم لے کر نیچے آگیا۔ راجپا اپنی قمیص کے دامن سے آنسو پونچھتا ہوا اس کے پیچھے پیچھے چلا۔ دروازہ پر دونوں کھڑے ہوگئے، ’’شکریہ!‘‘ ناگ راجن نے کہا۔ ناگ راجن نے ابھی گلی میں قدم رکھا ہی تھا کہ راجپا نے اسے آواز دی۔ ناگ راجن نے مڑ کر دیکھا۔ ’’برائے مہربانی صرف آج کی رات کیلئے البم مجھے دیدو۔ مَیں اسے کل صبح تمہیں واپس کر دوں گا۔‘‘
 ناگ راجن نے اس کی بات مان لی اور چلا گیا۔ راجپا زینے پر چڑھ کر اوپر گیا اور اپنے کمرے کا دروازہ بند کر لیا۔ اس نے البم کو مضبوطی سے پکڑا اور رو رو کر اپنا برا حال کر لیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK