Inquilab Logo

تکنالوجی کی ترقی؛کیا اِس سفر کا اختتام ہےیا اِس کی کوئی حد نہیں؟

Updated: February 13, 2023, 5:02 PM IST | Shahebaz khan | Mumbai

انسان ہر شعبہ حیات میں ترقی کی منازل طے کررہا ہے لیکن گزشتہ چند برسوں میں تکنالوجی کے میدان میں ہونے والی ترقی ناقابل یقین ہے، اس شعبے میںنت نئی پیش رفتیں اسے مزید دلچسپ بنارہی ہیں

Through virtual reality (VR), a person can understand any virus by seeing it closely. This technology helps in developing better vaccine or medicine
ورچوئل ریالٹی (وی آر) کے ذریعے انسان کسی بھی وائرس کو باریکی سے دیکھ کر اسے سمجھ سکتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی مزید بہتر ویکسین یا دوا تیار کرنے میں معاون ہے

دورِ حاضر میں کئے جانے والے متعدد کام اب ٹیکنالوجی سے جڑ گئے ہیں۔ دراصل انسان ٹیکنالوجی کے بغیر آرام سے زندگی بسر کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ پنکھے اور لائٹ سے لے کر اسمارٹ فون اور ہوائی جہاز جیسی ہزاروں چیزیں، اس کی زندگی میں کافی اہم ہوگئی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا کا ہر شعبہ ٹیکنالوجی کی مدد سے ترقی کررہا ہے۔ بالفاظ دیگر ہر شعبہ ’’اَپ گریڈ‘‘ ہورہا ہے۔ اس کے ساتھ انسان بھی اپنے آپ کو اپ گریڈ کررہا ہے تاکہ ان تمام ٹیکنالوجیکل آلات پر قابو پاسکے جو اس نے خود بنائے ہیں۔ ماضی میں ایسی خبریں عام ہوچکی ہیں کہ انسان ایسے روبوٹس بنانے پر کام کررہا ہے جو اس قدر ذہین ہوں گے انسانی دماغ سے مقابلہ کرسکیں گے۔ تاہم، انہیں اب تک ایسا کوئی آلہ بنانے میں کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ ہر ماہ متعدد اسمارٹ فون لانچ ہوتے ہیں، نئی گاڑیاں آتی ہیں، ہر میدان میں ٹیکنالوجی اپ گریڈ ہورہی ہے لیکن بحیثیت انسان کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہمیں جو حاصل کرنا تھا، ہم نے کرلیا، اور اب انسانیت کو مزید ٹیکنالوجی کی ضرورت نہیں ہے؟ ایسا سوچا جاسکتا ہے لیکن اس پر عمل نہیں کیا جاسکتا کیونکہ انسان کی فطرت میں یہ ہے ہی نہیں کہ وہ ایک چیز حاصل کرلینے کے بعد خاموش بیٹھے۔وہ مزید بہتر کی تلاش میں رہتا ہے۔ بہتر حاصل کرنے کا اس کا سفر جاری رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیکنالوجی کے میدان میں اہم پیش رفتیں ہو رہی ہیں۔ نئے آلات اور سوچ نے ہمیں کافی سہولیات مہیا کردی ہیں۔ ایسے میں یہ سوال بھی قائم ہوتا ہے کہ کیا ٹیکنالوجی کا سفر کبھی ختم ہوگا؟ یا اس کی کوئی حد نہیں ہے؟ انسان جوں جوں ترقی کرے گا، ٹیکنالوجی بھی مزید ایڈوانس ہوتی جائے گی۔ کیا مستقبل میں ٹیکنالوجی انسان کیلئے اس قدر خطرناک ہوجائے گی کہ انسان کا دنیا میں رہنا مشکل ہوجائے گا؟ زیر نظر کالموں میں پڑھئے ایسے ہی سوالوں کے جواب
کیا ٹیکنالوجی کا سفر ختم ہوگا؟
 یقینی طور پر نہیں! اس بات کے امکانات ہیں کہ تکنیکی ترقی عارضی طور پر سست روی کا شکار ہو سکتی ہے، لیکن یہ کبھی نہیں رکے گی۔ اس کی واضح مثال ۲۰۰۸ء کی عالمی کساد بازاری کے دوران اور اس کے بعد دائر کردہ پیٹنٹ کی تعداد ہے۔ اس دوران کم و بیش ڈھائی لاکھ اشیاء کا پیٹنٹ حاصل کیا گیا۔ یعنی ۲۰۰۰ء کے بعد سے انسان ٹیکنالوجی کے میدان میں پہلے سے کہیں زیادہ فعال ہوگیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اس میدان میں نئی نئی پیش رفتیں دیکھ رہے ہیں۔
(۱)
 آج کوئی بھی کمپنی نیا پروڈکٹ لانچ کرنے کے بعد اس کا پروڈکشن بند نہیں کرتی بلکہ نئے ورژن اور مزید فیچرز کے ساتھ اسے اپ گریڈ کرکے متعارف کرواتی رہتی ہے۔ مثلاً ایپل کے پہلے آئی فون سے لے کر آئی فون ۱۴؍ تک کا سفر۔ کیا ایپل صرف اسمارٹ فون سے مطمئن تھا؟ نہیں اس نے آئی پیڈ بھی لانچ کیا، اور پھر اس کے بھی کئی ورژن بنائے۔ تقریباً ہر کمپنی کا یہی حال ہے۔ وہ کسی ایک پروڈکٹ پر اکتفا نہیں کرتیں بلکہ صارفین کی نبض ٹٹولتے ہوئے اس میں تبدیلیاں کرتی رہتی ہیں۔ لہٰذا ٹیک کمپنیوں کو اپنے آپ کو زندہ رکھنے کیلئے نئی ٹیکنالوجیز کو مسلسل متعارف کروانے کی ضرورت ہے، ورنہ یہ ختم ہوجائیں گی۔
(۲)
 ایسے سرمایہ کار جو ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کرتے ہیں، ٹیکنالوجی کے میدان کو مزید وسعت دیتے ہیں۔ ڈرونز جو پہلے صرف فوجی استعمال کیلئے بنائے جاتے تھے، اب عوام بھی اس سے استفادہ کررہے ہیں۔ ان سرمایہ کاروں ہی کی وجہ سے کئی ٹیک اسٹارٹ اپ نے جنم لیا ہے جوٹیکنالوجی کے میدان میں کافی فعال ہیں۔ نہ سرمایہ کار اس شعبے میں سرمایہ کاری کرنے سے رکیں گے اور نہ ہی ٹیکنالوجی کا سفر ختم ہوگا۔
(۳)
 آج دنیا میں ایسی ہزاروں کمپنیاں ہیں جو کوئی پروڈکٹ تو نہیں بنارہی ہیں لیکن ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ (آر اینڈ ڈی) کا کام بڑے پیمانے پر کررہی ہیں۔ ان کا مقصد ہی تحقیقات کرنا ہے تاکہ وہ انہیں ٹیک کمپنیوں کو فروخت کرسکے اور کمپنیاں صارفین کی مانگ کے مطابق تکنیکی مصنوعات بنائیں نیز اگر ضرورت ہو تو پہلے سے موجود مصنوعات کو اپ گریڈ کرسکیں۔مثلاً کار بنانے والی ایک کمپنی نے۱۹۸۰ء میں ایک کار لانچ کی۔ اس کے بعد اس نے کار کا پروڈکشن بند نہیں کیا بلکہ آر اینڈ ڈی کمپنی کی مدد لی تاکہ گاہکوں کی نفسیات کو سمجھ کر آئندہ سال بہتر کار بازار میں لانچ کرسکے یا پرانی ہی کار میں چند نئے فیچر ڈالے اور اس کا نیا ماڈل متعارف کروائے۔
روبوٹس، کمپیوٹر الگورتھم، مصنوعی ذہانت
 موجودہ دور میں ان تینوں میدانوں میں نئی نئی پیش رفتیں ہورہی ہیں۔ روبوٹس کو مصنوعی ذہانت سے لیس کیا جارہا ہے۔ صوفیہ اسی کی ایک مثال ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت کو مزید نکھار کر اگر اسے دور جدید کے روبوٹس میں لگا دیا جائے تو یہ روبوٹس بالکل انسانوں کی طرح کام کرنے کے قابل ہوں گے۔ 
 خیال رہے کہ دنیا میں ایسے کئی مقامات ہیں (یا قدرتی آفات میں) جہاں انسانوں کا پہنچنا مشکل ہوتا ہے۔ تاہم، روبوٹس ان مقامات پر پہنچ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر زلزلے سے تباہ ہوجانے والی عمارتوں کے ملبے میں پھنسے انسان۔ انسان کو ملبہ ہٹاکر وہاں تک پہنچنے میں تاخیر ہوسکتی ہے لیکن طاقتور روبوٹس نہ صرف ملبہ تیزی سے ہٹا سکتے ہیں بلکہ اس میں دبے انسانوں کو فوری طور پر طبی امداد بھی پہنچاسکتے ہیں۔ 
 کمپیوٹر الگورتھم کا استعمال شیئر مارکیٹ میں ہوتا ہے جس میں سرمایہ کار شیئر کی چڑھتی اترتی قیمتوں کے پیش نظر فیصلہ کرتا ہے۔ اس کے بعد کمپیوٹر کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ کون سا شیئر چڑھنے پر مخصوص انسان نے کون سا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے بعد وہ اسے مشورے دینے لگتا ہے۔ اس کی آسان مثال آپ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بھی ہیں۔ آپ ان پر کس قسم کی تصویریں اور ویڈیوز دیکھتے ہیں، ان کے پیش نظر یہ پلیٹ فارمز آپ کو اسی قسم کا مواد فراہم کرنے لگتے ہیں۔
 ٹیکنالوجی کی ترقی انسانوں کیلئے فائدہ مند بھی ہے اور نقصاندہ بھی لیکن انسان کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اس کی بنائی ہوئی چیزوں سے اسے کتنا فائدہ حاصل کرنا ہے اور کون سی چیزوں سے بچنا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK