Inquilab Logo Happiest Places to Work

کالج کی زندگی ہو یا عملی زندگی، اِن سیڑھیوں پر قدم رکھنا اسکول ہی سکھاتا ہے

Updated: July 07, 2023, 5:13 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

اگر غور کریں تو احساس ہوگا کہ بچپن سے لے کر نوجوانی تک کا انسان کا سفر اسکول ہی میں طے ہوتا ہے، اسی مدت میں وہ ذہنی ، جسمانی اور نفسیاتی طور پر نشو ونما پاتا ہے،اسی عرصے میں اس کی تربیت ہوتی ہے

Borrowing books from the school library and reading them sitting there in complete silence, this precious memory will probably remain forever in every student`s mind.
اسکول کی لائبریری سے کتابیں لینا اور مکمل خاموشی میں اسے وہیں بیٹھ کر پڑھنا،یہ قیمتی یاد غالباً ہر طالب علم کے ذہن میں ہمیشہ رہے گی۔

ہر انسان جونیئر کے جی سے لے کر دسویں تک اسکول میں ۱۲؍ سال گزارتا ہے۔ بیشتر طلبہ ایسے ہیں جو ایک ہی اسکول میں اپنی زندگی کے اہم سال گزارتے ہیں جبکہ چند ایسے ہوتے ہیں جو بحالت مجبوری اسکول بدلتے ہیں۔ اسکول میں گزارے گئے سال اہم اس لئے ہوتے ہیں کہ اسی مدت میں طالب علم ذہنی اور جسمانی طور پر نشو ونما پاتا ہے۔ یہی وہ مدت ہے جس میں طالب علم کو صحیح غلط اور اچھے برے میں فرق کرنا آتا ہے لیکن اسکول میں گزارے گئے یہ ۱۲؍ سال صرف چند افراد ہی کی زندگی کا اہم حصہ بن پاتے ہیں اور وہ ان سے جذباتی طور پر جڑے ہوتے ہیں۔ اسکولی تعلیم مکمل کرلینے کے بعد بیشتر طلبہ اپنے اسکول کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھتے۔ اس کے گیٹ کے سامنے سے گزر جاتے ہیں لیکن اندر جاکر اپنے اساتذہ، مددگار عملہ اور پرنسپل سے ملاقات نہیں کرتے۔ وہی اسکول جو ہر انسان کی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے، صرف ایک عمارت بن کر رہ جاتا ہے۔
 کالج میں آنے یا عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد اسکول کا احاطہ ہو یا اس سے جڑی اشیاء جیسے کاپی، کتابیں، کمپاس بکس، جیومیٹری بکس، کلر کے ڈبے، برش اور پیلٹ، لنچ باکس، پانی کی بوتل، یونیفارم، جوتے، جرابیں، اسمبلی ٹائم، ریسس، رنگ برنگے رین کوٹ اور چھتریاں، اسکول بس/وین/رکشا، سبھی سے جذباتی وابستگی ختم ہوجاتی ہے۔ انسان کو اسکول کی یاد شاذ ونادر ہی آتی ہے۔ وہ اسکول جاکر وہاں کے درو دیوار کو محسوس کرنے یا تدریسی اور غیر تدریسی عملے سے ملنے کی کوشش نہیں کرتا۔ یہ صحیح طریقہ نہیں ہے۔ ہر طالب علم کو چاہئے کہ وہ تا عمر اپنے اسکول سے جڑا رہے۔
 ایک بچے کی نشوونما میں اسکول کا کردار کتنا اہم ہے؟ یہ سوال ہر انسان خود سے پوچھے۔ یہاں سکھائی جانے والی باتیں اسے زندگی بھر یاد رہتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ والدین بچوں کے پہلے استاد ہوتے ہیں لیکن اساتذہ ان کے دوسرے والدین ہوتے ہیں۔ ایک بچہ اسکول میں اساتذہ کے ساتھ اتنا ہی وقت گزارتا ہے جتنا وہ اپنے گھر میں والدین کے ساتھ۔ اسکول بچے کو منظم تعلیم فراہم کرتا ہے اور اس کی ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی نشوونما کو فروغ دیتا ہے۔ یہاں انسان سیکھتا ہے کہ ٹیم ورک کیا ہے، اچھے اخلاق کیا ہوتے ہیں، اتحاد کی طاقت کیا ہے، اشتراک کسے کہتے ہیں اور ذمہ داریاں کیسے نبھائی جاتی ہیں۔ جیسی تربیت وہ اسکول میں حاصل کرتا ہے، وہ اس کے کردار میں نکھار پیدا کرتی ہے جو عمر بھر اس کے ساتھ رہتی ہے۔ اسکول کے احاطے میں انسان اپنی فطری صلاحیتوں کو دریافت کرتا ہے اور انہیں فروغ دینے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ تمام تجربات اس کی خود اعتمادی میں اضافہ کرتے ہیں جو عملی زندگی میں اسے ایک کامیاب انسان بننے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ جانئے ایک انسان کی زندگی میں اسکول کی کیا اہمیت ہونی چاہئے:
نالج اِز پاوَر
 اوریہ پاور یعنی طاقت انسان کو سب سے پہلے اسکول میں ملنا شروع ہوتی ہے۔ یہاں انسان کی ذہنی پرورش ہوتی ہے۔ علم کیا ہے؟ اس کے متعلق اسکول کی چار دیواری میں آگاہی ہوتی ہے۔ انسان مختلف علوم سیکھتا ہے تاکہ آئندہ زندگی میں یہ اس کے کام آئیں۔ علم حاصل کرکے ایک انسان دوسرے انسان کی بہتر طریقے سے مدد کرنے کے قابل بنتا ہے۔ 
کالج کی سیڑھی
 اسکول، کالج میں جانے کی سیڑھی ہے۔ اسکولی تعلیم کے بغیر انسان کالج میں نہیں جاسکتا۔ کامیاب زندگی گزارنے اور اپنے خوابوں کو پانے کیلئے کالج انتہائی اہم ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے بعد انسان اچھی ملازمت حاصل کرسکتا ہے اور بہتر زندگی گزار سکتا ہے۔ایک طالب علم کیلئے اسکول میں گزرا ہر لمحہ اہم اور کارآمد ہونا چاہئے جس میں وہ ہر وقت کچھ سیکھتا رہے۔
معاشرے میں رہنے کا ہنر
 تعلیم کے بغیر انسان معاشرے میں صحیح طریقے سے رہنے کا ہنر نہیں سیکھ سکتا۔ اسکول میں اسے سماج کے مختلف طبقات کے طلبہ سے ملنے جلنے کا موقع ملتا ہے۔ کم عمر ی میں انسان سمجھتا ہے کہ دیگر افراد کس طرح زندگی گزارتے ہیں۔ وہ ان کے ساتھ وقت گزارتا ہے، ان میں سے چند کو دوست بناتا ہے اور یہ دوستی عام طور پر تاعمر قائم رہتی ہے۔ اگر انسان اسکول نہ جائے تو شاید وہ اپنی عمر اور سماج کے دیگر طبقات کے لوگوں سے نہیں مل سکے گا۔ اس طرح اس کا سماجی دائرہ محدود ہوجائے گا۔ 
اسکول کے بغیر زندگی
 کیا انسان ایسی زندگی کے بارے میں سوچ سکتا ہے جس میں ابتدائی عمر میں کرنے کیلئے کچھ نہ ہو؟ اسکول نہ جانا ہو؟ سارا دن گھر میں رہ کر وہ کیا کرے گا؟ کیا ایسے انسان کی ذہنی،جسمانی اور نفسیاتی نشوونما درست طریقے سے ہوسکے گی؟ ابتدائی عمر میں جب تک انسان اپنے آپ کو مختلف اور درست کاموں میں مشغول نہیں رکھے گا وہ کامیاب زندگی نہیں گزار سکے گا۔اسے بات چیت کا سلیقہ آئے گا نہ وہ آسان حساب کتاب کرسکے گا۔ اس کی زندگی بوجھل ہوجائے گی اور وہ اکتاہٹ کا شکار ہوجائے گا۔ اسکول نہ جانے والا بچہ اسکول جانے والے بچوں سے بالکل مختلف نظر آئے گا۔ اس کا بات چیت کا طریقہ مختلف ہوگا، مختلف معاملات پر اس کے نظریات الگ ہوں گے اور اس کی حرکات و سکنات پڑھے لکھے اور اسکول جانے والے انسان سے مختلف ہوگی۔ 
مجموعی ترقی
 اسکول اب صرف نصابی کتابوں تک محدود نہیں رہ گیا ہے بلکہ تکنالوجی کی ترقی نے اس میں کئی تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔ انسان کی زندگی میں اسکول کو وہ اہمیت حاصل ہے، جو آج سے پہلے کبھی نہیں تھی۔ اسے بچے کی زندگی کا پہلا اور سب سے اہم قدم مانا جاتا ہے۔ آج اسکول اتنے ہائی ٹیک ہوگئے ہیں اور نصاب میں ایسی تبدیلیاں کی گئی ہیں کہ طلبہ نصابی کتابوں کے علاوہ اپنے مشاغل کو فروغ دے سکتے ہیں، ان میں مہارت حاصل کرسکتے ہیں، بنیادی آداب سیکھ سکتے ہیں، ملٹی ٹاسکنگ میں مہارت حاصل کرسکتے ہیں، سماجی مہارتوں کو فروغ دے سکتے ہیں، اور ایسی ہی بہت سی چیزوں سے ایک اسکول ایک بچے کو لیس کرتا ہے۔
اسکول سے وابستگی
 جی ہاں! اسکول صرف ایک عمارت تک محدود نہیں ہے۔ یہاں کی ہر چیز سے طالب علم کی جذباتی وابستگی ضروری ہے۔ ابھی آپ اسکول میں ہیں، چند برسوں بعد کالج میں چلے جائیں گے اور پھر عملی زندگی میں قدم رکھیں گے لیکن اس سے پہلے اپنے آپ سے عہد کیجئے کہ آپ اپنا اسکول ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ آپ کے پرنسپل، اساتذہ اور غیر تدریسی عملہ آپ کے رابطے میں رہیں گے تاکہ جب آپ کسی اعلیٰ عہدے پر پہنچ جائیں تو انہیں آپ پر فخر ہو، اور آپ اپنے اسکول اور یہاں کے طلبہ کیلئے کچھ بہتر کرسکیں۔

ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام
سابق ہندوستانی صدر، سائنسداں

 مَیں ایک اوسط طالب علم تھا جسے ریاضی اور سائنس سب سے مشکل مضامین معلوم ہوتے تھے۔ اساتذہ سے اکثر کہتا تھا کہ مجھے یہ دونوں مضامین بالکل پسند نہیں ہیں۔ مَیں نے ریاضی اور سائنس سیکھنے کیلئے اسکول کے مختلف کمروں اور چھوٹی سی لائبریر ی میں کافی وقت گزارا ہے۔ اگر اسکول میں ان مشکل مضامین پر توجہ نہیں دیتا تو شاید ایک سائنس داں بننے کی جانب میرا رجحان کبھی نہیں ہوتا۔ اسکول نے مجھے طاقت دی تھی اور میری یادوں میں میرا اسکول میری سب سے بڑی طاقت بن کر ہمیشہ زندہ رہے گا۔

بارک اوبامہ
سابق امریکی صدر

اسکول میں مَیں ایک سنجیدہ طالب علم نہیں تھا۔ میرے گریڈ بھی اچھے نہیں آتے تھے۔ میری والدہ نے اسی اسکول کے احاطے میں مجھے کئی بار سمجھایا کہ اسکول کیا ہے اور تعلیم کیوں ضروری ہے۔ آج بھی احاطے میں بعض والدین اپنے بچوں سے یہی کہتے ہوں گے۔ یہاں مَیں نے اپنی زندگی کا مقصد طے کیا اور کامیاب ہونے کیلئے مسلسل جدوجہد کا آغاز کیا۔ خود کو چیلنج دیئے۔ جب مدد کی ضرورت پڑی دوستوں اور اساتذہ سے مدد مانگی۔ اسکول کی یادیں ہمیشہ میری یادداشت کا حصہ رہیں گی۔

انجلینا جولی
اداکارہ اور امن کی علمبردار

اسکول میں مَیں مشہور طالبہ نہیں تھی۔ ایک عام سی طالبہ تھی جس کے گریڈ بھی اچھے نہیں آتے تھے لیکن جن مضامین میں کمزور تھی انہیں سمجھنے کیلئے اسکول کی چھٹی ہونے پر اسکول کی لائبریری میں گھنٹوں وقت گزارتی تھی۔ کلاس روم کے بعد میری پسندیدہ جگہ لائبریری ہی تھی۔ زندگی میں اسکول اور تعلیم کی اہمیت کا اندازہ اس وقت ہوا جب مَیں نے ہائی اسکول پاس کرلیا۔ لیکن یہاں کا میدان، کینٹین اور لائبریری مجھے ہمیشہ یاد رہے گی کیونکہ یہ وہ جگہیں ہیں جہاں میں نے سب سے زیادہ وقت گزارا ہے۔

رچرڈ برنسن
برطانوی صنعت کار

 اسکولی تعلیم کے دوران معلوم ہوا کہ مجھے ڈَسلکشیا (پڑھنے لکھنے میں مشکل پیش آنا) کا مرض ہے مگر اساتذہ اور دوستوں نے کبھی احساس نہیں ہونے دیا کہ مَیں ان سے مختلف ہوں۔ انہوں نے ہمیشہ میری مدد کی۔ اسکول کی ہر دیوار اور ہر کلاس روم مجھے ہمیشہ یاد رہے گا کیونکہ یہیں پر مَیں نے پڑھنا لکھنا سیکھا۔ اگر میرا اسکول اور وہاں کےلوگ میری مدد نہیں کرتے تو شاید زندگی میں مَیں اتنا کامیاب کبھی نہیں ہوسکتا تھا۔ اسکول کی یادیں تکلیف دہ بھی ہیں مگر اچھی یادیں تمام بری یادوں کو بھلا دیتی ہیں۔

شہزادی ڈائنا
ویلز (برطانیہ) کی شہزادی

اسکول نے مجھے وہ سب سکھایا جو مَیں سیکھنا چاہتی تھی، مثلاً تیراکی،اسکیئنگ، ٹینس اور پیانو بجانا۔ مجھے کتابوں سے زیادہ ایسی سرگرمیوں میں دلچسپی تھی اور مَیں نے اسکول کے دنوں میں ان سرگرمیوں پر زیادہ توجہ دی۔ میرے گریڈ اچھے نہیں تھے۔ اسکول سے نکلنے کے بعد احساس ہوا کہ میرے لئے تعلیم پر زیادہ توجہ دینا ضروری تھا۔ اسکول سے میری تمام اچھی یادیں جڑی ہیں جنہیں یاد کرکے سکون ملتا ہے۔ اساتذہ ہوں یا دوست سبھی میری زندگی کا اہم حصہ ہیں اور ہمیشہ میری یادوں میں رہیں گے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK