EPAPER
Updated: January 12, 2024, 6:07 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai
جانئے حبِ وطن کے جذبے سے سرشار ۲۰؍ نغموں اور ۱۴؍ نظموں کے بارے میں۔ ادب ہو یا فلمی صنعت، ان دونوں ہی شعبوں نے شہریوں میں حب الوطنی کے جذبے کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے، اس کی مثال یوم جمہوریہ اور یوم آزادی پر پڑھی جانے والی نظمیں اور نغمے ہیں۔
حب الوطنی کے گیت انسان میں اس کی قوم اور ملک سے تعلق کا احساس پیدا کرتے ہیں۔ حب الوطنی کے گیت ورثے اور ثقافت کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ ان نغموں کی دھنیں طویل وقت تک دل و دماغ میں گونجتی رہتی ہیں اور انسان حب وطن کے احساس سے سرشار رہتا ہے۔ یہ ملک سے اتحاد اور وابستگی کا احساس پیدا کرتی ہے۔ کوئی بھی قومی تہوار حب الوطنی کے گیتوں کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ حب الوطنی کے گیت ہم وطنوں کو اپنا کام کرنے اور معاشرے کی اجتماعی بھلائی کیلئے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھانے کی ترغیب دیتے ہیں۔
برسوں کے دوران، یہ گانے مجاہدینِ آزادی اور شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کا ایک لازمی حصہ بن گئے ہیں، خاص طور پر ان مجاہدین کیلئے جنہوں نے برطانوی اقتدار کے خاتمے کیلئے قربانیاں دیں۔حب الوطنی ایک ایسا جذبہ ہے جو ہر شہری کے اندر ہوتا ہے۔ یہ آپسی محبت، بھائی چارے اور یگانگت کا احساس پیدا کرتا ہے۔
انگریزی میں حب الوطنی کو Patriotism (پیٹریوٹزم) کہتے ہیں۔ اس سے مراد کسی شخص کی اپنے وطن کیلئے محبت ہے۔ ایک محب شخص اپنے ملک و قوم سے ثقافتی و فکری طور پر جڑا ہوتا ہے اور اپنے ملک و قوم کی بقاء کیلئے ہر قسم کی قربانی دینے کو ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔
ہر ملک میں بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی اس میں ملک سے محبت کا جذبہ پروان چڑھایا جاتا ہے۔ انہیں قومی گیت سنائے جاتے ہیں، وطن کی بنیاد ڈالنے والوں کی بابت بتایا جاتا ہے اور مجاہدینِ آزادی کی قربانیاں یاد دلائی جاتی ہیں۔ پھر بچے کی عمر جیسے جیسے بڑھتی ہے، اس میں ملک کی محبت بھی جڑ پکڑتی ہے۔ وہ حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہوتا ہے اور اپنے ملک کیلئے ہر قربانی پیش کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ اس جذبے کے تحت وہ اپنی پوری زندگی اپنے ملک کی ترقی کیلئے اپنا حصہ پیش کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ یہی وہ جذبہ ہے جو اسے ملک سے جوڑے رکھتا ہے۔ وہ یہاں کے اداروں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے کریئر کا آغاز بھی یہیں سے کرتا ہے۔ خیال رہے کہ حب الوطنی کے جذبے کے تحت کئی فلمیں بھی بنائی جاچکی ہیں۔
ہر دور میں وطن کی محبت سے سرشار نظمیں اور نغمے لکھے گئے ہیں جو عوام میں کافی مقبول ہیں۔ قومی تہواروں، خاص طور پر یوم جمہوریہ (۲۶؍ جنوری) اور یوم آزادی (۱۵؍ اگست) پر، پورے ملک میں حب الوطنی کی نظموں اور نغموں کو پڑھنے/ گانے کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔
واضح رہے کہ باندرہ کرلا کمپلیکس (بی کے سی) ، باندرہ میں منعقدہ ۹؍ روزہ اردو کتاب میلہ میں ۹؍ جنوری ۲۰۲۴ء کو ممبئی و مضافات کے اسکولی طلبہ کے درمیان حب الوطنی کے نغموں کے مقابلے کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں طلبہ کا جوش و خروش قابل دید تھا۔ طلبہ کی زندگی میں حب الوطنی کی نظموں اور نغموں کی خاص اہمیت ہوتی ہے۔ اس لئے اس مضمون میں ان نظموں اور نغموں کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے تاکہ طلبہ ۲۶؍ جنوری کیلئے ابھی سے تیار ہوجائیں۔
شاعروں اور نغمہ نگاروں نے حب الوطنی کی سیکڑوں نظمیں اور نغمے لکھے ہیں جن میں سے چند سے آپ کی واقفیت ہے کیونکہ ۲۶؍ جنوری اور ۱۵؍ اگست کے موقعوں پر ریڈیو اسٹیشن ہو یا موسیقی چینلز، اسکول ہو یا کوئی نجی یا سرکاری ادارہ، ہر طرف حب الوطنی کی نظموں اور نغموں کی گونج سنائی دیتی ہے۔ صفحہ اول سے آگے
ذیل میں جانئے ۲۰؍ نغموں کے نام:
(۱) یہ دیش ہے ویر جوانوں کا
فلم: نیا دور، ۱۹۵۷ء
(۲) قدم قدم بڑھائے جا
فلم: سمادھی، ۱۹۵۰ء
(۳) آئی لو مائی انڈیا
فلم: پردیس، ۱۹۹۷ء
(۴) ستیہ میو جیتے
شو: ستیہ میو جیتے، ۲۰۱۲ء
(۵) میرے دیش کی دھرتی
فلم: اُپکار، ۱۹۶۷ء
(۶) سنو غور سے دنیا والو
فلم ریلیز نہیں ہوسکی، نغمہ ۱۹۹۷ء میں آیا
(۷) جہاں ڈال ڈال پر سونے کی چڑیا
فلم: سکندر اعظم، ۱۹۶۵ء
(۸) چک دے انڈیا
فلم: چک دے انڈیا، ۲۰۰۷ء
(۹) اس دیش کو رکھنا میرے بچوں سنبھال کے
فلم: جاگرتی، ۱۹۵۴ء
(۱۰) اے وطن، اے وطن
فلم: شہید، ۱۹۶۵ء
(۱۱) دیس رنگیلا رنگیلا، دیس میرا رنگیلا
فلم: فنا، ۲۰۰۶ء
(۱۲) ماں تجھے سلام
البم: اے آر رحمٰن ، ۱۹۹۷ء
(۱۳) رنگ دے بسنتی
فلم: رنگ دے بسنتی، ۲۰۰۶ء
(۱۴) اے وطن
فلم: راضی، ۲۰۱۸ء
(۱۵) اے میرے وطن کے لوگو
البم: لتا منگیشکر،۱۹۶۳ء
(۱۶) پھر بھی دل ہے ہندوستانی
فلم: پھر بھی دل ہے ہندوستانی، ۲۰۰۰ء
(۱۷) کرچلے ہم فدا جان و تن
فلم: حقیقت، ۱۹۶۴ء
(۱۸) ایسا دیس ہے میرا
فلم: ویر زارا، ۲۰۰۴ء
(۱۹) میرا ملک میرا دیش
فلم: دل جلے، ۱۹۹۶ء
(۲۰)سندیسے آتے ہیں
فلم: بارڈر، ۱۹۹۷ء
نغموں کے متعلق دلچسپ حقائق
l جب تحریکِ آزادیٔ ہند اپنے عروج پر تھی نظموں اور فلموں کے ذریعے لوگوں میں حب الوطنی کے جذبے کو فروغ دینے کی کوشش کی جاتی تھی۔ اس دوران پردیپ (شاعر) کی نظم ’’ایک نیا سنسار بسالیں‘‘ کو ۱۹۴۱ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’’ایک نیا سنسار‘‘ میں شامل کیا گیا تھا۔ اس دوران برطانوی حکومت فنون لطیفہ کے ذریعے بھی تحریک آزادی کو کچلنے کی پوری کوشش کرتی تھی۔
۱۹۴۴lء میں ریلیز ہوئی فلم ’’پہلے آپ‘‘ کیلئے نغمہ نگار ڈی این مدہوک نے ’’ہندوستان کے ہم، ہے ہندوستان ہمارا‘‘ محمد رفیع کی آواز میں ریکارڈ کروایا تھا۔ اس نغمے کی دھنیں نوشاد نے ترتیب دی تھی۔ اس کے ذریعے برطانیہ کو کہا گیا تھا کہ ہندوستان پر صرف ہندوستانیوں کا حق ہے اور وہ یہاں سے چلے جائیں۔