Inquilab Logo Happiest Places to Work

دنیا کی مشہور شخصیات کی زندگی کے اہم موڑ (دوسری قسط)

Updated: September 02, 2023, 5:27 PM IST | Taleemi Inquilab Desk | Mumbai

مائیکل جارڈن، ہنری فورڈ، تھامس ایڈیسن، دھیرو بھائی امبانی اور اسٹیون اسپلبرگ جیسی نامور ہستیوں کو کامیابی ایک بار میں نہیں مل گئی۔ انہوں نے مسلسل محنت کی، یہی وجہ ہے کہ ان کا شمار دنیا کی کامیاب ترین شخصیات میں ہوتا ہے۔

Photo. INN
تصویر:آئی این این

’’بارہا ناکامی ہی میری کامیابی کا سبب بنی‘‘

مائیکل جارڈن(Michael Jordan) سابق امریکی باسکٹ بال کھلاڑی اور ایک بزنس مین ہیں۔ ہائی اسکول میں مائیکل جارڈن کو ان کے قد کی وجہ سے باسکٹ بال ٹیم سے برخاست کر دیا گیا تھا لیکن اسپورٹس سے ان کی دلچسپی نے انہیں اسپورٹس کے میدان میں نمایاں کامیابی سے ہمکنار کیا ۔ انہوںنے اپنی دلچسپی کو برقرار رکھتےہوئے کافی مشق کی اور آخر کار انہیں باسکٹ بال ٹیم کیلئے منتخب کر لیا گیا ۔ انہوں نے اپنی صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرنے کیلئے مزید مشق کی جس کے سبب انہیں باسکٹ بال کے اہم کھلاڑی کے طور پر شہرت حاصل ہوئی جس نے انہیں این بی اے کی قیادت کرنے اورباسکٹ بال کے لیجنڈ بننے کے قابل بنایا۔
 مائیکل جارڈن نےاپنے کریئر میں تقریباً ۹؍ہزار سے زیادہ شاٹس گنوائے ہیں، تقریباً۳۰۰؍ گیمز ہارے ہیں اور ۲۶؍ بار ان پر اعتماد کیا گیا کہ وہ گیم جیتنے والا شاٹ کھیلیں گے ۔وہ اپنی زندگی میں بار بار ناکام ہوئے اور یہی ناکامی ، ان کی کامیابی اور شہرت کا سبب بنی ۔ جارڈن نے خود میں آگےبڑھتے رہنے، اپنی غلطیوں سے سیکھنے اور مضبوط ہونے کا عزم پیدا کیا۔ جب بھی انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا انہوں نے اپنے جوش و جذبے کو کم نہیں ہونے دیا اور نئے سرے سے محنت کی اور کامیابیوں کے سیڑھیوں پر چڑھتے چلے گئے۔
 تعلیم حاصل کرنے کے دوران مائیکل ہر روز دیگر طلبہ کی بہ نسبت جلدی اسکول پہنچ جاتے تھے  اور صبح جم میں شوٹنگ ہوپس کی مشق کیا کرتے تھے۔ وہ باسکٹ بال کے بہترین کھلاڑی بننا چاہتے تھے جس کیلئے انہیں کافی جدو جہد کرنی پڑی ۔جب باسکٹ بال یونیورسٹی ٹیم کیلئے ایک کھلاڑی کی جگہ خالی ہوئی تو انہوں نے دوبارہ قسمت آزمائی کی اور انہیں ٹیم کے رکن کے طور پر قبول کر لیا گیا۔ اس کے بعد مائیکل جارڈن نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا ۔

’’مسائل میں الجھنا نہیں ہے، حل تلاش کرنا ہے‘‘

ہنری فورڈ(Henry Ford)آٹو موبائل شعبے کے مشہور کاروباری تھے۔ انہوں نے آٹو موبائل انڈسٹری میں انقلاب برپا کر دیا تھا۔ ابتدائی عمر ہی سے ہنری فورڈ کو انجینئرنگ میں دلچسپی تھی۔ انہوں نےانجینئرنگ کے متعلق جاننے کیلئے کئی مینوفیکچرنگ کمپنیوں میں نوکریاں اور اپرنٹس شپ کیں۔ان کے والد چاہتے تھے کہ ان کا بیٹاآبائی پیشہ اختیار کرتے ہوئے کسان بنے مگر ہنری فورڈ کی دلچسپی کسان بننے میں بالکل نہیں تھی ۔  جب وہ بارہ سال کے تھے تو انہوں نے ڈیٹرائٹ کے قریب بیٹل کریک کے نکولس، شیپارڈ اینڈ کمپنی کا بنایا ہواروڈ انجن دیکھا جسے دیکھ کر وہ دنگ رہ گئےکیونکہ انہوں نے زندگی میں پہلی بار ایک گاڑی کو گھوڑے کے بغیر چلتے ہوئے دیکھا تھا۔ جب ہنری فورڈ نوجوانی میں داخل ہوئے تو بھاپ کا انجن کسانوں کی زندگیوں میں انقلاب بن کر داخل ہونے لگا تھا۔ کسانوں نے اپنے کھیتی کے کام میں ان مشینوں کا استعمال شروع کر دیا تھا۔ چونکہ ہنری فورڈ مشینوں کے بارے میں بہت پرجوش تھے، اس لئےانہوں نے ان کے کام کرنے کا طریقہ سیکھا اور یہ بھی سیکھا کہ ان کی مرمت کیسے کی جائے۔  اپنی کمپنی کے قیام سے پہلے انہوں نے ایک تاجر سے فنڈ لیا تھا جس نے ان کی کمپنی تحلیل کر دی تھی۔ بعد ازیں انہوں نے نئے عزم کے ساتھ نیا مقصد طے کیا ۔ وہ دوبارہ اسی کاروباری کے پاس گئے اور اس سے ایک اور موقع دینے کی گزارش کی لیکن دوبارہ انہیںناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے ہار نہیں مانی اور ۱۹۰۸ء میں ماڈل’ٹی‘ متعارف کروایا۔ یہ ماڈل جدید، سستا اور چلانے میں آسان تھا۔ ماڈل ٹی بڑی کامیابی تھی اور جلد ہی دیگر آٹوموبائل کمپنیوں نے اس کی نقل کرنی شروع کردی۔ اس ماڈل نے ہنری فورڈ کی زندگی بدل دی اور پھر مسلسل محنت سے انہوں نے فورڈ کمپنی قائم کی۔

’’اپنی ناکامی سےسیکھیں اورکوشش جاری رکھیں‘‘ 

تھامس ایڈیسن(Thomas Edison ) بلب کے موجد اور معروف سائنسداں ہیں ۔ کم عمری میں دماغی طور پر کمزور قرار دیتے ہوئے انہیں اسکول سے نکال دیا گیا تھا۔ انہوںنے جدوجہد کی اوراپنے خوابوں کی تکمیل کیلئے کبھی پیچھے نہیں ہٹے۔ان کی ماں نےان کی زندگی میں اہم کردار ادا کیا۔ انہیں اپنے بیٹے پر مکمل بھروسہ تھا اس لئے کبھی ان کا حوصلہ پست نہیں ہونے دیا۔
 ایڈیسن کے زمانہ طالب علمی کا وہ واقعہ مشہور ہے جس میں ان کے استاد نے انہیں نااہل قرار دیتے ہوئے ان کی والدہ سے درخواست کی تھی کہ وہ گھر ہی پر ان کی پڑھائی کا انتظام کرے مگر یہ بات ان کی والدہ، ایڈیسن سے چھپاتیں اور بتاتیں کہ استاد نے ان کی تعریف کی ہے اور اسے نہایت ہی ذہین بچہ قرار دیا ہے۔ استاد اور والدہ کے درمیان ہونے والی گفتگو کا راز تھامس ایڈیسن کے کامیاب ہونے کے بعد کھلتا ہے۔ ۱۸۵۹ءمیں ایڈیسن نے ڈیٹرائٹ تک گرینڈ ٹرنک ریل روڈ پر اخبارات اور کینڈی بیچنے کا کام کیا تھا۔ لگیج کے ڈبے میںانہوں نے کیمسٹری کے تجربات کیلئے ایک لیبارٹری اور ایک پرنٹنگ پریس قائم کی تھی جہاں انہوں نے گرینڈ ٹرنک ہیرالڈ کا آغاز کیاجو ٹرین سے شائع ہونے والا پہلا اخبار تھا۔
 ۱۲؍ سال کی عمر میں تھامس ایڈیسن اپنی سماعت سے تقریباً محروم ہوگئے تھے۔ ان کی سماعت سے محرومی کے متعلق مختلف نظریات ہیں مگر انہوں نے اپنی معذوری کو اپنی کمزوری نہیں سمجھا اور ہمیشہ اسے ایک اثاثہ سمجھا کیونکہ بہرے پن نے ان کیلئے تجربات اور تحقیق پر توجہ مرکوز کرنا آسان بنا دیا۔ اسی درمیان انہوںنے مختلف ایجادات پر اپناکام جاری رکھا۔ ٹیلی گراف کی ایجاد کے بعد انہوں نے نیو یارک میں لیباریٹری قائم کی تھی۔ بلب کی ایجاد سے قبل انہیں تقریباً ایک ہزار مرتبہ شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

’’ سوچو، خیالات پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے‘‘

دھیرو بھائی امبانی (Dhirubhai Ambani) نے ریلائنس کمپنی کی بنیاد ڈالی تھی۔ وہ ایک غریب خاندان میںپیدا ہوئے تھے۔ خراب مالی حالت کی وجہ سے دھیروبائی کی ماں نے ان سے اوران کے بڑے بھائی رمنک بھائی سے خاندان کی کفالت اور اخراجات پورے کرنےکیلئے کہا تھا۔ اپنی ماں کے حکم پر عمل کرتے ہوئے ۱۵؍ سال کی عمر میں دھیرو بھائی نے گرینار چوٹی پر یاتریوں کو چنے کے آٹے کے پکوڑے (بھجیا) بیچنا شروع کر دیئے۔   ۱۶؍ سال کی عمر میں انہوںنے یمن کا رخ کیا اور وہاں پیٹرول پمپ پر ملازمت کرنے لگے  جہاں ان کی تنخواہ ۳۰۰؍ روپے تھی۔ وہاں رہتے ہوئے انہوں نے تجارت میں مستقبل کے رجحانات کا جائزہ لیا اور کافی معلومات حاصل کرلی۔ ۱۹۵۸ء میں وہ ہندوستان لوٹ آئے اور’ماجن ‘کے نام سے ٹیکسٹائل کا کاروبار شروع کیا جسے وہ اپنے کزن چمپک لال کے ساتھ چلاتے تھے۔ یہ کمپنی مسالوں سے لے کر ٹیکسٹائل جیسے ریون سے یمن اور درآمد شدہ پالیسٹر تک کی اشیاء برآمد کرنے کی ذمہ دار تھی۔ ان کا پہلا دفتر مسجد، ممبئی میں واقع تھا جس کا رقبہ محض ۳۳؍مربع میٹر تھا۔ دھیرو بھائی اور چمپک لال کے درمیان نظریات کے اختلاف کی وجہ سے ۱۹۶۵ء میں شراکت داری ختم ہوگئی۔ اس بزنس کے ذریعے انہیں مارکیٹ کی خاصی معلومات ہوئی تھی۔ دھیرو بھائی امبانی خطرہ مول لینے والے تاجر تھے ۔  انہوں نے آمدنی بڑھانے کیلئے انوینٹری بنانے کی ضرورت کو سمجھا۔ انہوں نے ریلائنس کمرشیل کارپوریشن کو شروع کرنے کا فیصلہ کیا اور ۱۹۹۶ء میں اس کی بنیاد ڈالی جو اس وقت ریلائنس انڈسٹریز کے نام سے جانا جاتی ہے۔ ان کے نام سے ایک اسکالرشپ بھی دی جاتی ہے ۔ دھیرو بھائی امبانی نے اپنی محنت اور کوشش سے وہ مقام حاصل کیا جو بہت کم بزنس مین کے حصے میں آتا ہے۔

’’میں رات میں نہیں دن میں خواب دیکھتا ہوں‘‘

اسٹیون اسپلبرگ(Steven Spielberg) مشہور امریکی فلمساز ہیں جنہیں یو ایس سی اسکول آف تھیٹر، آرٹس اینڈ ٹیلی ویژن سے۳؍ مرتبہ اس لئے نکال دیا گیا تھا کہ ان کے گریڈ کافی خراب تھے۔ بعد ازیں، انہوںنے اپنی لکھی ہوئی فلمیں فروخت کرنے کا آغاز کیا جس سے انہیں شہرت ملی۔ وہ۳؍ مرتبہ آسکرایوارڈ حاصل کر چکے ہیں۔ انہوںنےہالی ووڈفلم انڈسٹری کوبہت سی مشہور اور کامیاب فلمیں دی ہیں جن میں ’’جوراسک پارک‘‘، ’’جاز‘‘، ’’دی کلر پرپل‘‘ اور دیگر کئی بلاک بسٹر فلمیں شامل ہیں۔
 والد کے تبادلات کی وجہ سے اسٹیون کا خاندان متعدد شہروں میں منتقل ہوتا رہاجس کی وجہ سے ان کی کسی ہم عمر سے دوستی نہیں ہو سکی۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی ذہنی نشوونما دیگر بچوں کی بہ نسبت سست تھی۔شرمیلے پن اوردماغی طور پر کمزور ہونے کی وجہ سے اکثر انہیں اپنے ہم جماعت بچوں کی دھونس کا شکار ہونا پڑتا تھا اور اساتذہ بھی اکثر ان پر تنقید کرتے تھے۔
 اسکولی تعلیم کے بعد اسٹیون نے فلم کی تعلیم کیلئے کیلیفورنیا اسٹیٹ یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ تاہم، انہوں نے ہالی ووڈ میں کریئر بنانے کیلئے کورس ایک سمسٹر بعد ہی چھوڑ دیا۔۷۰ء کی دہائی کے دوران اسٹیون اسپیلبرگ نے اسکرین پلے لکھے اور ٹیلی ویژن کے ایپی سوڈز کی ہدایت کاری کی لیکن انڈسٹری میں نمایاں مقام نہیں بنا سکے۔۱۹۷۱ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’’ڈوئل‘‘نے اسٹوڈیو کے ایگزیکٹوز کو متاثر کیا۔آخر کار ۱۹۷۴ءمیں ان کی پہلی فلم سنیما گھروں میں ریلیز ہوئی جس کا نام ’’دی شوگر لینڈ ایکسپریس‘‘ تھا جسے فلمی ناقدین نے کافی سراہا اور اسٹیون کی شناخت بننے لگی۔پھر انہیں فلم’’جاز‘‘ کی ہدایتکاری کی پیشکش ہوئی جواَب تک کی سب سے زیادہ کمائی کرنے والی فلموں میں سے ایک ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK