EPAPER
Updated: September 13, 2025, 4:51 PM IST | Shakeel Javed Amrohvi | Mumbai
’’ہاہاہاہاہا....! ارے پگلی! کیا گڑیاں بھی حلوہ کھا سکتی ہیں؟‘‘ اسلم نے ایک پُر زور قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔ ’’تم تو میری ہر بات کو مذاق سمجھتے ہو.... اگر تمہیں یقین نہ ہو تو ممی سے چل کر پوچھ لو کہ میں جھوٹ کہہ رہی ہوں یا سچ....
آج فرحانہ کی گڑیا کی شادی تھی۔
گھر میں خوب چہل پہل تھی، اس نے اپنے پاس پڑوس کی لڑکیوں کو اُن کی گڑیوں سمیت بلایا ہوا تھا۔ فرحانہ کی ہر سہیلی نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.... اس کی سہیلیاں ہر طرح سے اس کا ہاتھ بٹانے میں مصروف تھیں۔
فرحانہ اپنے ماں باپ کی ضدی اور لاڈلی بیٹی تھی۔ اس کے ماں باپ نے ہمیشہ اس کی ہر خواہش کو پورا کیا تھا۔ وہ ہمیشہ اس کی تمام باتوں کا خیال رکھتے تھے۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ بچے کی خواہش کو پورا نہ کرنے سے اس کا دل ٹوٹ جاتا ہے اور وہ کسی طرح بھی اپنی فرحانہ کا دل توڑنا نہ چاہتے تھے۔
فرحانہ کی ممی نے اس کی گڑیا کی شادی میں طرح طرح کے پکوان تیار کرائے۔ اور اس کی سہیلیوں کے بیٹھنے کا خاص انتظام کرایا تھا۔ ایک بڑی گول میز پر گراموفون رکھا ہوا فلمی ریکارڈ بجا رہا تھا۔ یہ گراموفون فرحانہ کو اس کے ماموں جان نے اس کی دسویں سالگرہ پر دیا تھا۔ اس طرح کا گراموفون اس کی سہیلیوں میں سے کسی اور کے پاس نہ تھا۔ اس لئے وہ بڑے فخر کے ساتھ ہر ایک لڑکی سے اس کی تعریفیں کرتی تھی۔ فرحانہ کا بڑا بھائی اسلم (جو اس سے تقریباً ڈیڑھ، دو سال بڑا ہوگا) وہ بھی اس کی گڑیا کی شادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا تھا۔ اپنی گڑیا کی شادی میں اسلم کو اس قدر دلچسپی لیتے دیکھ کر ریحانہ سوچ میں ڈوب گئی کہ اس کی گڑیوں سے نفرت کرنے والا اسلم آج کیوں اس کی گڑیا کی شادی میں دلچسپی لے رہا ہے۔ اسے یاد تھا کہ جب بھی اس نے اپنی گڑیوں کا ذکر چھیڑا اسلم نے فوراً بات کا موضوع بدل دیا اور اپنے دوستوں، کرکٹ میچ کی باتیں اپنے مخصوص انداز میں فرحانہ کو سنانے لگ جاتا۔ فرحانہ چاہتی تھی کہ اسلم اس کی گڑیوں کی تعریف کرے مگر اس کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہوئی اور وہ سوچ کر ہی رہ جاتی ایک بار جب اسلم نے فرحانہ کو اپنی گڑیوں کے آگے حلوہ رکھتے ہوئے دیکھا تو اسلم نے اس سے پوچھا، ’’فرحانہ یہ کیا کر رہی ہو؟‘‘
’’شی....!‘‘ فرحانہ نے اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھتے ہوئے اسلم کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور جب وہ اپنی گڑیوں کے آگے حلوہ رکھ کر آگئی تو اس نے اسلم کو بتلایا، ’’بھائی صاحب! تم بھی بڑے وہ ہو.... دیکھتے نہیں میں اپنی گڑیوں کو حلوہ کھلا رہی تھی اور تم نے مجھے ٹوک دیا۔ کیا تمہاری آواز کو میری گڑیوں نے نہیں سنا ہوگا۔‘‘
’’ہاہاہاہاہا....! ارے پگلی! کیا گڑیاں بھی حلوہ کھا سکتی ہیں؟‘‘ اسلم نے ایک پُر زور قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔
’’تم تو میری ہر بات کو مذاق سمجھتے ہو.... اگر تمہیں یقین نہ ہو تو ممی سے چل کر پوچھ لو کہ میں جھوٹ کہہ رہی ہوں یا سچ.... ایک بار جب میں اپنی گڑیوں کو کھانا رکھنا بھول گئی تو میری ایک گڑیا کھانے کی تلاش میں الماری سے نکل کر کرسی کے نیچے گر گئی اور جب میں نے صبح کو دیکھا تو اس کی ایک ٹانگ میں کافی چوٹ آگئی تھی....!‘‘ فرحانہ نے اسلم کو یقین دلاتے ہوئے کہا۔
’’اگر تمہارا دماغ خراب نہیں ہے تو بہت جلد ہوجائے گا، میں کہے دیتا ہوں۔‘‘ اسلم نے شوخی کو اپناتے ہوئے پیشین گوئی کی۔
’’ہاں، ہاں....! ہوجانے دیجئے میرا دماغ خراب، تم اپنے دوستوں میں جا کر کرکٹ کھیلو۔‘‘ فرحانہ نے لاپروائی سے کہا۔
دونوں میں سدا نوک جھونک رہتی تھی، اور وہ ایک دوسرے کے مشاغل کو بُرا بھلا بتلا کر جب فیصلہ کے لئے ممی اور ڈیڈی کے پاس جاتے تو وہ دونوں کا دل رکھنے کے لئے کوئی ایسی الجھی ہوئی بات کہہ دیتے یا پھر کبھی اگر کسی کو زیادہ گرم پایا تو فیصلہ دوسرے کے حق میں سنا دیا.... اسی طرح آئے دن طرح طرح کی باتیں بحث و مباحثے و تکرار فرحانہ اور اسلم کے درمیان ہوتی رہتی تھیں۔ ان کی ان باتوں میں ان کے ڈیڈی اور ممی بھی خاصی دلچسپی کا اظہار کرتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ بچے ایک دوسرے سے بازی لینے کے لئے اسی طرح کی نوک جھونک اور باتوں کا سہارا لیتے ہیں شاید انہیں بھی اس میں کوئی خاص لطف ملتا ہو۔
لیکن آج.... آج اسلم اپنی پچھلی تمام باتوں کو بھول کر فرحانہ کی گڑیا کی شادی میں بہت مصروف تھا۔ خود فرحانہ کی امی کو اسلم کے اس رویہ پر تعجب ہو رہا تھا، کہ آج اتوار ہوتے ہوئے بھی وہ کرکٹ کھیلنے کے بجائے فرحانہ کی گڑیا کی شادی میں دلچسپی لے رہا تھا۔ اسلم کا اپنے ساتھ اپنی خواہشوں کے ساتھ یہ رویہ دیکھ کر فرحانہ خوش ہوگئی، اور وہ دل ہی دل میں اپنے بھائی کی سلامتی کے لئے دعائیں مانگنے لگی۔ اس نے اپنی سب ہی سہیلیوں سے اپنے بھائی اسلم کا تعارف کرایا۔ اسلم میاں سے سب لڑکیوں نے مل کر خوشی کا اظہار کیا۔
بارات آئی اور بڑی دھوم دھام سے آئی.... گراموفون پر ریکارڈ ابھی تک بج رہے تھے۔
فرحانہ نے برات میں شرکت کرنے والی اپنی تمام سہیلیوں کو قاعدے کے ساتھ بٹھایا۔ اور نکاح کے بعد مٹھائیوں اور طرح طرح کے پکوان سے ان کی خاطر و مدارت کی۔ فرحانہ کے ہاں کا اتنا اچھا انتظام دیکھ کر سب لڑکیاں حیران رہ گئیں۔ انہوں نے بیسیوں شادیوں میں شرکت کی تھی، شادیاں دیکھی تھیں مگر ایسا انتظام.... ایسا کھانا شاید کہیں نہیں ملا تھا۔ ان تمام باتوں کا فرحانہ سے کسی نے اظہار تو نہیں کیا مگر وہ سب اپنی اپنی جگہ خوب اچھی طرح محسوس کر رہی تھیں۔ کھانے اور پان وغیرہ سے فراغت پانے کے بعد اسلم میاں گراموفون پر فلمی ریکارڈ بجاتے رہے اور سب لڑکیاں خوش گپیاں کرتی رہیں۔ اور پھر فرحانہ کی تمام سہیلیوں کو ان کے گھر پہنچانے کے لئے اسلم میاں کو ہی سروس کرنی پڑی۔
فرحانہ نے تمام گڑیوں گڈوں کو اپنی بڑی میز پر قرینے کے ساتھ لگا دیا۔ اور ان کے آگے انواع و اقسام کے عمدہ عمدہ لذیذ کھانے چن دیئے۔ فرحانہ سوچنے لگی کہ میں آج گڑیوں کو کھانا کھاتے ہوئے ضرور دیکھوں گی۔ کافی دیر تک وہ اسی انتظار میں جاگتی بھی رہی مگر پھر وہ کسی طرح بھی خود کو نیند سے نہ بچا سکی۔ اور سو گئی۔
رات کے پورے بارہ بجے ایک سایہ فرحانہ کی گڑیوں والی میز کی طرف بڑھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک ننھی سی ٹارچ بھی تھی۔ وہ سایہ کافی دیر تک گڑیوں کی میز کے پاس رکھڑا رہا.... اور جب فرحانہ صبح اٹھی تو اس نے دیکھا کہ اس کی گڑیوں نے برات کا سب کھانا کھا لیا ہے۔ یہ دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئی۔
لیکن اسے کیا پتہ تھا کہ گڑیوں کے حصے کا کھانا، مزیدار پراٹھے مٹھائیاں، رس گلے، پوریاں، چاکلیٹ وغیرہ۔ سب اسلم میاں مزے لے لے کر کھاتے ہیں اور بے چاری فرحانہ اپنے حصے کی چیزیں بھی اپنی گڑیوں کے لئے رات کو کھانے کے لئے رکھ دیتی ہے۔ مگر وہ سب اسلم کے پیٹ میں آکر ہی ہضم ہوتی ہیں۔
اگر آج بھی کوئی فرحانہ سے کہے کہ گڑیاں کھا نہیں سکتیں تو وہ کسی کی بات پر یقین نہیں کریگی۔