Inquilab Logo

مچھر کے خلاف مقدمہ کا فیصلہ

Updated: April 13, 2024, 1:38 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

’’عالی جاہ....! مچھر کے کاٹنے سے یہ گھرانہ ملیریا بخار کا شکار ہوگیا ہے۔ یہ بچے اسکول نہیں جاسکتے۔ ان سب کی یہ حالت ان مچھروں نے کی ہے۔ لہٰذا ان کو قرار واقعی سزا دی جائے۔‘‘ انسانی ثبوت بڑے اہم تھے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

قاضی کی عدالت میں بڑا دلچسپ مقدمہ دائر کیا گیا۔ جو سنتا حیرت زدہ رہ جاتا۔ یہ مقدمہ ایک انسان نے مچھر کیخلاف کیا تھا۔ پہلے تو قاضی نے سماعت سے صاف انکار کر دیا تھا۔ لیکن پھر اہم معاملہ سمجھتے ہوئے اس نے مقدمے کی پیشی کا اعلان کر دیا۔ اس سلسلے میں باقاعدہ منادی کرا دی گئی۔ تمام گواہان کو بھی عدالت میں طلب کر لیا گیا تھا۔ جوں جوں مقدمہ کی تاریخ قریب آرہی تھی، ویسے ویسے فریقین کی تیاریوں میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا۔ دونوں طرف سے دلائل اکٹھے کئے جا رہے تھے۔ ثبوت تلاش کئے جا رہے تھے۔ آخر کار پیشی کا پہلا روز آن پہنچا ہر طرف اس کی دھوم مچ گئی۔
 ’’عالی جاہ! سارا دن زندگی کی بھاگ دوڑ سے فراغت کے بعد آرام کے چند لمحات میسر آتے ہیں۔ ابھی بمشکل آنکھ لگتی ہے کہ یہ کمبخت آکر کان میں شور مچاتا ہے اور کاٹنا شروع کر دیتا ہے۔‘‘ انسان نے مچھر کو کوستے ہوئے قاضی کی عدالت میں اپنے بیان سے مقدمے کی کارروائی شروع کرتے ہوئے کہا۔ قاضی بڑا سمجھدار آدمی تھا۔ اس کا منشی تمام باتیں لکھ رہا تھا تاکہ ہر فریق کے موقف کا تحریری ریکارڈ تیار رہے۔ مچھر نے اپنے بارے میں انسانی رائے سنی تو تڑپ اٹھا، بولا: ’’خدا کی پناہ! قاضی صاحب! یہ سب جھوٹ و فریب کا پلندہ ہے۔ میں قطعاً ان کے آرام میں مخل نہیں ہوتا۔ لہٰذا یہ مقدمہ بے بنیاد ہے اور اسے پہلی پیشی پر خارج کر دیا جائے۔‘‘
 ’’دہائی ہے قاضی جی! یہ بدبخت باز نہیں آرہا، ہر روز کان کھانے آجاتا ہے۔ اسے میرے گھر میں داخل ہونے سے باز رہنے کے احکامات جاری کئے جائیں۔‘‘ انسان نے واویلا شروع کر دیا تھا۔ قاضی کو اندازہ ہوگیا تھا کہ انسان روزمرہ کے امور مکمل کرنے کے بعد بستر پر آرام کرتا ہے۔ آرام و سکون کے لئے یہ لمحے رات کو میسر آتے ہیں۔ ادھر آنکھ لگے ادھر مچھر کان میں آکر راگ الاپنا شروع کر دیتا ہے۔ اب بھلا انسان آرام کب کرے۔ انسان کا موقف مضبوط تھا۔
 ’’نہیں سرکار!‘‘ مچھر بولا، ’’یہ غلط ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے مَیں جان بوجھ کر ان کے گھر داخل نہیں ہوتا، بلکہ اس کی دعوت خود حضرت انسان دیتا ہے۔ اگر یقین نہ آئے تو چل کر اصل صورتحال دیکھ لیجئے۔‘‘ مچھر نے اہم ثبوت دکھانے کا اعلان کر دیا تھا۔ یہ سن کر انسان کے پسینے چھوٹ گئے، اسے خطرہ پڑ گیا کہ اس کی مقدمے پر گرفت کمزور ہو رہی ہے لیکن اب کیا ہوسکتا تھا۔ قاضی نے مچھر کے ساتھ جا کر اصل مقدمے کی تہہ تک پہنچنے کی حامی بھر لی۔ قاضی اور مچھر سمیت تمام لوگ تیز تیز قدم اٹھاتے انسانی بستی کی طرف جا رہے تھے۔ آخرکار ایک محلے کے سامنے آکر مچھر رک گیا، ’’حضور! ذرا اس محلے پر نظر ڈالئے!‘‘ وہ مؤدب انداز میں بولا۔ اب جو قاضی نے سر گھما کر گلی کا جائزہ لیا تو بہت برا حال تھا۔ گڑھوں کا گندا پانی ابل کر گلی میں کھڑا تھا۔ کوڑے کرکٹ کے انبار سڑک پر پھینک رکھا تھا، شاپنگ بیگ نالیوں میں پھنسے ہوئے تھے، اس لئے گٹر بند تھا۔ بدبو سے دماغ پھٹا جا رہا تھا۔ قاضی کا وہاں ٹھہرنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ گندے پانی کی سطح پر مچھروں کے غول کے غول رقص کر رہے تھے۔
 ’’سرکار! ذرا غور کیجئے! یہ گندگی و غلاظت کے ڈھیر مچھروں نے قائم نہیں کئے۔ ہماری افزائش نسل کے لئے یہ اعلیٰ سہولتیں انسان نے ہی مہیا کی ہیں۔ لہٰذا انصاف کرتے ہوئے یہ مقدمہ ختم کیا جائے!‘‘ مچھر نے بڑی خوبصورتی سے قاضی کی رائے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی تھی۔
 قاضی نے چند روز بعد پیشی کی تاریخ مقرر کر دی اور وہاں سے رخصت ہوگیا۔ اگلی بار انسان بڑی تیاری کے ساتھ آیا تھا۔
 قاضی کے آنے پر وہ بولا، ’’عالی جاہ! آپ کی خدمت میں اہم ثبوت پیش کرنا چاہتا ہوں تاکہ مچھر کی کارستانیوں کو آشکار کیا جاسکے۔‘‘ قاضی ہر حال میں انصاف کرنا چاہتا تھا لہٰذا اس نے ثبوت پیش کرنے کی اجازت دے دی۔ مچھر کا دل تیزی سے دھک دھک کرنے لگا۔ یکدم پانچ افراد کمرۂ عدالت میں داخل ہوئے ان میں سے تین بچے بھی شامل تھے وہ کانپ رہے تھے۔ بڑوں کی حالت بھی دیدنی تھی۔ بخار کی وجہ سے ان کے چہرے سرخ تھے۔ اور جسم بلند درجہ حرارت کے باعث تپ رہے تھے۔
 ’’عالی جاہ! مچھر کے کاٹنے سے یہ گھرانہ ملیریا بخار کا شکار ہوگیا ہے۔ یہ بچے اسکول نہیں جاسکتے۔ ان سب کی یہ حالت ان مچھروں نے کی ہے۔ لہٰذا ان کو قرار واقعی سزا دی جائے۔‘‘ انسانی ثبوت بڑے اہم تھے۔ بچوں اور بڑوں کی حالت بخار کی وجہ سے بہت بری تھی۔
 قاضی نے اگلی پیشی پر مقدمے کا فیصلہ کرنے کا اعلان کرکے سماعت ملتوی کر دی چنانچہ تمام لوگ واپس اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ رات کافی ہوگئی تھی۔ چاند کی مدھم سی روشنی میں ایک انسانی ہیولا ایک گلی میں سے گزرتا دکھائی دے رہا تھا۔ یہ قاضی کا سایہ تھا۔ قاضی کو دو روز بعد مقدمے کا فیصلہ سنانا تھا۔ اس لئے حقائق تک پہنچنے کے لئے اس نے از خود سارے معاملے کی چھان بین شروع کر دی تھی۔ محلہ بہت گندا تھا۔ انسانوں نے سارے علاقے کو بدبو دار بنا رکھا تھا۔ قاضی کے اٹھنے والے قدموں سے شڑاپ شڑاپ کی آوازیں ابھر رہی تھیں۔ جو گندے و آلودہ پانی میں گزرنے کی وجہ سے پیدا ہو رہی تھیں۔ قاضی بمشکل ایک دیوار تک پہنچا اور دور سے سارا منظر دیکھنے لگا۔ صحن میں کئی چار پائیاں بچھی ہوئی تھیں۔ جس پر ہر عمر کے افراد سوئے ہوئے تھے۔ مچھر حسب عادت انسانوں کے کانوں پر راگ الاپ رہے تھے۔ اس دوران قاضی نے دیکھا کہ مچھروں نے کچھ انسانوں کو کاٹا وہ تڑپ اٹھے۔ قاضی واپس پلٹ آیا جن مچھروں نے انسان کو کاٹا تھا ان میں وہ مادہ مچھر انوفیلز (Anopheles) بھی شامل تھی۔ اس کے کاٹنے سے انسانی خون میں پلان موڈیم نامی جرثومہ شامل ہوگیا۔ جو ملیریا بخار کا ذمہ دار ہے۔ فیصلے کی گھڑی آپہنچی تھی۔ آج کمرہ عدالت میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ آخر کار انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں۔
 قاضی نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا: مقدمے کی سماعت گواہوں کے بیانات اور تمام ثبوت دیکھنے کے بعد عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ انسان اور مچھر کا تعلق بہت پرانا ہے۔ مچھروں نے ماضی میں ملیریا بخار کے ذریعے کروڑوں انسانوں کو ہلاک کرنے کا جرم کیا ہے، لیکن شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ مچھروں کو جرم کے ارتکاب پر انسان خود اکساتا ہے۔ گھروں کا کوڑا کرکٹ، گندگی و آلودگی خود انسان کی پیدا کردہ ہے۔ غلاظت میں مچھروں کی افزائش ہوتی ہے اور انہیں انسانی بستی میں پیدا ہونے کا موقع مل جاتا ہے۔ چنانچہ عدالت کا حکم ہے کہ آج کے بعد جن انسانی بستی میں پاکیزگی و صفائی کا خیال رکھا جائے گا۔ اور پیارے آقا حضرت محمدؐ کے فرمان عالی شان کے مطابق پاکیزگی کو ایمان کا نصف حصہ سمجھا جائے گا وہاں مچھروں کو جانے کی اجازت نہ ہوگی۔ جبکہ ایسی بستیاں جہاں غلاظت کے انبار لگائے جا رہے ہو، وہاں مچھروں کو جانے کی اجازت ہوگی۔
 پیارے بچو! مقدمے کے فیصلے کے بعد سے آج تک انسان اور مچھروں میں طے ہے کہ جہاں گندگی ہوگی وہاں مچھر ہوں گے۔ جو لوگ پاکیزہ ماحول کی ضمانت نہیں دیں گے ان کو انوفیلز نامی مادہ مچھر ملیریا بخار کے ذریعے یاددہانی کرواتی رہے گی کہ جو اپنے ملک، گھر، اسکول اور محلے کو بھی صاف ستھرا رکھیں گے وہ مچھر کے کاٹنے ہی سے نہیں ملیریا جیسی بیماری سے بھی محفوظ ہو جائینگے۔
(ماخوذ پیام تعلیم)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK