Inquilab Logo

عالمی کہانیوں کا ترجمہ: چاندنی میں ڈوبی سڑک

Updated: November 24, 2023, 1:55 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

معروف امریکی ادیب ایمبروس بیئرس کی شہرۂ آفاق کہانی ’’دی مون لائٹ روڈ‘‘ The Moonlit Road کا اُردو ترجمہ۔ خیال رہے کہ یہ کہانی عام کہانیوں کی طرح نہیں ہے۔ اسے تین مختلف زاویوں سے بیان کیا گیا ہے۔ پہلے بیٹے(جوئل ہیٹ مین جونیئر)، پھر باپ (کیسپر گریٹن) اور آخر میں ماں (جولیا ہیٹ مین) نے اپنا نظریہ پیش کیا ہے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

بیٹے (جوئل ہیٹ مین جونیئر) کا بیان
مَیں اُن بدقسمت انسانوں میں سے ہوں جو امیر، عزت دار، پڑھے لکھے اور صحتمند ہیں۔ میرا شمار خاندانی لوگوں میں ہوتا ہے۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر مجھے اتنی نعمتیں نہیں حاصل ہوتیں تو مَیں بھی ایک عام انسان ہوتا جس کی زندگی شاید آسان ہوتی۔
مَیں، کیسپر گریٹن (جوئل ہیٹ مین سینئر) اور جولیا ہیٹ مین کی اکلوتی اولاد ہوں۔ میرے والد کا شمار شہر کے امراء میں ہوتا ہے جبکہ والدہ شہر کی خوبصورت خواتین میں سے ایک تھیں۔ ہمارا خاندانی گھر نیش وِل، ٹینیسی (امریکہ کا ایک شہر) سے چند میل کے فاصلے پر تھا۔ یہ ایک بہت بڑا اور خوبصورت مکان ہے۔ 
مَیں نے یہ مضمون اس وقت تحریر کیا تھا جب میں ۱۹؍ سال کا تھا اور ییل میں تعلیم حاصل کرتا تھا۔ 
ایک دن مجھے اپنے والد کی طرف سے اتنی عجلت میں ٹیلی گرام موصول ہوا کہ مَیں بغیر وجہ پوچھے گھر کیلئے روانہ ہوگیا۔ نیش وِل کے ریلوے اسٹیشن پر ایک دور کا رشتہ دار میرا انتظار کر رہا تھا۔اس نے مجھے بتایا کہ میری ماں کا وحشیانہ طریقے سے قتل کر دیا گیا ہے۔ کیوں اور کیسے قتل ہوا ہے؟ اس کے متعلق کسی کو علم نہیں تھا۔ 
تاہم، مجھے یہ بتایا گیا تھا: میرے والد کسی کام کے ارادے سے دوسرے شہر گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے میری ماں کو بتایا تھا کہ وہ اگلی دوپہر واپس آئیں گے۔ لیکن ضروری کام وقت سے پہلے نمٹ جانے پر وہ رات ہی کو لوٹ آئے۔ مجسٹریٹ کے سامنے انہوں نے بیان دیا تھا کہ سوئے ہوئے نوکروں کو پریشان نہ کرنے کی غرض سے وہ گھر کے عقبی حصے سے داخل ہونے کا ارادہ رکھتے تھے۔ تاہم، جب وہ مکان کے عقبی دروازے کے قریب پہنچے تو انہیں دروازہ بند کرنے کی ہلکی آواز آئی۔ انہوں نے اندھیرے میں ایک آدمی کا ہیولہ دیکھا جو مرکزی گیٹ سے غائب ہوگیا۔ انہوں نے سوچا شاید کوئی چور ہو۔ وہ کھلے ہوئے عقبی دروازے سے گھر میں داخل ہوئے اور فوراً میری والدہ کے کمرے کی طرف گئے۔ خوابگاہ کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ گھپ اندھیرے میں کمرے کے اندر قدم رکھتے ہوئے وہ فرش پر گری کسی بھاری چیز سے ٹکرا گئے اور اس پر گر پڑے۔ وہ میری ماں کی لاش تھی جن کا کسی نے گلا گھونٹ کر قتل کردیا تھا۔
گھر سے کوئی چیز چوری نہیں ہوئی تھی۔ نوکروں نے کوئی آواز نہیں سنی تھی۔ مردہ خاتون کے گلے پر انگلیوں کےخوفناک نشانات کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ قاتل نے کوئی سراغ نہیں چھوڑا تھا۔
ان حالات میں مَیں نے اپنی پڑھائی چھوڑ دی اور والد کے ساتھ رہنے لگا جو ماں کی موت کے بعد کافی بدل گئے تھے۔ ہمیشہ خاموش رہتے۔ افسردگی کے عالم میں گھنٹوں بیٹھے رہتے۔ کبھی کبھی ہلکی آواز پر چونک جاتے۔ کبھی کبھی ان کے چہرے کا رنگ زرد پڑ جاتا اور وہ گہری اداسی میں ڈوب جاتے۔ 
اس خوفناک واقعے کے چند ماہ بعد ایک رات مَیں اور والد نے نیش ول میں واقع اپنے مکان جانے کا فیصلہ کیا۔ پورا چاند آسمان پر اپنی خوبصورتی اور زمین پر اپنی کرنیں بکھیر رہا تھا۔ موسم گرما کی رات تھی۔ پورا گاؤں خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا۔ سناٹے میں ہمارے قدموں اور جھینگر کی آواز کے علاوہ کوئی دوسری آواز نہیں تھی۔ درختوں کے سائے چاندنی میں نہائی سڑکوں پر اندھیرا قائم کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ ہمارا مکان تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ جب ہم اس کے مرکزی دروازے کے قریب پہنچے تو میرے والد اچانک رُک گئے اور انہوں نے میرا بازو مضبوطی سے پکڑ لیا، پھر اپنی سانسوں پر قابو پاتے ہوئے بمشکل بولے: ’’خدایا! وہ کیا ہے؟‘‘
’’مجھے کچھ نظر نہیں آرہا ہے۔‘‘ مَیں نے جواب دیا۔
’’دیکھو، دیکھو!‘‘ انہوں نے سڑک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
مَیں نے کہا، ’’ `وہاں کچھ نہیں ہے۔ آؤ اندر چلیں۔ آپ بیمار ہیں۔‘‘
انہوں نے میرا بازو چھوڑ دیا تھا اور روشن سڑک کے عین درمیان کھڑے ہوگئے۔ ان کا جسم سخت ہوگیا تھا اور وہ کسی چیز کو گھور رہے تھے۔ چاند کی روشنی میں ان کے چہرے کا پیلا پن واضح نظر آرہا تھا۔ مَیں نے آہستگی سے انہیں اپنی طرف کھینچا لیکن ایسا لگ رہا تھا کہ وہ مجھے بھول چکے ہیں۔ ان کی آنکھیں کسی چیز پر ٹکی ہوئی تھیں اور وہ آہستہ آہستہ پیچھے ہٹ رہے تھے۔ مَیں ان کے ساتھ تھا لیکن مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ اچانک میرے جسم میں ایک سرد لہر دوڑ گئی۔ ایسا لگا کہ گرما کی رات میں برفیلی ہوا کا ایک جھونکا میرے چہرے کو چھوتا ہوا میرے بالوں پر سے گزر گیا ہو۔
اسی لمحے میری توجہ اس روشنی کی طرف مبذول ہوئی جو اچانک ہمارے مکان کی اوپری کھڑکی سے نمودار ہوئی تھی۔ شاید کسی نوکر نے چراغ روشن کیا تھا۔ مَیں نے کھڑکی کی طرف چند لمحوں ہی کیلئے دیکھا تھا، پھر جب مَیں پلٹا تو میرے والد غائب ہوچکے تھے۔
اتنے برس گزر گئے ہیں لیکن آج بھی ان کا سراغ نہیں مل سکا ہے۔
باپ (کیسپر گریٹن عرف جوئل ہیٹ مین) کا بیان
آج مجھے جینے کیلئے کہا جاتا ہے لیکن کل یہ وجود مٹی میں مل جائے گا۔ میرا نام میری پہچان ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ محض کیسپر گریٹن کہتے ہی سیکڑوں کام ہوجاتے تھے۔ مَیں نے ایک بھرپور اور شاندار زندگی گزاری ہے۔
 ایک دن، مَیں اپنے شہر سے بہت دور کسی دوسرے شہر کی ایک گلی سے گزر رہا تھا، تبھی مجھے وردی میں ملبوس دو آدمی ملے جن میں سے ایک نے چند لمحوں کیلئے میری طرف متجسس نگاہوں سے دیکھا اور اپنے ساتھی سے کہا، ’’وہ شخص ۷۶۷؍ کی طرح نظر آتا ہے۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: عالمی کہانیوں کا ترجمہ: سرخ پرندہ

یہ نمبر کچھ جانا پہچانا اور خوفناک لگ رہا تھا۔ مَیں گھبرا گیا اور تیزی سے دوسری گلی میں چھلانگ لگا کر اس وقت تک بھاگتا رہا جب تک تھک کر ایک گلی میں گرا نہیں۔
مَیں اس نمبر کو کبھی نہیں بھولا۔ یہ مجھے ہمیشہ یاد رہے گا۔ میرا دماغ درست طریقے سے کام نہیں کرتا۔ میرے ذہن میں محض چند ٹوٹی پھوٹی یادیں ہیں ۔ زندگی کے جس راستے سے مَیں یہاں تک پہنچا ہوں ، وہ کافی خوفناک رہا ہے۔ مَیں ایک بوڑھا آدمی ہوں ۔
زندگی بھر پور طریقے سے میرے پاس آئی اور اس نے مجھے بے شمار خوشیاں دی۔ مَیں اپنی یادداشت کھوچکا ہوں ۔ میں دَر دَر بھٹک رہا ہوں ۔ چند دنوں پہلے مَیں نیم برہنہ حالت میں جنگل میں بھوکا پیاسا گھوم رہا تھا۔ ایک فارم ہاؤس پر جب مَیں نے کھانے کیلئے ہاتھ پھیلایا تو مالک نے مجھ سے میرا نام پوچھا، جو مجھے یاد ہی نہیں ۔ مَیں شرمندہ ہوکر وہاں سے لوٹ آیا اور جنگل میں سوگیا۔
اگلے دن مَیں ایک بڑے شہر میں داخل ہوا جس کا نام آپ کو نہیں بتاؤں گا۔ اور نہ ہی مَیں اِس زندگی کے مزید واقعات بیان کروں گا جو اَب ختم ہونے والی ہے۔
ماضی میں جاؤں تو یاد آتا ہے کہ مَیں کسی عظیم شہر میں ایک خوشحال زندگی گزار رہا ہوں ۔ میری ایک بیوی اور ایک بیٹا ہے۔ایک بدقسمت شام کو ایسا ہوا کہ مَیں شہر گیا۔ اپنی بیوی سے کہا کہ مَیں اگلی دوپہر کو آؤں گا لیکن مَیں صبح ہونے سے پہلے ہی لوٹ آیا اور گھر کے عقبی حصے میں چلا گیا۔ دروازے سے داخل ہونے کا ارادہ کررہا تھا کہ لگا کوئی آہستگی سے دروازہ کھول کر نکل رہا ہے۔ مجھے لگا کہ میری بیوی نے میرے قتل کے ارادے سے کسی قاتل کی خدمات لی ہیں ۔ چند دنوں پہلے مجھے مختلف لوگوں سے معلوم ہوا تھا کہ میری بیوی مجھ سے عاجز آچکی ہے اور مجھے قتل کروانا چاہتی ہے۔
غصے کے عالم میں مَیں گھر میں داخل ہوا اور بیوی کی خوابگاہ میں گیا۔ اندھیرے میں چیزیں ٹٹولتا ہوا مَیں آگے بڑھا۔ میری بیوی بستر پر نہیں تھی۔ مَیں نے سوچا کہ ’’شاید وہ (بیوی) مکان کے نچلے حصے میں ہے۔‘‘ یہ خیال کے آتے ہی مَیں بیڈ کی دوسری طرف آیا تو میرا پاؤں کسی چیز سے ٹکرایا۔ میری بیوی فرش پر تھی۔ دوسرے لمحے میرے ہاتھ اس کے گلے پر تھے۔ مَیں اس کی چیخ دبانے کی کوشش کررہا تھا۔ میرے گھٹنے اس کے تڑپتے جسم پر تھے۔ اور گھپ اندھیرے میں مَیں نے اس کا گلا گھونٹ دیا۔ اس سے پہلے کہ وہ مجھے قتل کرواتی، مَیں نے اسے ختم کردیا۔ یہ کام تو مَیں نے انجام دے دیا مگر یہ خوفناک سانحہ بار بار میرے شعور میں بیدار ہوتا ہے۔ میرے ہاتھوں انجام دی ہوئی اس واردات نے میری زندگی اجیرن کردی ہے۔
مجھے ایک خواب اب بھی یاد ہے۔ مَیں چاندنی میں ڈوبی ایک سڑک پر کھڑا ہوں ۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ کوئی میرے ساتھ ہے لیکن کون ہے، یہ سمجھنے سے قاصر ہوں ۔ مَیں ایک شاندار مکان کے سائے میں سفید لباس کی چمک دیکھ رہا ہوں ۔ پھر راستے کے عین درمیان ایک عورت کی شکل مجھے نظر آئی۔ وہ میری مقتول بیوی ہے جس کے گلے پر میری انگلیوں کے نشانات ہیں ۔ اس کی آنکھیں مجھ پر جمی ہوئی ہیں ۔ جن میں ملامت ہے نہ نفرت، دھمکی ہے نہ پہچان، لیکن آنکھیں خوفناک ہیں ۔ مَیں دہشت زدہ ہو کر پیچھے ہٹتا ہوں ، اور پھر......
مَیں نے اپنی بیوی کا قتل کیا اور اس کی سزا اب تک بھگت رہا ہوں ۔ بھوک اور پیاس کے سبب شاید آج میری زندگی ختم ہوجائے۔ شاید آج مَیں اس دارِ فانی سے کوچ کرجاؤں ۔ یا خدا! مجھے سکون دے۔
ماں ( جولیا ہیٹ مین ) کا بیان
مَیں کام سے فارغ ہوکر جلدی سوگئی تھی۔ میرے شوہر شہر گئے تھے۔ نوکر گھر کے دوسرے حصے میں سو ئے ہوئے تھے۔ شاید مَیں نے کوئی برا خواب دیکھا تھا اس لئے وحشت زدہ ہوکر اٹھ بیٹھی تھی اور اپنے پلنگ کے قریب رکھے چراغ کو جلالیا تھا۔ شاید میرے مکان میں کوئی گھس آیا تھا۔ کوئی چور یا نفسیاتی مریض۔ میری توقع کے برعکس چراغ کی روشنی سے مجھے سکون نہیں ملا بلکہ یہ روشنی مجھے خطرہ محسوس ہورہی تھی کیونکہ مَیں نے سوچا کہ یہ دروازے کے نیچے سے نظر آئے گی اور باہر موجود شخص کو کمرے میں میری موجودگی کا پتہ دے گی۔
چراغ بجھاکر مَیں نے اپنے سر پر چادر تان لی اور کانپتے ہوئے خاموشی سے لیٹ گئی۔ یہ احساس قوی تھا کہ گھر میں کوئی ہے۔ مجھے ڈر لگا رہا تھا۔ میرے لبوں سے دعائیں نکل رہی تھیں جن سے مجھے سہارامل رہا تھا۔
آخر کار وہ آگیا۔ مجھے سیڑھیوں پر اس کے قدموں کی آوازیں آرہی تھیں۔

قدموں کی بے ترتیب آواز! میرے دل و دماغ میں خوف بھرگیا تھا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ میری زندگی کی یہ آخری رات ہوگی۔ گھر میں کسی غیر کی موجودگی کا خوف ہی مجھے مارنے کیلئے کافی تھا۔ پھر قدموں کی آواز پلٹ گئی، مجھ سے دور جانے لگی۔ وہ آواز سیڑھیوں سے نیچے جارہی تھی۔ مَیں مدد کیلئے پکارنے کیلئے اٹھ کھڑی ہوئی مگر حلق سے آواز ہی نہیں نکلی۔ مَیں کمرے کے بند دروازے کے قریب آئی اور سوچا کہ اس پر دستک دے کر کسی نوکر کو متوجہ کروں۔ لرزتے ہاتھوں سے دروازے پر دستک دی۔ اور مجھے قدموں کی آواز واپس کمرے کی طرف آتی محسوس ہوئی مگر اس وقت اس کی رفتار خاصی تیز تھی۔ میری ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہر دوڑ گئی۔ مَیں فوراً بیڈ کی دوسری طرف بھاگی اور فرش پر سانس روک کر لیٹ گئی۔ مَیں دعائیں پڑھ رہی تھی۔ اپنے پیارے شوہر اور بیٹے کو یاد کررہی تھی۔ پھر مَیں نے دروازہ کھلنے کی آواز سنی۔ پس پھر مجھے ہوش نہ رہا۔ مَیں گھبراہٹ کے مارے بے ہوش ہوگئی تھی۔ جب ہوش آیا تو کوئی میرا گلا گھونٹ رہا تھا۔ معمولی سی مزاحمت کے بعد میری روح نے میرے جسم کا ساتھ چھوڑ دیا۔
مَیں ایک عجیب دنیا میں ہوں۔ راتوں میں جب سب اپنے اپنے گھروں میں سکون سے سوجاتے ہیں تو مَیں اور میرے جیسے سیکڑوں افراد اپنے پرانے گھروں کو دیکھنے کیلئے سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ 
ایک رات مَیں نیش ول میں اپنے مکان کی طرف تیر رہی تھی کہ مجھے مرکزی دروازے کے پاس میرے شوہر اور بیٹا نظر آئے۔ ایسا لگ رہا تھا برسوں بعد اپنے پیارے شوہر کو دیکھ رہی ہوں۔ وہ بالکل بدل گئے تھے۔ اپنی عمر سے کافی بڑے نظر آرہے تھے۔ مَیں حیرانی کے عالم میں ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔ مَیں سڑک کے عین درمیان میں کھڑی تھی۔ میرا بیٹا گیٹ کھول رہا تھا، اور تبھی میرے پیارے شوہر کی نظر مجھ پر پڑی۔ انہوں نے جب میری طرف دیکھا تو مَیں خوشی سے چیخ پڑی۔ شوہر سے میری محبت اس قدر تھی کہ مَیں اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ سکی اور چاندنی میں ڈوبی سڑک پر رقص کے انداز میں آہستہ آہستہ ان کے قریب بڑھنے لگی۔ مَیں مسکراتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھی کہ اپنے شوہر کو چھو سکوں۔ مَیں اپنے بیٹے کو بانہوں میں بھرنا چاہتی تھی۔ مگر میرے شوہر کا چہرہ خوف سے سفید پڑگیا۔ ان کی آنکھیں ڈر سے باہر کی طرف نکلتی محسوس ہورہی تھیں۔ مَیں نے ایک قدم بڑھایا تو وہ خوفزدہ ہوکر جنگل کی طرف بھاگ گئے۔ وہ کہاں گئے؟ مجھے نہیں معلوم۔ 
میرا بیٹا حیرت سے یہاں وہاں دیکھ رہا تھا۔ اسے کچھ سمجھ ہی میں نہیں آرہا تھا کہ اس کے ڈیڈی کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ وہ کئی مہینوں تک اس مکان میں رہا، اور میرے شوہر کو تلاش کرتا رہا لیکن وہ اسے کبھی نہیں ملے۔ مَیں اس عالیشان مکان میں مقیم اپنے بیٹے کو اپنی موجودگی کا احساس دلانے میں کبھی کامیاب نہ ہوسکی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK