Inquilab Logo

اچھے اور برے کی پہچان

Updated: October 22, 2022, 12:54 PM IST | Shakeel Javed | Mumbai

راکیش یہ باتیں سن کر سب کچھ بھول گیا۔ اُس کے دماغ میں عجیب سی ہلچل مچ گئی۔ اس کا دل گھبرا اُٹھا، اور وہ سیدھا گھر چلا آیا۔ اُس نے دیکھا کہ گھر کا دروازہ بند ہے اور

Picture .Picture:INN
علامتی تصویر ۔ تصویر:آئی این این

اپنی آنکھوں میں آنے والے دنوں کے سہانے سپنے سجائے ماں نے بیٹے کی پیشانی چوم کر کہا ’’بیٹا! اسکول سے سیدھا گھر آنا۔‘‘
 وہ آج بہت خوش تھی۔ کتنے ہی دن سے راکیش ماں سے ٹے ریکاٹ کی لال رنگ کی شرٹ اور سفید نیکر کے لئے ضد کر رہا تھا۔ جب بھی راکیش نے ماں سے کوئی فرمائش کی تھی، اس نے جیسے تیسے کرکے اسے پورا کیا ہے۔ اس ننھی سی جان کا سوا اس کے اور ہے بھی کون؟ راکیش کا باپ ایک بہادر فوجی تھا۔ جس دن راکیش نے جنم لیا تھا۔ اسی دن اس کے باپ کو سرحد پر جنگ چھڑ جانے کی وجہ سے اپنی ڈیوٹی پر جانا پڑا تھا۔ باپ نے بیٹے کو نظر بھر کر دیکھا بھی نہ تھا اسے گود میں لے کر پیار بھی نہ کیا تھا۔ وہ اپنے ملک کی سرحدوں پر جاکر بہادری اور جواں مردی کے ساتھ ڈٹ گیا تھا، اور وہیں وہ وطن پر قربان ہوگیا۔ جب راکیش کی ماں نے یہ دِل ہلا دینے والی خبر سنی تو اس پر جیسے چاروں طرف سے مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ لیکن وہ ایک بہادر سپاہی کی بیوی تھی جس نے اُسے ہمیشہ یہی بتایا تھا کہ شان سے جیو اور شان سے ہی مرو، بس یہی زندگی ہے۔ اور سپاہی کی زندگی تو یوں بھی قوم کی امانت ہوتی ہے۔ ایک ٹھہراؤ پیدا ہوگیا تھا۔ اتنے عظیم صدمہ کے بعد بھی وہ صبر کے ساتھ حالات کا مقابلہ کر رہی تھی۔ اس کی پوری توجہ اپنے بہادر شوہر کی نشانی راکیش پر تھی۔ حکومت نے اس کے شوہر کی بہادری کے کارناموں پر اُسے ایک بڑے اعزاز سے بھی نوازا تھا۔ ایک معقول رقم ہر سال اُسے وظیفہ کی شکل میں دی جاتی تھی۔ اسکول میں راکیش کی نہ صرف فیس معاف تھی بلکہ اس کی کتابوں اور کاپیوں وغیرہ کا بھی اسکول کی طرف سے مفت انتظام تھا۔ لیکن یہ سب کچھ اس کے بیٹے کے مستقبل کے لئے ناکافی تھا۔ اس لئے اُس نے ایک سلائی کی مشین قسطوں پر خرید لی تھی۔ محلے پاس پڑوس کی عورتیں اور اپنے بچوں کے کپڑے اس سے سلوانے لگیں.... اُسے راکیش کو اندھیروں سے اُجالوں کی طرف لے جانا تھا، جہاں ایک نئی زندگی اپنی بانہیں پھیلائے انتظار کر رہی تھی۔ راکیش چھٹی جماعت میں پڑھ رہا تھا۔ کتنے ہی دن سے وہ ماں سے ٹے ریکاٹ کی لال رنگ کی شرٹ اور سفید نیکر کے لئے ضد کر رہا تھا، کیونکہ اُس نے اپنے ہم جماعت سورج نام کے طالب علم کو آئے دن ایسے ہی نئے نئے رنگوں اور ڈیزائنوں کے کپڑوں میں سجا اسکول آتے دیکھا تھا۔ جب سے اس کے دل میں بھی یہ خواہش پیدا ہوئی تھی کہ وہ بھی ایسے ہی کپڑے پہنے گا۔ یہ بات اُس نے خاص طور پر نوٹ کی تھی کہ سورج اپنے کلاس کے صرف انہی لڑکوں سے گھل مل کر بات چیت کرتا تھا جو اسی کی طرح فیشن کے شوقین تھے اور سورج کے کپڑوں کی تعریف کرتے تھے۔ اپنے لئے اس نے سورج کی نظر کو ہمیشہ ٹیڑھا پایا تھا۔ آج جب راکیش اپنے پسندیدہ کپڑے پہن کر اسکول پہنچا تو راستے پھر سوچتا رہا: آج جب سورج اس کی طرف دیکھے گا۔ تو وہ بھی اپنا سینہ تان کر اُس کی طرف دیکھ کر کہے گا ’’سورج! ہم غریب ہیں تو کیا ہوا، دِل تو ہمارا امیر ہے!‘‘ لیکن سورج اُسے کہیں نظر نہ آیا۔ راکیش کی نگاہیں اُسے تلاش کرتی رہیں۔ جب اُس نے سورج کو کلاس میں نہ دیکھا تو اس کا دل کچھ اداس سا ہوگیا۔ وہ انٹرول میں ہی یہ سوچ کر سورج کے گھر کی طرف چل دیا کہ اس کی خیریت کے بہانے اپنے کپڑے بھی اُسے دکھا آئے۔ سورج اس کے کپڑوں کی ضرور تعریف کرے گا۔ اور پھر.... میرے لئے اس کی ٹیڑھی نظر سیدھی ہو جائے گی۔ یہ تمام باتیں سوچتا ہوا جب وہ سورج کے گھر کے نزدیک پہنچا تو اُسے بڑی حیرت ہوئی وہ ہکا بکا نگاہوں سے اس منظر کو دیکھنے لگا۔ سورج کے باپ کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پڑی ہوئی تھیں اور سپاہی انہیں پولیس اسٹیشن لئے جا رہے تھے۔ سورج بے تحاشا رو رہا تھا، اور باپ کی ٹانگوں سے لپٹا جا رہا تھا۔ ایک سپاہی نے سورج کو پکڑ کر اُس کے باپ سے الگ کیا۔ لیکن سورج پھر اُس سپاہی کی گرفت سے نکل گیا۔ سپاہی نے دوڑ کر دوبارہ اس کی اپنی مضبوط گرفت میں لے لیا۔ راکیش نے اپنے پاس ہی کھڑے ایک آدمی سے پوچھا تو اُس آدمی نے بتایا: سورج کے پِتا لالہ شیام سندر لال دیسی شراب بناتے تھے۔ چوری تو آخر چوری ہے۔ کب تک وہ پولیس کی نگاہوں سے بچتے۔ آخر آج دھر لئے گئے۔ اس شخص نے اپنے پاس کھڑے ہوئے ایک اور آدمی سے کہا ’’میاں! لعنت ہے ایسی زندگی پر نیک روزی سے بچوں کا پیٹ بھرنا چاہئے۔ ورنہ وہ بھی ایک دن ایسے ہی بُرے کام کریں گے کیونکہ برائی ایک آگ ہے۔ اور جب کہیں آگ لگتی ہے تو وہ سوکھا اور گیلا سب جلا ڈالتی ہے۔‘‘ راکیش یہ باتیں سن کر سب کچھ بھول گیا۔ اُس کے دماغ میں عجیب سی ہلچل مچ گئی۔ اس کا دل گھبرا اُٹھا، اور وہ سیدھا گھر چلا آیا۔ اُس نے دیکھا کہ گھر کا دروازہ بند ہے۔ اُس نے کواڑ کھولے ماں اندر نہ تھی کہیں پڑوس میں گئی ہوگی۔ راکیش نے گھر آتے ہی اپنی لال رنگ کی شرٹ اور سفید نیکر اُتار دیا۔ اور پھر اُن دونوں کپڑوں پر مٹی کا تیل ڈال دیا۔ جیسے ہی اس نے کپڑوں کو جلانے کے لئے ماچس کی تیلی جلائی، اس کی ماں دروازے سے اندر داخل ہوئی ماں نے پہلی ہی نظر میں سب کچھ بھانپ لیا تھا۔ اس نے دوڑ کر راکیش کے ہاتھ سے ماچس جھپٹ لی اور اُس کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ مارا۔ ’’کیا مَیں نے اسی لئے اپنا پیٹ کاٹ کر یہ کپڑے بنوائے تھے کہ تو انہیں آگ لگائے؟‘‘ اس کی ماں کا لہجہ بڑا سخت تھا۔ اُس نے آج تک ماں کو اتنے غصے میں نہ دیکھا تھا۔ اُس کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ اُس نے رُندھی ہوئی آواز میں کہا:’’ماں.... جس لڑکے کی نقل کرکے مَیں نے تم سے ضد کرکے یہ کپڑے بنوائے تھے، اُس کا باپ شراب کا غیر قانونی دھندا کرتا ہے، اور ابھی ابھی اس کو پولیس پکڑ کر لے گئی ہے۔ ماں، تم نے ہی تو مجھے یہ سبق سکھایا ہے کہ اچھے کام کی نقل کرو، بُرے کام کی نہیں؟‘‘ ماں نے راکیش کو دیوانہ وار اپنے گلے سے لگا لیا، اور اسے ایسا لگا جیسے راکیش کے اندر کوئی بڑی طاقت بول رہی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK