Inquilab Logo

میری آواز سنو

Updated: June 18, 2022, 11:21 AM IST | Shah Taj | Pune

ذوہیب کے دادا جی اسکول میں بچوں کو سائنس پڑھایا کرتے تھے۔ ریٹائر ہونے کے بعد بھی ان کی سائنس سے دلچسپی کم نہیں ہوئی تھی۔ ہر کسی کو سائنس کی اہم معلومات بتایا کرتے تھے، خاص طور پر اپنے پوتا اور پوتی کو۔ ایک دن وہ لوگ ایک دعوت میں شامل ہوتے ہیں جہاں بہت تیز میوزک بج رہا ہوتا ہے اور....

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

’’کاشف بیٹا! لاؤڈاسپیکر کی آواز تھوڑی کم کر دیجئے۔ رات کے ۹؍ بج رہے ہیں۔‘‘ ذوہیب کے داداجی نے کہا۔ ’’جی چاچا جی! ابھی کر دیتا ہوں۔‘‘ کاشف نے فوراً آواز کم کرتے ہوئے کہا۔ ’’بیٹا! ہمیں اپنی خوشیوں کے ساتھ دوسروں کے آرام کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔‘‘ دادا جی نے سمجھاتے ہوئے کہا۔ ’’آج شادی تھی اس وجہ سے ہم نے پورا دن تیز آواز میں میوزک بجایا۔ لیکن اب خیال رکھیں گے۔‘‘ کاشف نے کہا۔ ’’جی کاشف! کل آپ کے دوست بجا رہے تھے۔ اور کل کوئی دوسرا تیز میوزک بجائے گا۔ اوپر سے یہ ٹریفک بھی اب بہت پریشان کرنے لگا ہے۔‘‘ دادا جی نے کہا تو کاشف نے کہا، ’’یہ تو آپ نے صحیح کہا۔ اپنے سامنے والی سڑک پر شام ہوتے ہی اتنی لمبی قطار لگ جاتی ہے کہ کئی گھنٹوں تک اپنی ہی آوازیں خود کو سنائی نہیں دیتیں۔ صرف گاڑیوں کے ہارن سنائی دیتے ہیں۔ چاچا جی! آپ پریشان نہ ہوں، ہم تھوڑی دیر میں میوزک بند کر دیں گے۔‘‘ کاشف کا شکریہ ادا کرنے کے بعد دادا جی نے ذوہیب اور فرحین کو ساتھ لیااور شادی ہال سے نکل کر تینوں گھر کے لئے پیدل چل دیئے۔ چلتے ہوئے ذوہیب نے پوچھا، ’’دادا جی! یہ تو میوزک ہے، کوئی گاڑیوں کا شور نہیں۔ تیز آواز کے بنا تو میوزک سننے میں بالکل مزا نہیں آتا۔‘‘
 داداجی نے مسکرا کر جواب دیا، ’’ذوہیب! آپ نے ٹھیک کہا ہے۔ لیکن کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ ہم تھکے ہوتے ہیں اورسونا چاہتے ہیںتب ہمارا سب سے پسندیدہ میوزک بھی ہمیں شور معلوم ہوتا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیںکہ ہم ۸؍ گھنٹے سے زیادہ شور برداشت نہیں کر سکتے۔ ہماری پسندیدہ آوازیں بھی ایک خاص وقت کے بعد شور کی آلودگی میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔‘‘ اس بات پر فرحین نے حیران ہوکر دادا جی سے پوچھا، ’’ایسا کیسے ممکن ہوتا ہے؟ آواز بھی شور بن جاتا ہے؟‘‘
 ’’جی فرحین! ۸۵؍ ڈی بی سے زیادہ شدت کی آوازیں ہمارے کانوںکو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ اور یہ بھی ہم صرف ۸؍ گھنٹے تک ہی برداشت کرسکتے ہیں۔ اگر ان آوازوں کی سطح یا پھر مدت بڑھ جائے تو ہم مختلف مسائل سے دوچار ہوسکتے ہیں۔ شور کی آلودگی ہماری جسمانی اور ذہنی صحت پر بے شمار مضر اثرات مرتب کرتی ہے۔ حالانکہ لفظ شور، ناگوار، تیز اور ناپسندیدہ آوازوں کی نشاندہی کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے لیکن جب شور کی وجہ سے میری نیند میں خلل پڑتا ہے تو میں کتنا چڑچڑا ہو جاتا ہوں۔ سب سے زیادہ تو آپ کو ہی میری ڈانٹ کھانے کے لئے ملتی ہے۔ یعنی منظم آوازیں بھی ہر ایک کو ہر وقت پسند آئیں، یہ ضروری نہیں ہے۔‘‘ دادا جی نے ہنستے ہوئے کہا اور ذوہیب کے سارے بال بکھیر دئیے۔  ’’کیا دادا جی! یہ ڈی بی کیا ہے؟‘‘ ذوہیب نے اپنے بال ٹھیک کئے اور سوال کیا۔ ’’ڈی بی یعنی ڈیسیبل۔ صوتی سطح کا میٹر۔ جیسے ہم دودھ کو لیٹر میں، سبزیوں کو کلو گرام میں، ایسے ہی آواز کو ڈیسیبل میں ناپتے ہیں۔ یہ آواز کی شدت نانپنے والی اکائی ہے۔‘‘ دادا جی نے جواب دیا۔  ’’دادا جی! ہم اور آپ کتنے ڈیسیبل کے درمیان بات کر رہے ہیں؟‘‘ فرحین نے پوچھا تو دادا جی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، ’’عام طور پر ۳۰؍ سے ۷۰؍ ڈیسیبل کے درمیان کی سطح پر ہم لوگ بات چیت کرتے ہیں۔‘‘ فرحین نے ذوہیب کی شکایت کرتے ہوئے کہا، ’’دادا جی! ذوہیب بھائی بہت تیز آواز میں میوزک سنتے ہیں۔ میرے کانوں میں تو درد ہونے لگتا ہے۔ بس یہ آپ کے کہنے پر ہی آوازکم کرتے ہیں۔ مجھے تو چڑانے کے لئے آواز اور تیز کر دیتے ہیں۔ جب بھی آواز کم کرنے کیلئے کہتی ہوں تو یہی کہتے ہیں کہ میوزک تو تیز آواز میں ہی سننے میںمزا آتا ہے۔‘‘ دادا جی، فرحین کی بات پر تھوڑا مسکرائے اور کہنے لگے، ’’بیٹا! کچھ وقت تک ہم بہت تیز آوازیں سُن بھی سکتے ہیں اور انہیں برداشت بھی کر سکتے ہیں۔ دس پندرہ منٹ کی چھوٹ تو دی ہی جاسکتی ہے۔ ہم ۲۰؍ ہزار ایچ زیڈ تک کی تعدد اِرتعاش آوازوں کو آرام سے برداشت کرسکتے ہیں۔‘‘ دادا جی نے ہنستے ہوئے بتایا۔ ’’داداجی! اب یہ ایچ زیڈ کیا ہے؟‘‘ ذوہیب نے سوال کیا۔ ’’ایچ زیڈ کو ہرٹز کہتے ہیں۔ یہ آواز کی تعدد اِرتعاش ناپنے کی اکائی ہے۔‘‘ دادا جی نے وضاحت کی تو ذوہیب نے ہاں میں اپنا سر ہلایا۔ 
 ’’دادا جی جب آپ بہت دھیرے کچھ بولتے ہیں تو مجھے آپ کی آواز کیوں نہیں سنائی دیتی؟‘‘ ذوہیب نے کہا تو فرحین نے کہا، ’’بھائی! زیادہ تیز آوازیں سنتے سنتے آپ کے کان خراب ہونا شروع ہوگئے ہیں۔‘‘ فرحین کی بات سن کر دادا جی ہنسنے لگے اور ذوہیب، فرحین کو مارنے کے لئے اُسے دادا جی کے پیچھے سے کھینچنے لگا۔ داداجی نے دونوں کو سمجھاتے ہوئے کہا، ’’ذوہیب! ہم ۲۰؍ ایچ زیڈ سے کم کی تعدد ارتعاش کی آوازوں کو سُن نہیں سکتے۔ اور ۲۰؍ ہزار ایچ زیڈ سے زیادہ تعدد ارتعاش کو ہم برداشت نہیں کر سکتے۔ یہ نارمل بات ہے۔ اور ہاں ایک بات اور یاد آئی کہ ۲۰؍ ایچ زیڈ سے نیچے کی تعدد ارتعاش کی آواز کو زیریں صوت یا انتہائی ہلکے تعدد کی آواز اور ۲۰؍ ہزار ایچ زید سے زیادہ تعدد اِرتعاش کی آوازوں کو بالا صوت (الٹرا ساؤنڈ) کہتے ہیں۔‘‘ فرحین نے فوراً کہ، ’’الٹرا ساؤنڈ تو مجھے ابھی یاد ہو گیا۔‘‘ باتیں کرتے ہوئے تینوں اب گھر پہنچ گئے تھے۔ لیکن ذوہیب اور فرحین ابھی دادا جی کا پیچھا چھوڑنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ داداجی اپنے کمرے کی طرف جانے لگے تو ذوہیب نے کہا، ’’داداجی! کیا ہم تھوڑی دیر مزید بات کر سکتے ہیں؟ میں آپ سے کئی باتیں ’’آواز‘‘ کے تعلق سے جاننا چاہتا ہوں۔ صبح پھر اسکول چلا جاؤں گا اور بات نہیں ہو پائے گی۔‘‘ داداجی نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’آپ لوگ کپڑے تبدیل کرکے میرے کمرے میں آجائیے۔ تب تک میں بھی ہاتھ منہ دھو لیتا ہوں۔ ہم لوگ اپنی گفتگو کا آغاز پھر سے کریں گے۔‘‘  ’’جی داداجی!‘‘ دونوں بچے کپڑے تبدیل کرنے چلے گئے۔ آواز سُن کر فرحین اور ذوہیب کی امّی اپنے کمرے سے باہر آگئیں۔ آج اُن کی طبیعت کچھ ناساز تھی اِس لئے وہ دعوت سے جلدی واپس آ گئی تھیں۔ انہیں دیکھتے ہی ذوہیب کے دادا جی نے پوچھا، ’’بہو! آپ کی طبیعت اب کیسی ہے؟‘‘  ’’جی ابو! اب میری طبیعت کافی بہتر ہے۔ فرحین کے ابو آپ کے ساتھ نہیں آئے؟‘‘ فرحین کی امّی نے پوچھا۔ ’’جی بہو! ابھی وداعی میں تھوڑا وقت تھا اس لئے وہ ہال میں اپنے دوست کے ساتھ انتظام دیکھ رہا ہے۔ بھئی اُس کے دوست کی بہن کی شادی ہے وداعی تک تو اسے رکنا ہی چاہئے۔‘‘ دادا جی نے کہا۔ ’’جی! آپ نے درست کہا۔ لگتا ہے آج آپ کی سائنس کی کلاس لگنے والی ہے۔ کیا مَیں آپ کے لئے چائے بنا کر لاؤں؟ اوراگر آپ آرام کرنا چاہتے ہوں تو مَیں دونوں بچوں کو سمجھا دیتی ہوں کہ آپ کو پریشان نہ کریں۔‘‘ ذوہیب کی امّی نے کہا۔
 ’’نہیں بہو! مجھے سائنس کے تعلق سے بچوں کو سمجھانا اچھا لگتا ہے۔ پوری زندگی اسکول میں بچوں کو سائنس پڑھاتے ہوئے گزر گئی لیکن میرے پوتے پوتی کی طرح سوال کرنے والے بچے بہت کم ملے۔ اِن کے سوالات مجھے متحرک رکھتے ہیں۔ لیکن ایک کپ چائے کی ضرورت پڑے گی۔ اگر آپ کو پریشانی نہ ہو تو۔‘‘ دادا جی نے کہا ۔
 ’’میں اب کافی بہتر ہوں۔ میں، آپ کے اور اپنے لئے گرما گرم چائے بنا کر ابھی لاتی ہوں کیونکہ میں بھی کلاس میں بیٹھنا چاہتی ہوں تاکہ میں بھی کچھ معلومات حاصل کر سکوں۔‘‘ وہ چائے بنانے باورچی خانہ چلی گئیں تب تک دونوں بچے اپنے کاغذ قلم کے ساتھ دادا جی کے کمرے میں پہنچ گئے تھے۔ داداجی نے بھی اپنی الماری سے ایک کتاب نکالی اور اُس کے صفحات پلٹنے لگے۔ تب تک فرحین کی امّی ۲؍ کپ چائے لے کر آگئیں۔ دادا جی نے چائے کی چسکی لی اور پھر باتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔
 ’’دادا جی! آواز کیا ہے؟ اس کی تعریف کیسے بیان کر سکتے ہیں؟‘‘ ذوہیب کے سوال پر داداجی نے اُسے شاباشی دی پھر کہنا شروع کیا: ’’کسی تھرتھراتی چیز کا کانوں پر احساس آواز کہلاتا ہے۔ کسی بھی آواز کو ہمارے کانوں تک پہنچنے کے لئے تین چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ سب سے پہلا ہے تھرتھراتا ہوا مادی وجود، دوسرا ہے واسطہ اور تیسرا ہے وصول کنندہ یعنی ہمارے کان۔‘‘ داداجی کی بات مکمل ہوتے ہی فرحین کی امّی نے کہا، ’’میں سمجھی نہیں۔ کچھ آسان طریقے سے بتائیے۔‘‘ دادا جی نے کچھ سوچا پھر کہنا شروع کیا، ’’آج ہی کی مثال لیتے ہیں۔ لاؤڈاسپیکر سے تھرتھراہٹ پیدا ہوئی، اور ہوا میں موجود سالمہ نے اس تھرتھراہٹ کو اگلے سالمہ کو منتقل کیا یہ میڈیم تھا اور وہ تیز تھرتھراہٹ ہمارے کانوں تک پہنچی یعنی ہم ہوئے وصول کنندہ۔ شاید اب بات کچھ واضح ہوئی ہو!‘‘ دادا جی نے سب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور پھر اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا، ’’شور عموماًسب سے زیادہ نظر انداز کئے جانے والا خطرہ ہے کیونکہ ہمیںصوتی آلودگی آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم پر اِس کا اثر نہیں ہوتا۔ شور کی آلودگی صحت کے لئے مختصر اور طویل مدتی پریشانیوں کا سبب بنتی ہے۔ دل کے مسائل، ذہنی دباؤ، قوتِ سماعت کا نقصان وغیرہ۔‘‘ دادا جی نے شور کی آلودگی کے نقصانات بیان کئے۔
 ’’ابّو جی! ہمارے ارد گرد اتنا شور ہے۔ ہم تو اب اس شور اور ان آوازوں کے عادی ہو چکے ہیں۔ کیا تب بھی ہمیں نقصان ہوگا؟‘‘ ذوہیب کی امّی نے فکر مند ہوتے ہوئے پوچھا۔ ’’جی! ہر وقت ہمارے چاروں طرف جو شور ہوتا رہتا ہے اُس کی طرف ہم دھیان دینا تو بند کر سکتے ہیں لیکن اُس سے ہونے والے نقصان سے خود کو نہیں بچا سکتے۔‘‘ دادا جی کی بات سن کر فرحین نے کہا، ’’دادا جی! کیا شور کو کم کرنے کے لئے ہم کچھ نہیں کر سکتے؟‘‘  ’’کیوں نہیں کرسکتے، ضرور کرسکتے ہیں۔ جب آپ ٹی وی پر پروگرام دیکھیں تو آواز کم رکھئے، کار چلاتے ہوئے ہم غیر ضروری ہارن بجانے سے خود کو روک سکتے ہیں۔ اور ایسے ہی چھوٹے چھوٹے کام ہم اور آپ کر سکتے ہیں۔ اورہاں! جتنا ممکن ہو پیڑ لگائیں۔ پیڑ تو ہر معنی میں ہمارے لئے مفید ہیں۔‘‘ کافی دیر سے زوہیب خاموشی سے سب کی باتیں سُن رہا تھا دھیرے سے بولا، ’’آج سے میں بھی میوزک سسٹم کی آواز کم ہی رکھا کروں گا۔‘‘
 سب نے ایک ساتھ کہا: ’’شاباش!‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK