EPAPER
Updated: December 19, 2025, 5:08 PM IST | Shahebaz Khan | Mumbai
ڈنمارک کے معروف ادیب ہینس کرسچین اینڈرسن کی شہرہ آفاق کہانی ’’دی اسنو کوئین‘‘ The Snow Queenکا اردو ترجمہ۔
اس کہانی میں غم بھی ہے اور محبت بھی، اندھیرا بھی ہے اور روشنی بھی اس لئے اسے شروع سے سننا ضروری ہے۔
صدیوں پہلے کسی ملک میں ایک بدصورت جادوگر تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ شیطان تھا۔ اس کے دل میں خوشی کیلئے کوئی جگہ نہ تھی، اور اسے سب سے زیادہ لطف اس بات میں آتا تھا کہ وہ اچھی چیزوں کو بُرا اور خوبصورت چیزوں کو بدصورت بنا دے۔ ایک دن اس نے ایک عجیب آئینہ تیار کیا۔ یہ آئینہ سچ دکھاتا تھا، مگر الٹا سچ۔ جو چیز پاکیزہ اور خوبصورت ہوتی، وہ اس میں بگڑی ہوئی اور بے وقعت نظر آتی، اور جو چیز بُری ہوتی، وہ اور بھی زیادہ بدنما دکھائی دیتی۔ اگر کسی نیک دل انسان کی مسکراہٹ اس آئینے میں پڑتی تو وہ مسکراہٹ مکروہ بن جاتی۔ اگر کسی معصوم بچے کی آنکھیں جھلملاتیں تو آئینہ انہیں ٹھنڈی اور بےجان بنا دیتا۔ جادوگر اپنے آئینے پر بہت ہنستا اور فخر کرتا۔ وہ کہتا:’’اب دنیا جیسی ہے خود کو ویسی نہیں دیکھے گی، بلکہ جیسی میں چاہوں گا، ویسی دیکھے گی۔ ‘‘ ایک دن وہ اپنے شاگردوں کے ساتھ اس آئینے کو لے کر آسمان کی طرف اُڑنے لگا۔ وہ فرشتوں اور جنت کی خوبصورتی کا مذاق اُڑانا چاہتا تھا۔ مگر جیسے جیسے وہ اوپر گیا، آئینہ بے چین ہونے لگا، کانپنے لگا، اور پھر ایک زور دار آواز کے ساتھ ان کے ہاتھوں سے پھسل گیا۔
آئینہ زور دار آواز کے ساتھ زمین پر گرا اور ٹوٹ کر لاکھوں ننھے ٹکڑوں میں بکھر گیا۔ مگر یہ صرف شیشہ نہیں تھا جو ٹوٹ گیا تھا بلکہ یہ انسانوں کے دلوں کیلئےایک آزمائش تھی کیونکہ ان ٹکڑوں میں خطرناک جادو تھا۔ اگر آئینے کا کوئی باریک سا ٹکڑا کسی انسان کی آنکھ میں چلا جاتا، تو اس کی نظر بدل جاتی۔ وہ پھول میں کانٹا دیکھتا، مسکراہٹ میں فریب اور محبت میں کمزوری۔ اور اگر وہ ٹکڑا دل میں اُتر جاتا، تو دل سرد ہو جاتا، برف کی طرح سخت اور بےحس۔ ایسے دل میں نرمی باقی نہ رہتی، اور آنکھوں میں آنسو نہیں آتے۔ یہ ٹکڑے ہوا میں اُڑتے رہے، بادلوں کے ساتھ سفر کرتے رہے، اور خاموشی سے بہت سے دلوں اور آنکھوں میں جا بیٹھے۔
اکثر لوگوں کو خبر بھی نہ ہوئی کہ ان کے اندر کچھ ٹوٹ چکا ہے۔ انہی ٹکڑوں میں سے ایک ٹکڑا ایک دن ایک ننھے لڑکے ’’کائی‘‘ کی آنکھ میں جا لگے گا، اور اس کا دل بدل دے گا۔ اور تب ایک ننھی لڑکی ’’گردا‘‘ محبت، ہمت اور وفا کے ساتھ برف کی ملکہ کے سرد دیس تک سفر کرے گی۔ یہ ہے اس کہانی کی ابتدا۔
ضضض
ایک بڑے شہر میں، اونچی عمارتوں کے درمیان، دو چھوٹے سے گھر ایک دوسرے کے بالکل قریب تھے۔ ان گھروں کی چھتوں کے نیچے، لکڑی کے ڈبوں میں چند گملے رکھے تھے۔ انہی گملوں میں گلاب کے پودے تھے جن کے پھول گرمیوں میں مسکراتے تھے۔ انہی گھروں میں دو بچے رہتے تھے، ایک لڑکا کائی اور ایک لڑکی گردا۔ وہ بہن بھائی نہیں تھے مگر ان کے دل ایسے جڑے ہوئے تھے جیسے وہ ایک ہی دل کے دو حصے ہوں۔ وہ ایک ساتھ کھیلتے، ایک ساتھ ہنستے، اور ایک ساتھ کہانیاں سنتے۔ جب سردیوں میں برف پڑتی اور کھڑکیوں پر برف کے نقش بنتے تو وہ شیشے کے پاس کھڑے ہو کر دیکھتے اور ہنستے۔ ایک دن گردا نے کہا:’’ دیکھو کائی، یہ برف ایسی لگتی ہے جیسے سفید پھول کھل گئے ہوں !‘‘ کائی مسکرایا، پھر بولا:’’اور کبھی کبھی ایسے لگتا ہے جیسے سفید شہد کی مکھیاں اُڑ رہی ہوں !‘‘
ایک رات، جب برف خاموشی سے گر رہی تھی، کائی نے کھڑکی کی طرف اشارہ کیا۔ ’’وہ دیکھو! ایک بڑا برف کا گولا!‘‘ اچانک وہ برف کا گولا بڑھنے لگا، اور پھر وہ ایک حسین مگر سرد چہرے میں بدل گیا۔ وہ تھی برف کی ملکہ۔ اس کی آنکھیں برف کی طرح چمک رہی تھیں، اور اس کی مسکراہٹ میں کوئی گرمی نہ تھی۔ اس نے کائی کی طرف دیکھا، جیسے وہ اسے بہت پہلے سے جانتی ہو۔ مگر اگلے ہی لمحے وہ غائب ہو گئی۔ کائی کا دل زور زور سے دھڑکا، مگر وہ ہنس پڑا۔ ’’یہ تو بس میرا وہم تھا!‘‘
مگر وہ وہم نہیں تھا۔ اگلے دن کائی کچھ بدلا بدلا سا تھا۔ وہ گردا کے گلابوں کا مذاق اُڑانے لگا، ’’یہ پھول تو بےکار ہیں، اصل پھول تو برف کے ہوتے ہیں !‘‘
گردا کو تعجب ہوا۔ یہ وہ کائی نہیں تھا جسے وہ جانتی تھی۔ پھر ایک دن، جب وہ برف میں کھیل رہے تھے، ایک تیز چبھن ہوئی، آئینے کا ایک ٹکڑا کائی کی آنکھ میں اور دوسرا اس کے دل میں گھس گیا۔ کائی چیخا، مگر پھر ہنستے ہوئے کہنے لگا، ’’اب سب کچھ صاف نظر آ رہا ہے!‘‘
مگر جو صاف نظر آ رہا تھا، وہ سچ نہیں تھا، وہ آئینے کا زہر تھا۔ اب کائی کو ہر اچھی چیز میں نقص دکھائی دیتا، اور ہر محبت بھری بات اسے کمزور لگتی۔ گردا کی باتیں اسے بور کرنے لگیں، اور اس کی مسکراہٹ اسے فضول محسوس ہوئی۔ پھر ایک دن برف کی ملکہ پھر آئی۔ وہ ایک شاندار برفانی رتھ میں بیٹھی تھی، جس کے گھوڑے برف سے بنے تھے۔ اس نے کائی کو اپنے ساتھ بٹھایا، اسے ایک برفانی بوسہ دیا، ایسا بوسہ جو یادیں ہمیشہ کیلئے سلا دیتا ہے۔ اور کائی اس کے ساتھ چلا گیا۔
گردا کو لگا کچھ ہوا ہے مگر وہ سمجھ نہیں سکی۔ کائی غائب ہو چکا تھا۔ شہر نے کہا:وہ مر گیا ہوگا۔ دریا نے کہا: وہ بہہ گیا ہوگا۔ مگر گردا کے دل نے کہا:نہیں۔ وہ زندہ ہے۔ اور یہی یقین اس کہانی کو آگے لے جانے والا تھا۔
کائی کے غائب ہونے کے بعد گردا کیلئے دن اور رات ایک جیسے ہو گئے۔ شہر کی گلیاں، کھڑکیاں اور یہاں تک کہ گلاب کے پھول بھی اسے خاموش لگنے لگے۔ مگر اس کا دل خاموش نہیں تھا۔ اس کے دل میں ایک ہی بات گونجتی تھی:کائی زندہ ہے۔ ایک صبح، جب سورج کی روشنی نرمی سے زمین پر اتری، گردا اکیلی شہر سے باہر نکل پڑی۔ نہ اس کے پاس نقشہ تھا، نہ راستے کا علم، بس ایک سچا یقین اور محبت بھرا دل تھا۔ وہ دریا کے کنارے پہنچی۔ پانی چپ چاپ بہہ رہا تھا۔ گردا نے دریا سے کہا:’’کیا تم میرے کائی کو جانتے ہو؟ کیا تم اسے اپنے ساتھ بہا لے گئے ہو؟‘‘ پانی نے کوئی جواب نہ دیا۔ گردا نے اپنے پیروں سے چھوٹے سے جوتے اُتارے، وہی جوتے جو کائی کو بہت پسند تھے، اور انہیں دریا کے حوالے کر دیا اور کہا ’’اگر تم نے میرا دوست لیا ہے، تو اسے واپس کر دو۔ ‘‘
دریا نے جوتے لے لئے مگر کائی واپس نہ آیا۔
گردا رو پڑی۔ اس کے آنسو دریا میں گرے، اور دریا نے اسے ایک چھوٹی سی کشتی دی جو اسے آہستہ آہستہ آگے بڑھانے لگی، جیسے کسی ان دیکھے ہاتھ نے اسے راستہ دکھایا ہو۔ کچھ دیر بعد، کشتی ایک خوبصورت باغ کے پاس رُک گئی۔ یہ باغ ہر موسم سے آزاد تھا۔ یہاں پھول ہمیشہ کھلے رہتے، درخت ہمیشہ سبز رہتے، اور ہوا میں ایک میٹھی سی خوشبو بسی رہتی۔ یہ تھا پھولوں کی جادوگرنی کا باغ۔ ایک نازک سی عورت، جس کے بال پھولوں کی طرح رنگین تھے، گردا کے پاس آئی۔ اس کی آواز نرم تھی، جیسے لوری۔
’’تم تھکی ہوئی ہو، پیاری بچی، ‘‘ اس نے کہا۔ ’’یہاں رُک جاؤ۔ میں تمہاری دیکھ بھال کروں گی۔ ‘‘
جادوگرنی نے گردا کے بالوں میں کنگھی کی، اور اسی لمحے، ایک خاموش جادو ہوا۔ گردا کو کائی یاد ہی نہ رہا۔
دن گزرتے گئے۔ گردا باغ میں کھیلتی، پھولوں سے باتیں کرتی، اور خوش رہتی۔ اسے کوئی غم نہ تھا، کوئی فکر نہ تھی۔ مگر ایک دن، اس کی نظر ایک سرخ گلاب پر پڑی۔ وہ ٹھٹک گئی۔ ’’یہ پھول؟‘‘ اس کے دل میں ایک ہلکی سی کسک اُبھری۔ گردا کو یاد آیا، گلاب، چھت اور کائی۔ اس کا دل زور سے دھڑکا۔ ’’میں یہاں کیوں ہوں ؟‘‘ اس نے خود سے پوچھا۔ ’’میں کائی کو ڈھونڈنے نکلی تھی!‘‘اُسی لمحے، تمام پھولوں نے سر جھکا لیا، جیسے وہ کوئی راز چھپا رہے ہوں۔ گردا نے ایک ایک پھول سے پوچھا، اور آخرکار اسےمعلوم ہوا کہ جادوگرنی نے اسے بھلانے کا جادو کیا تھا۔ گردا روئی، مگر یہ آنسو کمزوری کے نہیں تھے۔ یہ یاد کے آنسو تھے۔ محبت کے آنسو تھے۔ اس نے باغ کو الوداع کہا، اور آگے چل پڑی۔ اب وہ اکیلی تھی، مگر اس کا دل پہلے سے زیادہ مضبوط تھا۔
گردا کئی دنوں تک چلتی رہی۔ جنگل پیچھے رہ گیا، راستے بدلتے گئے اور آخرکار وہ ایک بڑے شہر کے دروازے پر پہنچی۔ یہ شہر چمکتے ہوئے میناروں، سنگِ مرمر کے فرش اور کھلے دروازوں والا تھا۔ گردا نے سوچا ’’شاید کائی یہاں ہو کیونکہ اگر وہ زندہ ہے تو کہیں نہ کہیں ضرور ہوگا۔ ‘‘ اسے معلوم ہوا کہ اس شہر میں ایک نوجوان شہزادی رہتی ہے جو بہت ذہین تھی۔ وہ شادی کرنا چاہتی تھی، مگر صرف اس شخص سے جو دانا، سچا اور دل سے بات کرنے والا ہو۔ گردا محل میں پہنچی۔ اس کے کپڑے سادہ تھے، مگر اس کی آنکھوں میں سچائی تھی۔ محل کے دربان اسے دیکھ کر رُک گئے، مگر شہزادی نے گردا کی بات سنی۔
گردا نے کہا:’’میں ایک لڑکے کو ڈھونڈ رہی ہوں۔ اس کا نام کائی ہے۔ اس کا دل اچھا ہے مگر وہ کھو گیا ہے۔ ‘‘
شہزادی نے نرمی سے مسکرا کر کہا:’’شاید وہی لڑکا ہو جو یہاں آیا تھا، بہت عقلمند مگر عجیب طرح سے سرد۔ ‘‘
گردا کا دل زور سے دھڑکا۔ مگر جب شہزادہ سامنے آیا، تو وہ کائی نہ تھا۔ گردا کی آنکھوں میں آنسو آ گئے مگر شہزادی نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔ ’’غم نہ کرو۔ جو سچے دل سے ڈھونڈتا ہے، وہ کبھی اکیلا نہیں ہوتا۔ ‘‘
شہزادی اور شہزادے نے گردا کی مدد کی۔ انہوں نے اسے گرم کپڑے، ایک سنہری گاڑی، اور ایک چھوٹا سا صندوق دیا جس میں سفر کیلئے ضروری چیزیں تھیں۔
شہزادی نے کہا’’تمہاری محبت بہت مضبوط ہے۔ یہ تمہیں برف کے دیس تک لے جائے گی۔ ‘‘
جب گردا محل سے نکلی، تو اس کا دل ہلکا تھا۔ اسے کائی نہ ملا تھا، مگر اسے یقین ملا تھا، اور مہربانی ملی تھی۔ مگر راستہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔ جلد ہی سنہری گاڑی جنگل میں داخل ہوئی جہاں اندھیرا تھا۔ درختوں کے سائے لمبے تھے، ہوا میں خطرہ تھا۔ اچانک، جنگل سے ڈاکو نکل آئے۔ گاڑی رک گئی۔ گردا کو قید کر لیا گیا۔
اور کہانی نے ایک نیا موڑ لیا…
جنگل کے بیچ جہاں درخت آپس میں سرگوشیاں کرتے تھے اور رات جلد اُتر آتی تھی، ڈاکوؤں کا ٹھکانہ تھا۔ وہاں آگ جل رہی تھی، اور اس کے گرد سخت دل لوگ بیٹھے تھے۔ گردا کو ایک موٹی رسی سے باندھ دیا گیا تھا۔ اس کا دل ڈرا ہوا تھا لیکن آنکھوں میں آنسو نہیں تھے۔ کیونکہ اس کے دل میں ایک ہی نام تھا: کائی۔
اچانک ایک تیز آواز آئی:’’یہ لڑکی میری ہے!‘‘
یہ ایک ننھی سی لڑکی کی آواز تھی جس میں کسی تلوار سے زیادہ کاٹ تھی۔ وہ تھی ڈاکو لڑکی۔ اس کے بال بکھرے ہوئے تھے، آنکھیں چمک رہی تھیں، اور کمر پر چھری لٹک رہی تھی۔ اس نے گردا کو کھولا اور کہا:’اگر تم اچھی ثابت ہوئیں تو زندہ رہو گی۔ ‘‘گردا نے ڈرتے ہوئے مگر سچائی سے کہا:’’میں اپنے دوست کو ڈھونڈ رہی ہوں۔ وہ برف کی ملکہ کے ساتھ چلا گیا ہے۔ ‘‘
ڈاکو لڑکی ہنسی۔ ’’برف کی ملکہ؟ وہ تو یہاں سے بہت دور شمال میں رہتی ہے۔ بہت دور۔ ‘‘ یہ سن کر گردا کے دل میں اُمید جاگ اٹھی۔
؎اسی ٹھکانے میں کئی جانور قید تھے، ایک ہرن، ایک کبوتر، اور دوسرے معصوم جانور۔ ان سب نے گردا کی بات سنی۔ ہرن نے آہستہ سے کہا:’’میں جانتا ہوں وہ جگہجہاں سب کچھ برف کا ہے، اور دل جم جاتے ہیں۔ ‘‘
ڈاکو لڑکی نے کچھ دیر سوچا، پھر اچانک کہا:’’میں تمہیں جانے دوں گی!‘‘ اس نے گردا کو گرم کپڑے دیئے، اور ہرن کو آزاد کر تے ہوئے کہا ’’یہ تمہیں وہاں لے جائے گا۔ ‘‘ گردا نے اس کی طرف دیکھا، وہی لڑکی جو کچھ دیر پہلے خطرہ لگ رہی تھی، اب مہربان بن چکی تھی۔ گردا نے اسے گلے لگایا۔ ’’تم بہت اچھی ہو۔ ‘‘
ڈاکو لڑکی نے منہ موڑ لیا۔ ’’میں اچھی نہیں ہوں، بس تم مختلف ہو۔ ‘‘ ہرن دوڑا، برف اُڑتی گئی، اور گردا شمال کی طرف روانہ ہو گئی، اس طرف جہاں آسمان نیلا نہیں، سفید ہوتا ہے۔ ہرن گردا کو لئے شمال کی طرف دوڑتا رہا۔ ہوا کاٹ دار تھی، برف سوئیوں کی طرح چبھتی تھی، اور راتیں بہت لمبی تھیں۔ مگر گردا کے دل میں جو آگ جل رہی تھی، وہ سردی سے کہیں زیادہ طاقتور تھی۔
آخرکار وہ ایک چھوٹے سے جھوپڑے تک پہنچے۔
یہ تھا لاپلینڈ کی عورت کا گھر۔ وہ عورت جھریوں بھری مگر دانا تھی۔ اس نے گردا کو گرم دودھ پلایا، آگ کے پاس بٹھایا، اور اس کی کہانی سنی۔ لاپلینڈ کی عورت نے کہا: ’’میں تمہیں برف کی ملکہ کے محل تک پہنچنے میں مدد تو کر سکتی ہوں، مگر طاقت نہیں دے سکتی۔ ‘‘
اس نے ایک پیغام خشک مچھلی کے ٹکڑے پر لکھا، کیونکہ وہاں کاغذ نہیں تھا، اور ہرن کو آگے بھیج دیا۔
کچھ ہی دیر بعد وہ فن لینڈ کی دانا عورت کے پاس پہنچے۔ اس کا گھر سادہ تھا، مگر اس کی آنکھوں میں گہری سمجھ تھی۔ گردا نے پوچھا:’’کیا آپ مجھے ایسی طاقت دے سکتی ہیں جس سے میں کائی کو بچا سکوں ؟‘‘
دانا عورت مسکرائی، ’’تمہارے پاس پہلے ہی سب سے بڑی طاقت موجود ہے۔ ‘‘
گردا حیران ہوئی، ’’میرے پاس؟‘‘
دانا عورت نے کہا:’’ہاں۔ تمہاری معصوم محبت۔ تمہاری بےغرض دعا۔ اگر میں تمہیں کوئی اور طاقت دوں، تو تم کمزور ہو جاؤ گی۔ ‘‘ اس نے گردا کی طرف دیکھا اور نرمی سے کہا:’’برف کی ملکہ کی طاقت عقل کی سردی ہے۔ تمہاری طاقت دل کی گرمی ہے۔ ‘‘
یہ سن کر گردا کو خوف نہ رہا۔
ہرن نے اسے آخری مقام تک پہنچایا، برف کے طوفان کے دہانے پر۔ اب باقی سفر گردا کو اکیلے طے کرنا تھا۔ مگر وہ اکیلی نہیں تھی۔ اس کے ساتھ اس کی محبت تھی۔
برفانی طوفان کے بیچ، جہاں ہوا چیختی تھی اور زمین آسمان ایک ہو جاتے تھے، گردا آگے بڑھتی رہی۔ اس کے ننھے قدم کانپتے تھے، مگر دل ثابت قدم تھا۔ وہ اپنے ہاتھ جوڑ کر دعا پڑھتی جاتی، اور دعا کی گرمی اسے سردی سے بچاتی رہی۔ آخرکار وہ برف کے محل تک پہنچ گئی۔
یہ ایک عجیب محل تھا، دیواریں شفاف برف کی تھیں، چھت شمالی روشنی سے بنی تھی، اور خاموشی ایسی تھی جیسے آواز نے بھی سانس روک رکھی ہو۔ محل کے بیچوں بیچ کائی بیٹھا تھا۔ وہ اکیلا تھا، سرد، اور بےحس۔ اس کی آنکھوں میں چمک تھی، مگر وہ زندگی کی نہیں ، وہ آئینے کی چمک تھی۔ وہ برف کے ٹکڑوں سے ایک لفظ بنانے کی کوشش کر رہا تھا:’’ہمیشہ۔ ‘‘
اگر وہ یہ لفظ مکمل کر لیتا، تو وہ ہمیشہ کیلئے برف کی ملکہ کا ہو جاتا۔ گردا دوڑی، لڑکھڑائی، اور کائی کے پاس جا پہنچی۔ ’’کائی!‘‘ اس نے پکارا۔
مگر کائی نے سر نہ اٹھایا۔ گردا اس کے سامنے بیٹھ گئی، اس کے سرد ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لیا، اور رونے لگی۔ یہ آنسو عام آنسو نہیں تھے۔ یہ محبت کے آنسو تھے۔ یاد کے آنسو تھے۔ ایک آنسو کائی کے سینے پر گرا،
اور اس کے دل میں پھنسے آئینے کا ٹکڑا پگھل گیا۔
دوسرا آنسو اس کی آنکھ میں گرا، اور آئینے کا ٹکڑا بہہ گیا۔ کائی نے گردا کو دیکھا۔
’’گردا؟‘‘ اس کی آواز کانپ رہی تھی۔
اس نے اسے گلے لگا لیا، اور دونوں رونے لگے، اتنا روئے کہ برف کے ٹکڑے بھی پگھل گئے۔
اسی لمحے، برف کی ملکہ داخل ہوئی۔ وہ شاندار تھی، سرد تھی، مگر اب طاقتور نہ رہی۔ محبت کے سامنے اس کی سردی بےبس تھی۔ کائی اور گردا محل سے باہر نکل آئے۔ برفانی طوفان تھم گیا، اور راستے خود بخود کھلتے گئے۔
وہ چلتے رہے، یہاں تک کہ بہار نے ان کا استقبال کیا۔ جب وہ اپنے شہر واپس پہنچے، تو سب کچھ ویسا ہی تھا، چھت، گملے، اور گلاب۔ مگر وہ خود بدل چکے تھے۔
وہ بچے نہیں رہے تھے، بڑے ہو چکے تھے۔ اور پھر بھی، ان کے دل بچے ہی تھے۔ کیونکہ جس دل میں ہو وہ کبھی بوڑھا نہیں ہوتا۔