Inquilab Logo

ایک رات

Updated: December 13, 2019, 9:25 PM IST | Balwant Singh

ہم نے دیکھا کہ دروازے کے باہر سچ مچ کوئی آدمی کھڑا تھا۔ اس نے بنیان پہن رکھا تھا۔ اس کے اوپر اس کے سینے پر سے ہو کر نیچے کو جاتی ہوئی چمڑے کی پیٹی چمک رہی تھی۔ وہ زور زور سے دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا۔

اس شخص کے ہاتھ میں پستول دیکھ کر ہم ڈرگئے۔
اس شخص کے ہاتھ میں پستول دیکھ کر ہم ڈرگئے۔

ریل گاڑی رات کے گیارہ بجے چلنے والی تھی۔ میں نے ساڑھے ۱۰؍ بجے ہی فرسٹ کلاس کے ڈبّے میں ایک سرے والی نچلی سیٹ پر بستر لگا دیا۔ میں ہمالیہ کی ترائی میں شکار کے لئے جا رہا تھا، اس لئے میری دو نالی بندوق اور رائفل میرے پاس تھیں، جنہیں میں نے اپنے پہلو میں بستر کے نیچے چھپا دیا تھا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ ناحق دوسروں کی ان پر نظر پڑے۔
 اِس ڈبّے میں کل پانچ برتھ تھیں۔ ایک میرے اوپر والی، دوسری میری داہنی طرف ڈبے کے بیچوں بیچ، تیسری دوسرے سرے پر، چوتھی، تیسری کے اوپر۔ ایک دروازہ میرے پاؤں کی طرف کھلتا تھا، اور دوسرا دروازہ تیسری برتھ کے قریب کھلتا تھا۔ باتھ روم میرے پاؤں کی طرف تھا.... پانچویں برتھ میری اپنی تھی۔ اِن سیٹوں کی یوں تفصیل بیان کرنے کا بھی ایک سبب ہے۔
 میں بستر پر آرام سے دراز ہوگیا۔ باقی مسافر، جنہوں نے اس ڈبّے میں اپنی برتھ ریزرو کروا رکھی تھی، رفتہ رفتہ آنے لگے۔ میرے اوپر والی سیٹ پر پھولے پیٹ اور گچھے دار مونچھوں والے کوئی صاحب تھے۔ بیچ والی سیٹ پر کوئی کاروباری قسم کے انسان تھے۔ تیسری سیٹ کے مالک گورے چٹے رنگ کے کھاتے پیتے رئیس نظر آتے تھے۔ چوتھی سیٹ پر کس کر بندھی ہوئی ڈاڑھی والے لمبے تڑنگے سردار جی تھے۔
 گاڑی کے چلنے کا وقت ہوگیا تو گارڈ نے سیٹی دے دی۔ گاڑی کے بھاری بھرکم پہیوں کو حرکت ہوئی۔ تھوڑی دیر بعد گاڑی مزے میں ہچکولے لینے لگی۔ یوں محسوس ہوا جیسے میں پنگوڑے میں لیٹا ہوا ننھا سا بچہ ہوں۔ تھوڑی ہی دیر بعد نیند آگئی۔ عجیب بات ہے کہ گھر میں معمولی شور بھی ہو تو نیند کوسوں دور بھاگ جاتی ہے لیکن ریل گاڑی میں ٹانگیں پسارنے کو جگہ مل جائے تو انسان گاڑی کی گڑگڑاہٹ سے بے نیاز مزے کی نیند سو جاتا ہے۔
 اچانک میری نیند ٹوٹ گئی۔ میں نے ادھ کھلی آنکھیں ادھر اُدھر دوڑائیں، لیکن کوئی غیر معمولی بات دکھائی نہیں دی۔ گاڑی مقررہ رفتار پر چلی جا رہی تھی۔ سب مسافر سو رہے تھے۔ غسل خانے کی بتّی جان بوجھ کر روشن چھوڑ دی گئی تھی۔ وہاں کے دروازے کے اوپر سے روشنی نکل کر پھیلی ہوئی تھی۔ ڈبّے کی فضا خوابناک ہو رہی تھی۔ میں نے محسوس کیا کہ میں چند گھنٹہ گہری نیند سو چکا ہوں۔
 اتنے میں تیسری برتھ کا گورا چٹا مسافر اٹھا۔ وہ میرے پاؤں کی طرف غسل خانے کے دروازے کی طرف بڑھا۔ اندر گھس کر اس نے دروازہ بند کر لیا۔ باقی سب مسافر پڑے سوتے رہے۔ کچھ دیر کے بعد مسافر نمبر ۳؍ غسل خانہ میں سے باہر نکلا۔ میں پھر آنکھیں بند کرکے سونے ہی کو تھا کہ وہ مسافر اپنی سیٹ کی جانب بڑھتے بڑھتے ایک دم رک گیا۔ مجھے تعجب ہوا۔ میں چپ چاپ لیٹے لیٹے اس کی طرف دیکھتا رہا۔ وہ میری برتھ کی پائنتی کی جانب گاڑی کے دروازے کو ٹکٹکی باندھے گھور رہا تھا۔
 چندلمحے اسی طرح گزر گئے۔ پھر وہ ایک دم بول اٹھا، ’’تم کون ہو؟‘‘
 یہ سوال وہ کس سے کر رہا تھا؟ کمرے میں اور کوئی تو جاگ نہیں رہا تھا۔ لیکن اس مسافر کی آنکھیں پھیل گئی تھیں۔ اس کے نتھنے پھڑک رہے تھے۔ چہرے پر ہیجان کے آثار تھے۔ میں نے سوچا کہ کہیں یہ پاگل تو نہیں ہے۔
 پھر وہ جھپٹ کر اپنے تکیے کے نیچے سے ایک پستول نکال لایا، اور اس کی نالی کا رخ دروازے کی طرف کرکے پہلے سے بھی زیادہ اونچی آواز میں بولا، ’’کون ہو تم؟‘‘
 اب مجھ سے نہ رہا گیا۔ میں کہنیاں بستر پر ٹیک کر اوپر کو اٹھا اور پوچھا، ’’کیا بات ہے؟‘‘
 اس نے میری طرف دیکھے بغیر جواب دیا، ’’دروازے کے باہر کوئی ڈاکو کھڑا ہے۔ اس کے ہاتھ میں پستول ہے۔ گلے میں چمڑے کی پیٹی ہے۔‘‘
 میں نے بٹن دبا کر بڑا بلب روشن کر دیا۔ اس شور سے دوسرے مسافر بھی ایک ایک کرکے جاگ اٹھے۔ ہم نے دیکھا کہ دروازے کے باہر سچ مچ کوئی آدمی کھڑا تھا۔ اس نے بنیان پہن رکھا تھا۔ اس کے اوپر اس کے سینے پر سے ہو کر نیچے کو جاتی ہوئی چمڑے کی پیٹی چمک رہی تھی۔ وہ زور زور سے دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا۔
 مسافر نمبر ۳؍ نے کہا، ’’اس کے ہمراہ ضرور اس کے ساتھی بھی گاڑی سے لٹکے ہوں گے۔‘‘
 ہم پانچوں مسافر صلاح مشورہ کرنے لگے کہ اب اس سلسلے میں کیا قدم اٹھایا جائے۔ گاڑی کی زنجیر کھینچ دیں، یا دروازہ کھول دیں.... آخر ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ ہم تعداد میں پانچ ہیں، ہمارے پاس دو پستول، ایک بندوق اور ایک رائفل موجود ہے۔ کیوں نہ دروازہ کھول دیا جائے۔ اگر ہم دروازہ تھوڑا سا کھولیں گے تو ایک دم سب ڈاکو دندناتے ہوئے اندر نہیں چلے آئیں گے۔ اگر وہ ہم پر حملہ بولیں گے تو ہم بھی گولیاں چلا دیں گے۔
 چنانچہ مسافر نمبر ۴؍ یعنی سردار جی اپنا پستول تان کر دروازے کی اوپر والی سیٹ پر ڈٹ گئے۔ میں نے اپنی بندوق مسافر نمبر ۲؍ کو دے دی اور رائفل خود سنبھال لی۔ مسافر نمبر ۳؍ پہلے ہی کی طرح پستول لئے دروازے کے سامنے کھڑا رہا۔ مسافر نمبر ۵؍ زنجیر کے پاس کھڑا ہوگیا، تاکہ ضرورت پڑنے پر فوراً زنجیر کھینچ دے۔
 اس طرح تیار ہوکر پروگرام کے مطابق مسافر نمبر ۳؍ نے دروازہ کھول دیا۔ ہم سب کارروائی کرنے کو بالکل تیار تھے۔
 دروازے کے آگے ایک سہما ہوا آدمی کھڑا تھا۔ اس کے گلے میں تھرمس کی بوتل کی پیٹی تھی۔ ہم نے باہر جھانکا۔ اس کا کوئی ساتھی نظر نہیں آیا۔
 نووارد نے بتایا کہ پچھلے اسٹیشن پر وہ تھرمس میں چائے بھروانے کے لئے اترا تھا۔ چائے لیتے تک گاڑی چل دی۔ ہمارا ڈبہ اس کے سامنے سے گزرا۔ وہ اسی پر لٹک گیا۔ اس نے سوچا تھا کہ اگلا اسٹیشن جلد ہی آجائے گا، لیکن جب اس کے بازو تھک گئے تو اس نے دروازہ پیٹنا شروع کر دیا۔ ہمارے پستول، رائفل، بندوق دیکھ کر اس کی گھگھی بندھ گئی۔ الٹے ہم ہی اسے تسلیاں دینے لگے۔ وہ اگلے اسٹیشن پر اتر گیا۔
 آج بھی اس رات کا خیال آتا ہے تو رونگٹے بھی کھڑے ہوجاتے ہیں اور ہنسی بھی آتی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK