Inquilab Logo

موتی سیپ کے اندر بنتا ہے مگر یہ جانتے ہیں کہ کیسے بنتا ہے؟

Updated: December 03, 2021, 7:30 AM IST | Mumbai

موتی ایک قیمتی شے ہے۔ سائنس اور تکنالوجی نے اب ایسی مشینیں ایجاد کرلی ہیں جن کی مدد سے موتی بنانا آسان ہوگیا ہے لیکن جو موتی قدرتی طور پر بنتے ہیں ، بازار میں ان کی مانگ بہت زیادہ ہوتی ہے۔

Representation Purpose Only- Picture INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

موتی ایک قیمتی شے ہے۔ سائنس اور تکنالوجی نے اب ایسی مشینیں ایجاد کرلی ہیں جن کی مدد سے موتی بنانا آسان ہوگیا ہے لیکن جو موتی قدرتی طور پر بنتے ہیں ، بازار میں ان کی مانگ بہت زیادہ ہوتی ہے۔ آج اصلی اور نقلی موتیوں میں فرق کرنا کافی مشکل ہوگیا ہے۔ تاہم، آج بھی لوگ اصلی موتی ہی خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ آپ یقیناً جانتے ہوں گے کہ موتی سیپ کے اندر بنتا ہے لیکن کیا آپ اس کے بننے کے عمل سے واقف ہیں ؟
 یہ قیمتی شے آئسٹرنامی گھونگا تیار کرتا ہے جو حیوانات کے ایک زمرے مولسک کا رکن ہے۔ مولسک تقریباً ۵۳۰؍ ملین سال قبل وجود میں آئے تھے۔ موتی کی ایک خوبی یہ ہے کہ یہ اپنی اصل حالت ہی میں نہایت دلکش ہوتا ہے جبکہ دیگر پتھروں کو تراش اور پالش کرکے خوبصورت بنایا جاتا ہے۔ گھونگا جسے کستوری مچھلی بھی کہتے ہیں ، دو طرح کا ہوتا ہے۔ سادہ آئسٹر اور پرل آئسٹر۔ 
 سادہ آئسٹر کا استعمال کئی ملکوں میں غذا کے طور پر کیا جاتا ہے جبکہ پرل آئسٹر کی سیپیوں کے اندر موتی بنتا ہے۔ اس کا جسم نرم ہوتا ہے اور وہ سخت خول جو آپس میں ایک دوسرے سے جڑے رہتے ہیں ، کے اندر بند رہتا ہے۔ پرل آئسٹر عام طور پر گہرے پانی میں نہیں ملتا بلکہ اتھلے پانی میں سمندری سطح پر کسی چٹان یا ٹھوس سطح پر اپنا گھر بنا لیتا ہے اور لمبے عرصہ تک ایک ہی جگہ قیام کرتا ہے۔ پرل آئسٹر کی اہمیت موتی کی وجہ سے ہے۔ 
 قدیم لوک گیتوں اور کہانیوں میں یہ تصور تھا کہ موتی دراصل سمندری پریوں کے آنسو ہیں ۔ یہ خیال بھی تھا کہ آئسٹر کے کھلے ہوئے منہ میں شبنم کی یا پانی کی بوندیں گرنے سے موتی بنتا ہے۔
  سلطنت روم کے معروف ماہر نباتات اور فلسفی پلینی دوم نے اپنی کتاب نیچرل ہسٹری میں لکھا ہے کہ موسم بہار میں سیپ اپنے خول میں شبنم جذب کرتا ہے اور یہی شبنم بعد میں موتی میں تبدیل ہو جاتی ہے مگر سائنس نے اسے عملی طور پر پرکھا اور پھر یہ نتیجہ برآمد کیا ہے کہ: موتی دراصل اس وقت بنتا ہے جب ریت کے ذرات، معمولی کیڑے مثلاً سسٹوڈ یا ٹری مے ٹوڈ کے لاروے، سمندری پودے کے ذرات، بانس یا لکڑی کے ذرات وغیرہ باہر سے خول کے اندر پہنچتے ہیں تو یہ رفتہ رفتہ موتی میں بدل جاتے ہیں ۔ ہوتا یوں ہے کہ جب باہر سے کوئی شے پرل آئسٹرکے اندر پہنچتی ہے تو پرل آئسٹر بے چین ہوجاتا ہے اور اپنی حفاظت کی خاطر کیلشیم کاربونیٹ اور دیگر کاربن مادوں کا اخراج کرنے لگتا ہے، اور انہیں اس شے پر ایک پرت کی مانند چڑھانے لگتا ہے تاکہ وہ اسی میں قید ہو کر رہ جائے اور اسے کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں ۔ کیلشیم کاربونیٹ یا کاربن مادوں کو’’ نیکر‘‘کہتے ہیں ۔ اسی سے خول کا اندرونی حصہ بنتا ہے جو نہایت چمکدار ہوتا ہے، بالکل موتی کی طرح۔ اسی نیکر کو ’’مدر آف پرل‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ باہری شے پر اسی مدر آف پرل کی پرت چڑھتی جاتی ہے اور پھر آخر کار یہ شے موتی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔پرل آئسٹر ایک انتہائی سخت سمندری کیڑا ہوتاہے۔ اس کے دونوں بازوؤں پر کچھوے کی طرح سخت ہڈی کی ڈھال ہوتی ہے، جس کے ذریعہ یہ دوسرے جانوروں سے محفوظ رہتا ہے۔ یہ پانچ برس میں جوان ہوتا ہے۔بارش کے دنوں میں سطح پر آتا ہے۔ یہ ایک خاص طرح کا جالا بن کر مکڑے کی طرح خود کو کسی محفوظ مقام پر اَڑا لیتا ہے جس کی وجہ سے وہ ایک جگہ ٹھہرا رہتا ہے۔
 خلیج فارس، آسٹریلیا، شمالی روس، بحیرۂ قلزم، جاپان، امریکہ، فن لینڈ، انڈونیشیا،سویڈن، آبنائے قسطنطنیہ، سری لنکا اور عراق کے سمندر موتیوں کی پیدائش کیلئے مشہور ہیں ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK