Inquilab Logo Happiest Places to Work

صدیوں کی رفاقت ہے برسوں میں نہ ٹوٹے گی!

Updated: June 21, 2025, 1:45 AM IST | Shahid Latif | Mumbai

ایران و ہندکا ثقافتی رشتہ بہت مضبوط رہا ہے، خاص طور پر اُردو اور فارسی میں جو رفاقت ہے اُس کی عمر بھی خاصی ہے۔ اہل اُردو نے فارسی پڑھنا بھلے ہی ترک کردیا ہو مگر اس میں نہ اُردو کا نقصان ہے نہ فارسی کا۔

The cultural ties between Iran and India have been very strong.
ایران و ہندکا ثقافتی رشتہ بہت مضبوط رہا ہے

ایران کے بارے میں سوچتا ہوں تو فارسی زبان، اس زبان کے اشعار اور ضرب الامثال، اس کے عظیم المرتبت شعراء اور زبانِ اُردو پر اس کے اثرات کا تصور اُبھرتا ہے۔ چند دہائی پہلے تک اُردو تہذیب میں فارسی اس طرح رچی بسی ہوئی تھی کہ زبانِ فارسی کو اُردو سے الگ  نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اب بھی نہیں کیا جاسکتا۔ شستہ اور معیاری اُردو بولنے یا لکھنے کیلئے فارسی الفاظ کا استعمال ناگزیر تھا، اب بھی ہے۔ فارسی کے اثرات ہندوستانی یا ہندی بولنے والوں کے ہاں بھی پائے جاتے ہیں۔ اُردو رسم الخط سے واقفیت نہ ہونے کے باوجود اُن کی گفتگو میں فارسی الفاظ کچھ اس طرح در آتے ہیں جیسے دروازہ بند کردیا جائے تو اس کی درازوں سے ہوا اندرداخل ہوجاتی ہے۔ گزشتہ دنوں ’’یو ٹیوب‘‘ پر ایک سیاسی مبصر نے ہندی میں اظہارِ خیال کے دوران ’’خدانخواستہ‘‘ کچھ ایسی روانی سے کہہ دیا کہ مجھے حیرت نہیں ہونی چاہئے تھی مگر ہوئی اور مَیں سوچ میں پڑگیا کہ یہ شخص ہرگز نہ جانتا ہوگا کہ تین مفرد الفاظ (خدا+نا+خواستہ) فارسی سے مستعار ہیں مگر اِن الفاظ کی ادائیگی میں اُسے بالکل بھی تامل نہیں ہوا۔ اُردو والے کسی میٹنگ کے بے نتیجہ ہونے پر اکثر نشستن، گفتن، برخاستن کا فقرہ ادا کرتے ہیں یا کسی صاحب کے بھرپور تعاون کے پیش نظر اظہار تشکر کے دوران ’’دامے، درمے، قدمے، سخنے‘‘ کہتے ہیں۔ ’’نشستن و گفتن‘‘ بھی فارسی اور ’’دامے درمے‘‘ وغیرہ بھی فارسی ہے۔ دور کیوں جائیں ’’خوش آمدید‘‘ بھی تو فارسی ہی ہے اور خوشامد؟ چاہے کوئی کرے، خوشامد بھی فارسی ہے۔ ایسے الفاظ کی تعداد سیکڑوں کیا ہزاروں میں ہے جو زبان زدِ خاص و عام ہیں مگر کم ہی لوگ ہیں جو اُن کی اصل سے یا اُن کے مآخذ سے واقف ہیں۔ 
   ایران کے بارے میں سوچتا ہوں تو فارسی زبان کے علاوہ کئی ایسے کردار بھی یاد آتے ہیں جن کا تذکرہ اُردو کتابوں میں گزر چکا ہے۔ مثال کے طور پر ’’جوابِ شکوہ‘‘ میں اقبال نے کہا تھا: 
تخت فغفور بھی اُن کا تھا سریر کَے بھی
یوں ہی باتیں ہیں کہ تم میں وہ حمیت ہے بھی؟
اس میں پہلے مصرعے میں آنے والا لفظ ’’کے‘‘ (Kai، ہے، شےیا طے کے وزن پر ہے) کیا ہے؟ یہ لفظ جہاں جہاں بھی اُردو شاعری میں تلمیح کے طور پر آیا ہے وہاں وہاں اس سے مراد قدیم ایران کا بادشاہ کیقباد ہے جس کا مخفف کَے ہے، مخفف کے سبب کہنے سننے میں آسانی بھی ہے اور کَے کا اصل معنی بڑا بادشاہ بھی ہوتا ہے۔ اسی طرح غالبؔ کا مشہور مصرعہ ہے: ’’جامِ جم سے یہ مرا جام سفال اچھا ہے‘‘۔  اس میں جم کون ہے؟ یہ بھی قدیم ایران کا بادشاہ گزرا ہے۔ اس کا نام جمشید ہے مگر بطور مخفف جم (ج پر زبر) کہا جاتا ہے۔ مشہور ہے کہ جمشید اپنے جام (پیالے) پر نظر ڈال کر علم نجوم کے ذریعہ دُنیا کے حالات و واقعات نیز آئندہ واقعات کا پتہ لگایا کرتا تھا۔ اسی طرح ایک اور نام اُردو کتابوں میں آتا رہا ہے وہ ہے: دارا۔ یہ دارا کون تھا؟ حیدر علی آتش کی مشہور غزل کا شعر ہے:
نہ گور ِ سکندر نہ ہے قبر دارا=مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
دارا بھی قدیم ایران کا بادشاہ تھا جو صرف بارہ سال کی عمر میں تخت پر بیٹھا تھا۔ سنتے ہیں کہ اس کے تاج میں بیش قیمت جواہرات جڑے ہوئے تھے، شاہی خاندان کے ہر فرد کی خواہش ہوتی تھی کہ اس تاج کو سر پر رکھنے کی سعادت اُسے حاصل ہو۔ اقبال نے اپنی مشہور نظم ’’خطاب بہ جوانان مسلم‘‘ میں دارا کا اس طرح تذکرہ کیا ہے؟
تجھے اُس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبّت میں
کُچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاجِ سر ِ دارا
اس مضمون کے نوجوان قارئین کو اس واقعہ کا تجسس ہونا چاہئے کہ دارا کے تاج کو کس نے اور کب اپنے پیروں تلے روندا تھا۔کاش وہ کسی سے دریافت کریں یا کسی کتاب سے استفادہ کریں۔ 
 ایران کےبارے میں سوچتا ہوں تو حکیم ابو القاسم علی طوسی المعروف بہ فرودسی (جن کا شاہنامہ بہت مشہور ہے)، حافظ شیرازی،  سعدی شیرازی، عمر خیام، عرفی شیرازی، فرید الدین عطار نیشا پوری اور نظامی گنجوی کے نام فوری طور پر ذہن میں آتے ہیں۔ اُردو نے ان فارسی شعراء سے بڑا کسب کیا ہے۔  مضمون کی طوالت کے پیش نظر یہاں صرف ایک شاعر (حافظ) کے کمالِ فن پر خود کچھ کہنے کے بجائے ایک انگریز اسکالر کی رائے نقل کررہا ہوں جو ’’مطالعہ ٔ حافظ‘‘ (مولوی احتشام الدین حقی دہلوی) نے اپنی کتاب (صفحہ ۶) میں درج کی ہے۔ لکھتے ہیں: ’’ایک انگریز مستشرق نے چند سال ہوئے ہم سے ذکر کیا تھا کہ اُن کے ایک ہم وطن کیمبرج میں سات برس سے دیوان حافظ کے مطالعہ میں مصروف ہیں اور اُن کا خیال ہے کہ حافظ کے کلام میں شیکسپیئر سے زیادہ کمالات پائے جاتے ہیں۔‘‘ اُردو معاشرہ میں دیوان حافظ سے فال نکالنے کی بات مشہور رہی ہے۔ 
  ایران کے بارے میں سوچتا ہوں تواس کے شہروں اور صوبوں کے نام بھی ذہن میں اُبھرتے ہیں جو اتنے خوب صورت ہیں کہ یاد آتے نہیں، یاد رہتے ہیں مثلاً خراسان، سیستان، طوس، مشہد، نیشا پور، خوزستان، تبریز، اصفہان، کاشان، یزد، قم اور دیگر۔ 
 ایران کے بارے میں سوچتا ہوں تو کیپٹن ڈاکٹر محمد شرف عالم (سابق صدر شعبہ فارسی، پٹنہ یونیورسٹی) کی کتاب ’’ایران (عہد قدیم کی سیاسی، ثقافتی و لسانی تاریخ) کے وہ جملے یاد آتے ہیں جو ذہن میں کہیں نہ کہیں محفوظ رہے کہ ’’ایران کی سڑکیں خوبصورت اور کشادہ ہیں جن کے دونوں کنارے چنار اور سرو کے درخت اور چہار راہوں (چوک) کے وسط میں فوارے اور باغ پُرکشش منظر پیش کرتے ہیں۔ آپ شہروں کے اندر میلوں میل پیادہ پا چلتے چلے جائیے لیکن سایۂ سرو سے کبھی محروم نہ ہوں گے۔‘‘ 
 ایران، دُنیا کی قدیم ترین ثقافتوں میں سے ایک ہے اور اس کے خلاف جو طومار باندھا جاتا ہے اور اب تو اس پر جنگ مسلط کردی گئی اُس کی درجنوں جیو پولیٹیکل اور اسٹراٹیجک وجوہات ہوسکتی ہیں مگر مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ایک وجہ اس کی بہت مستحکم ثقافت بھی ہے جو مغربی ملکوں کو کھٹکتی رہی ہے۔ یہاں کے عوام کی عزتِ نفس اور بہادری بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی اپنی صلاحیت و محنت پر بھروسہ کرنے کی عادت، دیکھئے کس طرح اسرائیل کو دن میں تارے دکھا دیئے!n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK