Inquilab Logo

اُن ادباء اور شعراء کو یاد رکھئے جن کی تخلیقات پڑھ کر آپ یہاں تک پہنچے

Updated: December 10, 2021, 7:00 AM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

طلبہ نے نصابی اور غیر نصابی کتابوں میں درج ذیل ادیبوں اور شاعروں کی کہانیاں اور نظمیں ضرور پڑھی ہوں گی، آپ کی ذہنی نشوونما میں ان کا اہم کردار ہے، انہیں فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

Bhiwandi Urdu Book Fair. (Photo: Inquilab)
بھیونڈی اردو کتاب میلہ۔ (تصویر: انقلاب)

انیسویں صدی کے وسط سے لے کر ۲۰؍ ویں صدی کے اواخر تک اردو ادب میں بچوں کیلئے بے شمار نظمیں اور کہانیاں تحریر کی گئیں ۔ آج بھی ادب اطفال میں تخلیقی کام ہورہے ہیں لیکن نصابی کتابوں کے ذریعے طلبہ ۱۹؍ ویں اور ۲۰؍ ویں صدی کے شاعروں اور ادیبوں کی تخلیقات پڑھ کر بڑے ہوتے ہیں ۔ اس دور میں بچوں کیلئے جو نظمیں اور کہانیاں لکھی جاتی تھیں ان میں تفریح تو ہوتی ہی تھی لیکن اس بات کا بھی خیال رکھا جاتا تھا کہ بچوں کی ذہنی پرورش صحیح نہج پر ہو۔کہانیوں اور نظموں کے ذریعے پیغام دیا جاتا تھا جس کا مقصد بچوں کو معاشرے کے تئیں حساس اور بیدار بنانا ہوتا تھا۔ 
 بچوں کی ذہنی تربیت کیلئے شروع ہی سے ان کی نفسیاتی ضرورتوں کے پیش نظر ایسے ادبی مواد کی فراہمی درکار ہوتی ہے جو ان کی ذہنی بالیدگی کا باعث بنے، ان کی زندگی کو سنوارے اور ایک اچھا انسان بننے میں ان کی مدد کرے۔ ادیبوں اور شاعروں کے کاموں سے بچوں کے اندر ادبی شعور پروان چڑھے۔ بچوں کیلئے کہانیاں اور نظمیں لکھنے سے پہلے اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ وہ ان کیلئے موزوں اور اپنے اندر ادبی لطافت اور دلچسپیاں رکھتی ہوں ۔
 بچے کسی بھی قوم کی امانت ہوتے ہیں جس کا تحفظ معاشرے کے ہر فرد پر واجب ہوتا ہے لیکن صرف قیمتی کھلونے، عمدہ لباس اور غذا کی فراہمی سے ان کا تحفظ یا معیار زندگی بہتر نہیں بنایا جاسکتا بلکہ ان کی ذہنی اور جسمانی نشوونما کیلئے انہیں ایسی کتابیں بھی دی جانی چاہئیں جن سے ان کا ذہن تعلیم اور ایک اچھاشہری بننے کی جانب مائل ہو۔
 ہر طالب علم اس سوال کا جواب آسانی سے دے سکتا ہے کہ اس کا پسندیدہ شاعر یا ادیب کون ہے ، کیونکہ بچپن ہی سے انہیں کتابوں کے ذریعے ادباء و شعراء سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کم از کم دسویں یا بارہویں جماعت تک طلبہ زباندانی کے مضامین کے ذریعے ان سے وابستہ رہتے ہیں ۔ بیشتر طلبہ نصابی کتابوں میں پڑھائے جانے والے مضامین، کہانیوں ، نظموں اور غزلوں تک محدود رہ جاتے ہیں تو کئی غیر نصابی کتب کا بھی سہارا لیتے ہیں ، اور شاعروں اور مصنفین کے متعلق معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ویسے تو کئی ادیب اور شاعر ہیں جن کی تخلیقات طلبہ کی ذہنی نشو ونما میں معاون ثابت ہوتی ہیں لیکن اس مضمون میں ان میں سے چند کے بارے میں بتایا گیا ہے۔
الطاف حسین حالی 
 الطاف حسین حالی کی پیدائش ۱۸۳۷ء میں پانی پت میں ہوئی تھی۔ ان کے والد کا نام خواجہ ایزد بخش تھا۔ حالی بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ ابھی ۹؍ برس کے بھی نہ ہوئے تھے کہ والد کا انتقال ہوگیا۔ ماں پہلے ہی بیمار تھیں ۔ اب ان کی تربیت اور دیکھ بھال کا فرض بڑے بھائی نے پورا کیا جن کا نام خواجہ امداد حسین تھا۔ حالی نے بچپن میں قرآن مجید حفظ کیا اور قرأت سیکھی۔ قاری حافظ ممتاز حسین عالم، ان کے پہلے استاد تھے۔ کہتے ہیں کہ حالی اس قدر اچھی آواز اور صحیح طریقے سے قرآن شریف پڑھتے تھے کہ لوگ جھوم اٹھتے تھے۔ سید جعفر علی سے الطاف حسین نے فارسی پڑھی اسی لئے بچپن ہی سے فارسی زبان اور ادب سے دلچسپی پیدا ہوگئی، پھر عربی پڑھی۔ حالی کو علم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا۔ ابھی ۱۷؍ سال ہی کے تھے کہ ان کی شادی ہوگئی۔ مگر علم حاصل کرنے کی جستجو میں کوئی کمی نہیں آئی۔ چنانچہ انہوں نے دلی کا رخ کیا۔ اس زمانے میں ٹرین ،بسوں اور موٹر سائیکلوں کی سہولت نہیں تھی۔ اس وقت اونٹ گاڑی یا بیل گاڑی میں سفر کیا جاتا تھا۔ جن کے پیسہ نہیں ہوتا تھا وہ پیدل چل کر جاتے تھے۔ حالی کے پاس پیسہ بھی نہیں تھا، کسی سے کہہ بھی نہ سکتے تھے مگر ٹھان لیا تھا کہ دلّی جاکر پڑھنا ہے۔ ایک دن چپکے سے رات کے وقت گھر سے نکلے اور دلّی کی طرف چل پڑے۔ ایک لگن تھی ایک شوق تھا جو راستہ دکھا رہا تھا اور ہر مصیبت جھیلنے پر اکسا رہا تھا۔ دلّی کی طرف چلتے رہے، جوتے پھٹ گئے، پیروں میں چھالے پڑ گئے، کانٹوں نے پیر زخمی کردئیے۔ راستہ میں دو چار بار کسی بیل گاڑی وغیرہ میں بھی تھوڑا راستہ طے کیا مگر زیادہ تر پیدل ہی چلے۔ اس طرح دکھ اٹھاتےمنزل پر پہنچ گئے۔ دلّی پہنچ کر ’’حسین بخش کا مدرسہ‘‘ میں گئے جہاں عالم نوازش علی لڑکوں کو تعلیم دیتے تھے۔ وہ حالی کے استاد بن گئے۔ حالی کے رہنے کا کہیں ٹھکانا نہ تھا وہیں مسجد کے فرش پر سو رہتے۔ نہ تکیہ تھا نہ بستر تھا۔ سر کے نیچے دو اینٹیں رکھ لیا کرتے تھے۔ جو ملتا وہ کھالیتے۔ مولوی صاحب کے ساتھ مشاعروں میں جانے لگے تو شعر کہنے کا شوق پیدا ہوا ۔ اس دوران حالی کی ملاقات مرزا غالب سے بھی ہوئی۔ ابتداء میں ان کا تخلص ’’خستہ‘‘ تھا لیکن بعد میں حالی رکھ لیا۔ غالب نے ان کی چند غزلوں اور نظموں کی اصلاح بھی کی تھی۔ ۱۹۰۴ء میں حالی کو ’’شمس اللعلماء‘‘ کا خطاب ملا اور ۳۱؍ دسمبر ۱۹۱۴ء کو پانی پت میں وفات پا گئے۔
اسماعیل میرٹھی
 اسماعیل میرٹھی ۱۸۴۴ء میں میرٹھ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا شمار جدید اردو ادب کےاہم ترین شعرا میں ہوتا ہے۔وہ میرٹھ کے ایک محلے مشائخان میں پیدا ہوئے تھے۔ اب یہ علاقہ اسما عیل نگر کے نام سے مشہور ہے۔ ان کا سلسلہ نسب محمد بن ابو بکر سے ملتا ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کے دوران ہی انہوں نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز کیا، اور اس میدان میں ‌بچوں کی تعلیم و تربیت، ان کو آگاہی اور شعور دینے کی غرض سے مضامین لکھنا شروع کئے اور بعد میں کئی درسی کتابیں تحریر کیں ۔ ملازمت کے دوران ان کی ملاقات قلق میرٹھی سے ہوئی جنہوں نے انگریزی کی ۱۵؍اخلاقی نظموں کا منظوم ترجمہ ’’جواہر منظوم‘‘ کے نام سے کیا تھا۔ اس نے اسما عیل میرٹھی کو بہت متاثر کیا، جس سے نہ صرف ان کی شاعری میں بلکہ جدید اردو نظم میں انقلاب برپا ہوگیا۔ اسماعیل میرٹھی کا شمار ان شاعروں میں ہوتا ہے جنہوں نے اس دور میں اردو زبان و ادب کی آبیاری کی جب فارسی زبان و ادب کا بول بالا تھا۔ اس وقت بچوں کی تدریسی ضرورتوں کا ادراک کرتے ہوئے جس شخص نے باقاعدہ بچوں کے ادب کی طرف توجہ دی وہ اسماعیل میرٹھی تھے۔ انہوں نے نظمیں بھی لکھیں اور اردو کی درسی کتابیں بھی تصنیف کیں ۔ ان کا انتقال ۷۳؍ سال کی عمر میں ہوا تھا۔ 
منشی پریم چند
 منشی پریم چند کا اصلی نام دھنپت رائے ہے لیکن ادبی دنیا میں وہ پریم چند کے نام سے مشہور ہیں ۔ وہ ۱۸۸۰ء میں منشی عجائب لال کے ہاں لامہا (بنارس) میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد ایک ڈاک خانے میں کلرک تھے۔ پریم چند ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے تقریباً ۸؍ سال تک فارسی پڑھنے کے بعد انگریزی تعلیم حاصل کرنی شروع کی۔ ۱۵؍ سال کی عمر میں ان کی شادی ہو گئی، اور ایک سال بعد والد کا انتقال ہو گیا۔ اس وقت ۸؍ ویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ گھر کا بوجھ ان پر آگیا۔ فکر معاش نے پریشان کیا تو لڑکوں کو بطور ٹیوٹر پڑھانے لگے اور میٹرک پاس کرنے کے بعد محکمہ تعلیم میں ملازم ہو گئے۔ اسی دوران بی اے کی ڈگری حاصل کی۔بعد میں ، پریم چند نے ڈپٹی ذیلی انسپکٹر آف اسکولز کے طور پر کام کیا۔پریم چند نے مالی جدوجہد کی زندگی بسر کی۔ ایک بار جب انہوں نے کچھ کپڑے خریدنے کیلئے ڈھائی روپے کا قرض لیا تھا تو اسے لوٹانے کیلئے انہیں ۳؍ سال جدوجہد کرنا پڑی تھی۔ صحت خراب ہونے کی بدولت ان کا انتقال ۸؍ اکتوبر ۱۹۳۶ء کو ہوا تھا۔ 
غلام صوفی تبسم
 صوفی غلام مصطفیٰ تبسم اردو، پنجابی اور فارسی زبانوں کے شاعر تھے۔ وہ بچوں کے مقبول ترین شاعر تھے۔ لیکن انہوں نے بڑوں کیلئےبھی بہت کچھ لکھا۔ صوفی تبسم ۴؍ اگست ۱۸۹۹ء کو امرتسر، پنجاب میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے آبا کا تعلق کشمیر سے تھا۔ انہوں نے فورمین کرسچین کالج (لاہور) سے فارسی زبان میں ماسٹرز کیا تھا۔ وہ اپنی پوری زندگی گورنمنٹ کالج لاہور ہی سے وابستہ رہے تھے۔ وہ ماہانہ میگزین ’’لیل و نہار‘‘ کے مدیر بھی رہے اور براڈ کاسٹر بھی۔ وہ ٹی وی اور ریڈیو سے ’’اقبال کا ایک شعر‘‘ نامی پروگرام کیا کرتے تھے۔ نظم ہو یا نثر، غزل ہو یا گیت، ملی نغمے ہوں یا بچوں کی نظمیں ، انہوں نے ہر شعبے کیلئے لکھا۔ امتیاز علی تاج، پطرس بخاری، مجید لاہوری، چراغ حسن حسرت، حفیظ جالندھری اور عبد الرحمن چغتائی ان کے دوست تھے۔ 
میرزا ادیب
 میرزا ادیب ۴؍ اپریل ۱۹۱۴ء کو لاہور میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام دلاور حسین علی تھا۔ ان کے والد کا نام میرزا بشیر علی تھا۔ میرزا ادیب نے اسلامیہ کالج لاہور سے بی اے کیا۔ ابتدا میں شاعری کو ذریعہ اظہار بنایا مگر پھر نثر کو اپنی شناخت بنالیا۔ اور پھر اردو ادب کی خدمت پر کمربستہ ہو گئے۔ میرزا ادیب نے اپنی ۸۲؍  سالہ زندگی میں اردو ادب کیلئے بہت کچھ کیا۔ نثری ادب کی وہ کون سی صنف ہے جس میں ان کی قد آور شخصیت کی چھاپ نہ ہو۔انہوں نے کئی رسالوں کی ادارت کے فرائض بھی انجام دیئے جن میں ادب لطیف قابل ذکر ہے۔میرزا ادیب کا تعلق ایسے مغل گھرانے سے تھا جہاں غربت اور مسلسل جد و جہد کا راج تھا۔ ان کے دادا بڑے عالم فاضل انسان تھے۔ میرزا ادیب کو اپنی والدہ سے بے پناہ محبت تھی۔ وہ ایک سادہ سی اَن پڑھ خاتون تھیں جن کی زندگی محنت کرتے گزری۔ ’’مٹی کا دیا‘‘ میرزا ادیب نے انہی کیلئے لکھی تھی۔ اس کے برعکس میرزا ادیب اپنے والد سے دور بھاگتے تھے جس کی وجہ ان کے مزاج کی سختی تھی۔ برے حالات ہونے کے باوجود میرزا ادیب کی علم حاصل کرنے کی لگن میں کوئی کمی نہ ہوئی بلکہ یہ شوق اس وقت اور بھی بڑھ گیا جب انہوں نے تجسس کے مارے اپنے دادا کا وہ صندوق کھول لیا جس میں ان کا علمی ورثہ بند تھا۔ اور یہی ورثہ انہیں ادب کی اہم منزلوں تک لے گیا۔ میرزا ادیب نے تمام رسمی اور غیر رسمی تعلیم لاہور میں پائی۔ ان کا انتقال ۳۱؍جولائی ۱۹۹۹ء کو ہواتھا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK