Inquilab Logo

کچھ بچوں کے دانت دوسروں کے مقابلے میں زیادہ خراب ہوتے ہیں، کیوں؟

Updated: December 04, 2020, 7:19 PM IST | Mumbai

اسکول کی عمر تک پہنچتے پہنچتے کم از کم ایک چوتھائی بچوں کے دانت سڑنا شروع ہو جاتے ہیں ۔ ایسا تب ہوتا ہے جب منہ میں موجود بیکٹیریا، چینی کو توڑ کر تیزاب بناتے ہیں جو دانتوں پر حملہ کرکے انہیں گھولنا شروع کردیتا ہے۔

For Representation Purpose Only. Photo INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

اسکول کی عمر تک پہنچتے پہنچتے کم از کم ایک چوتھائی بچوں کے دانت سڑنا شروع ہو جاتے ہیں ۔ ایسا تب ہوتا ہے جب منہ میں موجود بیکٹیریا، چینی کو توڑ کر تیزاب بناتے ہیں جو دانتوں پر حملہ کرکے انہیں گھولنا شروع کردیتا ہے۔میٹھی چیزوں سے پرہیز کرنا اور عمر کے حساب سے فلورائیڈڈ ٹوتھ پیسٹ کا استعمال بچوں میں صحتمند دانت یقینی بنانے کا اب بھی بہترین طریقہ ہے مگر والدین کی مسلسل کوششوں کے باوجود چند بچوں کے دانت قدرتی طور پر دیگر بچوں کے مقابلے میں کمزور ہوتے ہیں اور آسانی سے خراب ہوجاتے ہیں ۔
 آسٹریلیا میں ہونے والی حالیہ تحقیقات کے مطابق اسکول کی عمر سے چھوٹے۱۴؍ فیصد بچے ہائپومنرلائزڈ سیکنڈ پرائمری مولرز (ایچ ایس پی ایم) کا شکار ہوتے ہیں جس سے بچوں کے دانتوں کی باہری سطح درست طریقے سے نشوونما نہیں پاتی اور وہ کمزور ہوجاتے ہیں اور ان کی خرابی کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
 ایچ ایس پی ایم کے شکار بچوں کے دانتوں پر سفید یا پیلے دھبے اور کھردرا پن نمودار ہوجاتا ہے کیونکہ ان جگہوں سے اینامل یا باہری خول ٹوٹ چکا ہوتا ہے۔یہ دانت اتنے کمزور ہوجاتے ہیں کہ وہ چبانے کا کام مناسب انداز میں نہیں کر پاتے اور مسوڑھوں سے باہر آنے پر ٹوٹ جاتے ہیں ۔
 یہ دانت اکثر انتہائی حساس ہوتے ہیں اور بچے ان میں اٹھنے والے درد کی وجہ سے انہیں برش کرنے سے کتراتے ہیں ۔ چونکہ دانت پہلے ہی کمزور ہوتے ہیں ، اس لئے برش نہ کرنے کی وجہ سے یہ مزید تیزی سے خراب ہوجاتے ہیں ۔اینامل سے چپک جانے والی فلنگ کے عمومی طریقے بھی کام نہیں کرتے کیونکہ اینامل کافی خراب ہوتا ہے۔ اس لئے ان بچوں کو بار بار ڈینٹسٹ کے پاس جانا پڑتا ہے۔
  چنانچہ سائنسدانوں نے پایا ہے کہ بچوں میں ڈینٹسٹ کے پاس جانے سے متعلق اینگزائٹی اور فوبیا میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
وجوہات
 دانتوں کا اینامل دانتوں کے مسوڑھوں سے باہر آنے سے قبل ہی تیار ہوجاتا ہے۔ بچوں کی داڑھ حمل کے درمیانی عرصے میں بننا شروع ہوتی ہے اور پیدائش تک مکمل ہوجاتی ہے۔ کھال اور ہڈی کے برعکس دانتوں کا اینامل قدرتی طور پر ٹھیک نہیں ہوسکتا اس لئے جب۲؍ سال کی عمر تک پرائمری داڑھیں مسوڑھوں سے باہر آتی ہیں تو اینامل کی خرابی وہیں موجود ہوتی ہے۔ ۲؍ سال کی عمر تک بچوں کو دانتوں کا چیک اپ تجویز کیا جاتا ہے مگر صرف۳؍ میں سے ایک بچہ۴؍ سال کی عمر تک ڈینٹسٹ کے پاس جا پاتا ہے۔
 نقصان کے شکار دانت اکثر تب تک توجہ میں نہیں آتے جب تک وہ ٹوٹ نہ جائیں یا انفیکشن کا شکار نہ ہوجائیں ۔ اس صورتحال میں انہیں نکالنا پڑتا ہے۔
 جڑواں بچوں پر ہونے والی ایک تحقیق میں سامنے آیا ہے کہ یہ وجوہات ضروری نہیں کہ جینیاتی ہوں بلکہ ان کی وجوہات حمل یا دورانِ پیدائش ہونے والی کوئی چیز بھی ہوسکتی ہے۔ ایچ ایس پی ایم کا تعلق حمل کے دوران بیماری، سگریٹ نوشی اور شراب نوشی سے قائم کیا گیا ہے مگر اب بھی اس تعلق کی تصدیق کیلئے مزید تحقیق جاری ہے۔
علاج
 اینامل کو کمزور کرنے والی وجوہات کا مطلب ہے کہ جہاں صحت بخش غذا اور باقاعدگی سے برش کرنا دانتوں کی اچھی صحت کیلئے مددگار ہوتے ہیں وہیں اضافی حفاظتی تدابیر کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
  ڈینٹسٹ دانتوں کے ٹوٹنے سے قبل ان کے کمزور ہونے کی علامات کی نشاندہی کرسکتے ہیں ۔ وہ دانتوں کو سیل یا فلنگز لگا کر محفوظ بنا سکتے ہیں جس سے کمزور حصے ڈھک جائیں ۔ شدید متاثر دانتوں میں علاج کیلئے وقت کم ہوتا ہے اس لئے باقاعدگی سے ڈینٹسٹ کے پاس جانا اہم ہے تاکہ دانتوں کی حفاظت ابتدائی عمر ہی میں کی جاسکے۔
 خیال رہے کہ بچوں کو پہلی بار ۱۲؍ ماہ کی عمر میں ڈینٹسٹ کے پاس لے جانا چاہئے یا پھر تب جب دانت پہلی بار باہر آئیں ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK