Inquilab Logo

عالمی کہانیوں کا ترجمہ: ہار

Updated: March 17, 2023, 4:19 PM IST | Shahebaz khan | Mumbai

گی دی موپاساں کی شاہکار مختصر کہانیLa Peur ’’لا پیئر‘‘ ( انگریزی :The Necklace) کا اُردو ترجمہ

photo;INN
تصویر :آئی این این

وہ اُن خوبصورت اور دلکش لڑکیوں میں سے ایک تھی جو قسمت کی غلطی سے کلرکوں کے خاندان میں پیدا ہوئی۔ اس کے پاس دولت اور شہرت نہیں تھی حتیٰ کہ گھر سے جہیز بھی نہیں ملا تھا۔ اور اس طرح اس کی شادی وزارت تعلیم کے ایک ادنیٰ اہلکار سے ہوگئی۔ آج اس نے صاف ستھرا لباس پہنا تھا۔ اس سے قبل اس نے کبھی ایسا لباس نہیں پہنا تھا۔لیکن وہ آج بھی ناخوش تھی۔ اُس نے لامتناہی تکلیفیں برداشت کیں کہ ایک دن اس کی زندگی بھی آسائشوں سے پُر ہوگی۔ وہ اپنے گھر میں بیٹھی خستہ حال دیواروں، بوسیدہ کرسیوں اور بدصورت پردوں کو دیکھتی رہتی۔ اس کا خیال تھا کہ اس کے طبقے کی کسی دوسری خاتون نے کبھی اتنے برے دن نہیں دیکھے ہوں گے۔ اس نے بڑی عمارت، نفیس برتنوں، اونچی کرسیوں، اعلیٰ قالین ، ریشمی پردوں، بڑی بڑی وزنی اور خوبصورت مشعلیں، وسیع و عریض کمرے، انمول زیورات سے لدے خوبصورت فرنیچراور پرفیوم اور قریبی سہیلیوں کے ساتھ گپ شپ کا کمرہ جیسی چیزوںکا خواب دیکھا تھا۔ جب وہ رات کے کھانے کیلئےتین دن پرانے کپڑے سے ڈھکی گول میز پر اپنے شوہر کے سامنے بیٹھی، جو سوپ کا ڈھکن اٹھاتے ہی جوش سے چلایا ’’آہ! بیف اسٹیو! اس سے بہتر کیا ہو سکتا ہے۔‘‘ اُس نے چمکتے چاندی کے برتن اور لذیذ پکوانوں کا خواب دیکھا تھا۔ لیکن اس کے پاس خواب اور امید کے سوا کچھ نہیں تھا۔ نہ اس کےپاس ریشمی لباس تھے اور نہ ہی زیورات۔ 
 اس کی ایک امیر دوست تھی جس سے اس نے ملنا جلنا چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ جب بھی اس کے گھر جاتی تو اپنے گھر آکر اسے بہت تکلیف ہوتی۔ اس کے بعد وہ پورا دن دکھ، ندامت، مایوسی اور غم سے روتی رہتی۔
 ایک شام اس کا شوہر ہاتھ میں ایک بڑا سا لفافہ لئے مسکراتا ہوا گھر میں داخل ہوا۔ ’’دیکھو!‘‘ اس نے کہا، ’’ اس میں تمہارے لئے کچھ ہے۔‘‘
  اس نے کاغذ پھاڑ کر ایک کارڈ نکالا، جس پر یہ الفاظ درج تھے: 
 ’’وزیر تعلیم اور مسز جارجیس رامپونیو، ۱۸؍ جنوری ، بروز پیر شام کو وزارت میں مسٹر اور مسز لوئزیل کی آمد کے منتظر ہیں۔‘‘خوش ہونے کے بجائے جیسا کہ اس کے شوہر کو امید تھی، اس نے ناراضگی سے دعوت نامہ میز پر پھینک دیا، اور بڑبڑائی: ’’تم کیا چاہتے ہو کہ مَیں کیا کروں؟‘‘ 
 ’’لیکن، مجھے لگا کہ تم خوش ہوگی۔ تم کبھی باہر نہیں جاتی ہو ،اور یہ اچھا موقع ہو گا! مجھے یہ کارڈ حاصل کرنے میں بہت پریشانی ہوئی۔ ہر کوئی اس دعوت میں جانا چاہتا ہے؛پوری کابینہ وہاں موجود ہو گی۔‘‘ 
 اس نے غصے سے اپنے شوہر کودیکھا اور کہا: ’’اور اگر میں وہاں جاؤں تو آپ کیا توقع رکھتے ہیں کہ مَیں کیا پہنوں؟‘‘ شوہرنے یہ نہیں سوچا تھا۔ اس نے چونک کر کہا: ’’تم جس لباس میں تھیٹر جاتی ہو، وہ مجھے بہت اچھا لگتا ہے، اور...‘‘وہ اپنی بیوی کو روتا دیکھ کر رُک گیا، دنگ رہ گیا، پریشان ہوا۔ بیوی کی آنکھوں سے آنسو نکل کر اس کے لبوں کے کناروں پر آرہے تھے۔ وہ ہکلایا’’کیا بات ہے؟ کیا بات ہے؟‘‘ 
 بڑی کوشش سے اس نے اپنے غم پر قابو پایا اور اپنے گیلے گالوں کو پونچھتے ہوئے پرسکون آواز میں جواب دیا:’’کچھ نہیں۔ میرے پاس کوئی اچھا لباس نہیں ہے اس لئے میں پارٹی میں نہیں جا سکتی۔ یہ دعوت نامہ اپنے کسی ایسے دوست کو دو جس کی بیوی کے پاس مجھ سے بہتر کپڑے ہیں۔‘‘ وہ پریشان تھا، لیکن دوبارہ کوشش کی:
 ’’میتھیلڈے! چلو بتاؤ کہ ایک اچھے لباس کی قیمت کتنی ہو گی؟‘‘ اس نے ایک لمحہ سوچا اور جھجکتے ہوئے جواب دیا’’شاید ۴۰۰؍ فرینک!‘‘ (فرانسیسی کرنسی)۔ شوہر کا چہرہ زرد پڑگیا کیونکہ وہ اگلے موسم سرما میں شکار پر جانے کیلئے بندوق خریدنے کا خواہشمند تھا اور اتنی ہی رقم کی بچت کررہا تھا۔ تاہم، اس نے کہا: ’’ٹھیک ہے! میں تمہیں ۴۰۰؍ فرینک دے سکتا ہوں۔ لیکن ایک خوبصورت لباس خریدنا۔‘‘ 
 پارٹی کا دن قریب آ گیا مگر میڈم لوئزیل اداس، بے چین اور پریشان دکھائی دے رہی تھی۔ تاہم، اس کا لباس تیار تھا۔ ایک شام اس کے شوہر نے کہا’’کیا بات ہے؟ تم پچھلے تین دنوں سے عجیب وغریب حرکتیں کر رہی ہو؟‘‘اس نے جواب دیا’’میں پریشان ہوں کہ میرے پاس زیورات کے نام پر ایک پتھر بھی نہیں ہے۔ پارٹی میں مَیں امیر نظر نہیں آؤں گی۔ اس سے اچھا ہوگا کہ میں پارٹی ہی میں نہ جاؤں۔‘‘ 
 ’’تم پھولوں کے زیورات پہن سکتی ہوں۔‘‘ شوہرنے کہا۔
 اسے اپنے شوہر کی بات پسند نہیں آئی۔ ’’نہیں؛ وہاں امیر خواتین کے درمیان غریب نظر آنے سے زیادہ ذلت آمیز کوئی چیز نہیں ہے۔‘‘
 ’’کتنی بیوقوف ہو تم!‘‘ اس کا شوہر صدمے میں تھا۔ ’’جاؤ! اپنی دوست میڈم فارسٹیر کے پاس اور اس سے کہو کہ وہ تمہیں کچھ زیورات ادھار دیدے۔‘‘ وہ خوشی سے چیختے ہوئے بولی’’ یقیناً! میں نے تو یہ سوچا ہی نہیں۔‘‘ اگلے دن وہ اپنی سہیلی کے گھر گئی اور اپنی پریشانی بتائی۔ میڈم فارسٹیر اپنی بڑی سی الماری سے ایک خوبصورت ڈبہ نکال لائی اور اسے کھولتے ہوئے کہا ’’ڈیئر! اس میں سے جو چاہئے، منتخب کرلو۔‘‘ 
 پہلے اس نے کچھ کنگن دیکھے، پھر موتیوں کا ہار، پھر قیمتی پتھروں سے مزین سونے کا سیٹ۔ آئینے کے سامنے اس نے زیورات اپنے اوپر سجا سجا کر دیکھے۔ اچانک اس کی نظر ایک سیاہ ساٹن باکس پر پڑی جس میں ہیروں کا شاندارہار تھا۔ اس کا دل بے قابو خواہشات سے دھڑکنے لگا۔ ہارلیتے ہی اس کے ہاتھ کانپنے لگے۔ اس نے اسے اپنے گلے میں باندھا، اور آئینے میں خود کو دیکھتے ہی گنگ رہ گئی۔ پھر اس نے بے چینی سے پوچھا’’کیا تم مجھے یہ ادھار دے سکتی ہو؟‘‘ 
  ’’ارے کیوں نہیں، بالکل۔‘‘ میڈم لوئزیل نے اپنی دوست کو بے خودی کے عالم میں گلے لگالیا، اور پھر ہار لے کر لوٹ آئی۔
 پارٹی کا دن آ پہنچا۔ میڈم لوئزیل پارٹی میں موجود تمام عورتوں سے زیادہ خوبصورت نظر آرہی تھی۔ وہ ایک مہربان مسکراہٹ لئے سب سے مل رہی تھی۔ تمام مرداسے گھور رہے تھے، اس کا نام پوچھ رہے تھے اور اس سے ملنے کی کوشش کررہے تھے۔ کابینہ کے تمام اہلکار اس کے ساتھ رقص کرنا چاہتے تھے۔ وزیر اسے غور سے دیکھ رہا تھا۔ > وہ پارٹی میں پرجوش انداز میں رقص کرتی رہی۔ وہ ایک آوارہ بادل کی طرح ادھر سے ادھر تھرکتی پھررہی تھی۔ وہ سب کچھ بھول گئی تھی، بس اسی لمحے میں جینا چاہتی تھی۔ آج وہ اپنے مقصد میں کامیاب رہی تھی۔ 
 وہ پارٹی سے صبح تقریباً چار بجے نکلی۔ نکلتے وقت وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتی تھی کہ کوئی امیر خاتون اپنے فر والے کوٹ میں اسے غریبی میں لپٹے لبادے میں نہ دیکھے۔ اس نے وہ کوٹ نفرت سے پھینک دیا جو اس کے شوہر نے اس کیلئے باہر پہن کر جانے کیلئے لایا تھا۔ اس کے قیمتی لباس اورشوہر کے لائے ہوئے سستےکوٹ کا کوئی جوڑ نہیں تھا۔ 
 مسٹر لوئزیل نے کہا: ’’تھوڑی دیر رُکو ، باہر سردی لگ جائے گی۔ میں جا کر ٹیکسی ڈھونڈتا ہوں۔‘‘ لیکن اس نے اپنے شوہر کی ایک نہ سنی اور سیڑھیوں سے نیچے بھاگی۔ اس کے پیچھے لوئزیل بھی آیا۔ جب وہ گلی میں پہنچے تو انہیں کوئی ٹیکسی نہیں ملی۔ وہ سردی سے کانپتے ہوئے مایوسی کے عالم میں اپنے گھر کی جانب چل پڑے۔ آخر کار انہیں راستے میں ایک ٹیکسی مل گئی اور پھر وہ اپنے مکان میں آگئے۔ اس کیلئے سب ختم ہو چکا تھا۔ میڈم لوئزیل آئینے کے سامنے کھڑی اپنے شاندار سراپے پر آخری نظر ڈال رہی تھی کہ چونک گئی۔ اس کے گلے میں ہیروں کا ہار نہیں تھا۔ وہ اچانک رونے لگی۔’’کیا مسئلہ ہے؟‘‘ شوہر نے پوچھا۔ وہ گھبرا کر اس کی جانب مڑی ’’میرے پاس ... میرے پاس ... میرے پاس میڈم فارسٹیر کا ہار نہیں ہے۔‘‘وہ پریشان ہوگیا ’’کیا!... کیسے!... یہ ناممکن ہے!‘‘وہ اس کے لباس کی تہوں میں، اس کی چادر کی تہوں میں، اس کی جیبوں میں، ہر جگہ ہار ڈھونڈنے لگے۔ لیکن ہار نہیں ملا۔ 
 ’’جب تم رقص کے کمرے سے نکلی تو ہار تمہارے گلے میں تھا؟‘‘ اس نے پوچھا۔’’ہاں! میں نے ہال میں اسے چھوا تھا۔‘‘ ’’لیکن اگر ہار گلی میں گرتا تو اس کی آواز سنائی دیتی۔ ہار ضرور ٹیکسی میں گرا ہوگا۔‘‘
 ’’ہاں۔ شاید ایسا ہی ہو۔ کیا تمہیں اس کا نمبر یاد ہے؟‘‘ 
 ’’نہیں۔ کیا تمہیں یاد ہے؟‘‘ 
 ’’نہیں۔‘‘ وہ چونک کر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ 
 ’’ہم جس راستے سے آئے ہیں، میں اسی پر واپس جارہا ہوں۔ شاید ہار مل جائے۔‘‘ لوئزیل یہ کہتا ہوا نکل گیا۔وہ اپنے شاندار لباس میں انتظار کرتی رہی۔ نہ اسے سردی کا غم تھا اور نہ ہی کھانے پینے کا ہوش۔ وہ بس خالی ذہن کے ساتھ کرسی پر بیٹھی تھی۔ سات بجے کے قریب اس کا شوہر ناکام واپس آیا۔ اسے کچھ نہیں ملا تھا۔ وہ پولیس کے پاس گیا، اخبارات کے دفاتر گیا، ٹیکسی کمپنیوں کے پاس گیا، ہر اس جگہ گیا جہاں امید کی چھوٹی سی بھی کرن دکھائی دی۔ ’’اپنی دوست کو لکھ دو کہ ہار کا ہُک ٹوٹ گیا ہے اور تم نے اسے ٹھیک کروانے کیلئے دیا ہے۔ اس طرح ہمیں ہار ڈھونڈنے کا کچھ اور وقت مل جائے گا۔‘‘ لوئزیل نے بیوی سے کہا۔ اس نے اپنے شوہر کے مشورے پر عمل کیا۔ ہفتے کے اختتام پر وہ تمام امیدیں کھو چکے تھے۔ اِن چند دنوں میں لوئزیل اپنی عمر سے ۵؍ سال بڑا نظر آنے لگا تھا۔ اس نے کہا ’’ہمیں اس ہار کی نقل ڈھونڈنا چاہئے۔‘‘ اگلے دن انہیں ہار کے ڈبے سے جوہری کا پتا مل گیا اوروہ اس کے پاس پہنچ گئے۔ اس نے اپنے رجسٹر دیکھے اور کہا : ’’ میں نے ہار نہیں فروخت کیا ہے بلکہ صرف ڈبہ سپلائی کیا ہے۔‘‘ اور یوں وہ ایک سے دوسرے جوہری کی دکانوں میں بھٹکتے رہے۔ وہ اپنی یادداشت کی بنیاد پر ہار کی نقل تلاش کرتے رہے۔ 
 دونوں غم اور پریشانی سے بیمار نظر آرہے تھے۔ دفعتاً پیلس رائل کی ایک دکان میں انہیں ویسا ہی ایک ہار نظر آیا جس کی قیمت ۴۰؍ ہزار فرینک تھی۔ جوہری اسے ۳۶؍ ہزار میں بیچنے پر تیار ہوگیا۔ چنانچہ انہوں نے جوہری سے منت کی کہ اسے تین دن تک فروخت نہ کرے۔ اور انہوں نے یہ انتظام بھی کیا کہ اگر پہلا ہار فروری کے ختم ہونے سے پہلے مل گیا تو وہ دوسرا ہار (نقل) ۳۴؍ ہزار فرینک میں واپس لے گا۔ لوئزیل کے پاس ۱۸؍ ہزار فرینک تھے جو اس کے والد نے مرتے وقت اس کیلئے چھوڑے تھے۔باقی رقم کا انتظام وہ ادھار لے کر کرنے والا تھا۔ پھر اس نے ادھار لیا، ایک آدمی سے ہزار فرینک مانگے، دوسرے سے پانچ سو، یہاں سے ؍ہزار فرینک، وہاں سے ۳؍ ہزار۔ اس دوران اس نے قرض دینے والوں سے، سود خوروں سے، ہر قسم کے ساہوکاروں سے، پیچیدہ معاہدے تک کئے۔اس نے اپنی باقی زندگی کے ساتھ یہ سوچے بغیر سمجھوتہ کرلیا کہ یہ کتنا خوفناک ہوسکتا ہے۔ اس نے کئی کاغذات پر دستخط کئے۔ اس پر ذہنی اور جسمانی اذیتیں حملہ کرنے والی تھیں لیکن وہ ہار کی مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اس نے نیا ہار ۳۶؍ ہزار فرینک میں خرید لیا۔ جب میڈم لوئزیل نے ہار واپس کیا تو میڈم فارسٹیر نے سرد لہجے میں کہا ’’تمہیں اسے جلد واپس کر دینا چاہئے تھا، مجھے اس کی ضرورت تھی۔‘‘لیکن اچھی بات یہ ہوئی کہ میڈم فارسیٹر نے میڈم لوئزیل کے سامنے ڈبہ نہیں کھولا۔ ورنہ وہ ہار کی نقل دیکھ کر کیا کہتی کہ اس کی سہیلی چور ہے؟ 
 اس دن کے بعد سے میڈم لوئزیل یہ جان گئی کہ غربت کی زندگی کتنی ہولناک ہے۔ لیکن اس پر آئی مصیبت کا اس نے بہادری سے مقابلہ کیا۔ لیکن اب اسے قرض ادا کرنا ہوگا۔ اور وہ قرض ضرور ادا کرے گی۔ انہوں نے اپنی نوکرانی کو کام سے نکال دیا۔ اپنی رہائش گاہ بدل لی۔ انہوں نے ایک کمرہ کرائے پر لیا۔ تب اسے گھر کے کام کاج کی مشقت کا علم ہوا۔ وہ برتن دھوتی، چکنائی والے برتنوں کو اپنے گلابی ناخنوں سے صاف کرتی۔ اس نے گندے کپڑے دھوئے۔ وہ ہر صبح کوڑا کرکٹ نیچے گلی میں لے جاتی، پانی بھرتی، کام کرتے کرتے اس کا سانس پھول جاتا تھا۔ وہ ہاتھ میں باسکٹ لٹکائے بازار میں سودا سلف خریدتی۔ پھل فروشوں، پنساریوں اور قصابوں کی دکانوں کے چکر لگاتی۔ دکانداروں سے بھاؤ تاؤ کرتی۔
 ہر ماہ انہیں قرض کی رقم کا ایک حصہ ادا کرنا پڑتا تھا۔ اس کا شوہر شام میں بھی کام کرتا تھا۔ وہ ایک تاجر کا کھاتہ سنبھالتا اور رات گئے مخطوطات پڑھتا رہتا تھا جس کے ہر صفحہ کے اسے ۵؍ لوئی (فرانسیسی سکہ) ملتے تھے۔ ان کی یہ زندگی دس سال تک جاری رہی۔ دس سال میں انہوں نے تمام قرض سود سمیت لوٹا دیئے۔ لیکن اب میڈم لوئزیل بوڑھی نظر آنے لگی تھی۔ انتہائی غریب گھرانوں کی عورتوں کی طرح اس کی جلد سخت اور کھردری ہو گئی تھی۔ بال خراب ہوگئے تھے۔ آواز سے نرمی ختم ہوگئی تھی۔ لیکن کبھی کبھی وہ کھڑکی کے پاس بیٹھ کر پارٹی کی اس شام کے بارے میں سوچتی تھی۔ اس وقت وہ کتنی خوبصورت تھی۔ لوگ اس کی تعریفیں کررہے تھے۔ اگر وہ ہار نہ کھوتی تو کیا ہوتا؟ زندگی کتنی عجیب ہے، کتنی بے چین ہے! کسی کو برباد کرنے یا بچانے کیلئے ایک ٹھوکر ہی کافی ہوتی ہے۔
 ہفتے بھر کام کرنے کے بعد ایک اتوار جب وہ خود کو تازہ دم کرنے کیلئے قریبی پارک گئی تو وہاں ایک خاتون اور بچے کو دیکھا۔ یہ میڈم فارسٹیر تھی، اب بھی جوان، اب بھی خوبصورت، اب بھی دلکش۔ میڈم لوئزیل جذباتی ہوگئی۔ کیا اسے اس سے بات کرنی چاہئے؟ ہاں بالکل! اب اس نے قرض ادا کردیا ہے۔ وہ اسے سب کچھ بتاسکتی ہے۔ پھر میڈم لوئزیل، میڈم فارسیٹر کے پاس گئی۔
 ’’صبح بخیر، جینی۔‘‘ وہ عورت میڈم لوئزیل کو پہچان نہ سکی۔ ایک عام سی عورت اس سے اس طرح مخاطب تھی جیسے مانوس ہو۔ وہ چونک کر بولی ’’تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں تمہیں نہیں جانتی!‘‘ ’’میں میتھلیڈے لوئزیل ہوں۔‘‘ اس نے روتے ہوئے کہا۔ 
 ’’اوہ! ... میری میتھلڈے، تم کتنی بدل گئی ہو، لیکن کیسے؟‘‘’’جب میں نے تمہیں آخری بار دیکھا تھا، اس کے بعد کافی مشکل وقت سے گزری ہوں۔ بہت سے مصائب جھیلے ہیں ... اور سب کچھ تمہاری وجہ سے!...‘‘
 ’’میری وجہ سے؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘
  ’’تمہیں ہیروں کا وہ ہار یاد ہے جو تم نے مجھے پارٹی میں پہننے کیلئے دیا تھا؟‘‘
  ’’ہاں، تو؟‘‘ 
 ’’وہ مجھ سے کھوگیا تھا۔‘‘ 
 ’’کیا مطلب؟ تم نے تو ہار لوٹا دیا تھا۔‘‘ 
 ’’میں نے تمہیں اس کی طرح دکھائی دینے والا دوسرا ہار دیا تھا جس کی قیمت ادا کرنے میں ہمیں دس سال لگے ۔ یہ ہمارے لئے آسان نہیں تھا لیکن وہ وقت گزرگیا۔ اب میں بہت خوش ہوں۔‘‘
  میڈم فارسٹیر دنگ رہ گئیں۔ ’’تم کہہ رہی ہو کہ تم نے میرے ہار کی نقل مجھے لوٹائی ہے!‘‘
  ’’اچھا؛ تو تم نے اس پر دھیان ہی نہیں دیا؟ یعنی وہ کافی ملتے جلتے تھے۔‘‘ وہ فخریہ انداز میں خوشی سے مسکرا دی۔ میڈم فارسٹیر نے فرطِ جذبات سے اس کے دونوں ہاتھ پکڑ لئے ’’ میری پیاری میتھلیڈے! میرا ہار نقلی تھا! وہ اصلی ہیروں کا نہیں تھا۔ اس کی زیادہ سے زیادہ قیمت ۵۰۰؍ فرینک تھی! ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK